محترم شیخ ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے کہ اجناس کو اس غرض سے ذخیرہ اندوز کرنا کہ مارکیٹ میں ریٹ بڑھنے پر فروخت کر کے نفع حاصل کیا جائے۔ مثلاً عام حالات میں چینی ، گھی ،کھل اور دیگر اجناس خرید کر سٹور کرنا اور ریٹ بڑھنے کا انتظار کرنا۔ اس صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ ذخیرہ شدہ چیز کاریٹ کچھ بڑھنے کے بعد اچانک کم ہو جائے یعنی نفع اور نقصان کی دونوں صورتیں ممکن ہیں۔ ۔قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلاً
جواب تحریرفرما کر عندا للہ ماجور ہوں۔ نیز اس بارے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اگر کسان فصل حاصل کرنے کے بعد ریٹ بڑھنے کی غرض سے فروخت کرنے سے روک رکھے تو اس کا یہ فعل قرآن و حدیث کی رُو سے کیسا ہے؟ (عبدالرزاق عابد ، وہاڑی ، یکم جمادی الثانیہ ۱۴۲۱ھ)
کسی چیز کاذخیرہ کرنا اس غرض سے کہ جب مہنگی ہو جائے گی تب اسے فروخت کیا جائے گا عربی زبان میں احتکار کہلاتا ہے۔ چنانچہ صاحب قاموس لکھتے ہیں: ((وبالتحکیریک ما احتکر أی احتبس انتظارا لغلائہ)) صحیح مسلم میں ہے ’’ معمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنِ احتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیٌٔ))1 ’’جس نے احتکار کیا وہ گناہگار ہے۔‘‘ آپ نے مکتوب میں احتکار کی جتنی صورتیں درج فرمائی ہیں وہ بھی اور جو صورتیں آپ نے مکتوب میں نہیں لکھیں وہ بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مندرجہ بالا فرمان کے پیش نظر ناجائز اور حرام ہیں۔ واللہ اعلم ۹/۴/۱۴۲۱ھ
1 مسلم ؍کتاب المساقات والمزارعت؍باب تحریم الاحتکار فی الاقوات۔