سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(616) کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں؟

  • 4983
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5204

سوال

(616) کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہتر ہوتا کہ آپ پہلے سود کی تاریخ ( رضی اللہ عنہ صلی الله علیہ وسلم رضی اللہ عنہما  علیہ السلامجواب رضی الله عنہ) لکھتے پھر سود کی صحیح تعریف لکھتے پھر اس کو سود گردانتے، تو بہتر ہوتا۔

کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں: (مختصر صحیح البخاری مترجم ، دوسرا ایڈیشن جولائی ۲۰۰۰ء ، ابن ابراہیم ص:۳۷۸، حدیث:۱۰۸۴،۱۰۸۵،۱۰۸۶۔ اس میں صاف لکھا ہے : ((نھی النبی صلی الله علیہ وسلم عَنْ کِرائِ المَزَارِعِ  فترک کراء الارض)) [نبی صلی الله علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا ہے] انہوں نے کھیت کرایہ پر دینا چھوڑ دیا۔(صحیح بخاری؍کتاب المزارعۃ)اس پر مزید دیکھیں: (تفہیم القرآن ، جلداوّل، ص:۲۱۰، ۲۱۲۔ صاف کرایہ کی نفی ہے۔) مزید دیکھیں: اسلام میں حلال و حرام از یوسف القرضاوی ص:۳۳۴تا ۳۳۶ پر لکھتے ہیں ’’اس کے برخلاف ایک فریق کے حصے کا تعین کرنا کہ وہ قطعی فائدے میں رہے اور دوسرے کو غیر یقینی صورت کے حوالے کرنا کہ اس کے حصے میں شاید پسینہ بہانے کے سوا کچھ نہ آئے یہ صورت سود اور جوئے کے کس قدر مشابہ ہے ۔ اور ایسا ہوتا ہے ۔ سود کی تعریف : …طے شدہ رقم پر طے شدہ مدت پر طے شدہ اضافہ سود ہے۔ از مودودیؒ

سود کی تعریف :  … جاہلی دَور کا سودیوں تھا کہ طے شدہ مدت کے لیے دس دینار قرض دیتا اور وصولی پندرہ کی کرتا۔ منہاج المسلم از ابو بکر جابر ۔ اس کتاب کے ص:۵۷۲ پر لکھتے ہیں کہ راہن کے مفلس یا فوت ہو جانے پر قرض مطالبہ کرنے پر نہ ملے تو مرہونہ شے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کیا جائے ۔ تو اگر بقول آپ شے مرہونہ امانت ہے تو اس میں تصرف جائز نہیں یہاں تو فروخت کیا جا رہا ہے چلیں آپ کہیں کہ ایسی صورت میں کیا ہو گا؟

(۲)…یہ صحیح ہے اصل ملکیت راہن کی رہے گی اگر وہ مقررہ میعاد تک قرضہ واپس کر دے ورنہ تو فروخت کا حکم ہے ( مثلاً ایک شخص بندوق رہن رکھ کر قرض لیتا ہے اس کی قیمت کے برابر اب وہ چار سال بعد بھی قرضہ واپس نہ کرے اور کہے کہ وہ بندوق رکھو اور اس کی قیمت کم ہو قرضہ سے تو کیا ہو گا) میں نے عرض کیا کہ اب یہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اور ایسا ہو رہا ہے۔

(۳)… ٹھیکہ یا کرایہ غلط لکھا جا چکا ہے ۔ جب آپ نے سود کی تعریف ہی نہیں لکھی تو اسے سود لکھنا چہ معنی دارد۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری؍کتاب الزارعۃ؍باب ما کان من اصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم یواسی بعضھم بعضاً فی الزارعۃ والثمرۃ۔

(۴)… اگر فریقین کو نفع کی بجائے نقصان ہو تو وہ یہ (Risk ) کیوں لیں گے۔ رہن پر قبضہ مرتہن کا ہے مالک اصل اُس سے فائدہ کیسے اُٹھائے گا؟

(۵)… تو پھر لازم ہے کہ وہ کاشت ہو اور یہ مرتہن ہی کرے گا۔

نوٹ:… میرا تجربہ ہے کہ کاشت میں نقصان ہوتا رہتا ہے ، اور کبھی اس پر کیا خرچہ بمشکل پورا ہوتا ہے اور کبھی فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔

(۶)… حفاظت سے مراد کاشت کرنا ہی ہے اگر کاشت نہ کی جائے تو زمین بنجر وغیرہ ہو جائے گی اور اس کی قدر کم ہوتی رہے گی۔

(۷)…امانت نہیں ضمانت ہے۔ امانت کا قانون اور ہے ضمانت کا قانون اور ہے ۔ اس پر مزید غور فرمائیں۔

(۸)… اپنی کتاب میں انتفاع بالرہن والی حدیثیں عام لکھ چکے ہیں اب اسے جانور پر بند کر رہے ہیں۔ بند کرنے کی کوئی دلیل اس کی ناسخ کیا ہے ۔ اپنی کتاب کا ص:۳۶۳ ملاحظہ فرمائیں ایک سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ سواری اور لویری پر خرچہ کے عوض نفع تو نص میں جائز ہے اس کے علاوہ اشیاء مرہونہ سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے زمین بھی اس میں شامل ہے بشرطیکہ وہ سود نہ ہو۔  دیکھیں جب اصل زر سے علاوہ خرچہ کے عوض نفع جائز ہے ، جانور سے تو یہ قانون زمین پر کیوں نہیں لگتا۔ کیا زمین خودبخود دانے اُگلتی ہے۔ زمین پر جتائی ، بیج ، کھاد ، دوا ، پانی ، مالیہ وغیرہ خرچہ آتا ہے اور نفع کبھی ہوتا ہے کبھی نقصان اور کبھی برابر۔

(۹)…ہاں ٹھیک ہے رہن لے کر کرایہ یا ٹھیکہ پر دینا سود ہو گا کیونکہ اس پر مرتہن کا خرچہ نہیں ہوا۔

(۱۰)…ٹھیک ہے یہ سود نہیں تھا مگر اس سے یہ تو نکلتا ہے مرتہن کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ دیکھیں ایک پیداواری قرضہ ہے ایک غیر پیداواری ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ترغیب دلائی کہ قرض خواہ کو کچھ زیادہ دیا کرو از خود یہ حکم نہیں۔

(۱۱)… میرے علم میں اس وقت کوئی کاروبار ( صلی الله علیہ وسلم ) نہیں ہے۔ جھوٹ ، فریب ، ملاوٹ ، بے ایمانی عام ہے  یہ میرا تجربہ ہے۔

نوٹ:… ایک المیہ ہے کہ ایک ہی لائن کے مختلف عالم ایک ہی مسئلے کو کوئی جائز کہتا ہے کوئی ناجائز کوئی حلال کوئی حرام ، ایسی صورت میں کیا کیا جائے کس کی مانی جائے مثلاً میرے سامنے آپ کی احکام و مسائل اور مبشر احمد ربانی کی کتابیں موجود ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: عورت کی امامت صحیح نہیں، بچے کے کان میں اذان ثابت ہے ، جبکہ ربانی صاحب لکھتے ہیں: عورت کی امامت ثابت ہے اذان ثابت نہیں۔ اب بتائیں کہ عوام الناس کدھر جائے؟  کیا ایسا ممکن نہیں کہ کم از کم اہل حدیث تو ایک بورڈ یا کمیٹی بنائیں جو ایسے جواب دے متفقہ۔ رہن سے نفع کی ایک نقل آپ کو ارسال کر رہا ہوں اور وہ آپ کے شاگرد کی تحریر ہے میری مراد کج بحثی نہیں ہے میں شرح صدر چاہتا ہوں۔

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں

فقیہ مصلحت بین سے وہ رِند بادہ خوار اچھا

                                                                       (صوبیدار محمد رشید ، قصور)

{فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ}            [البقرۃ،آیت۲۸۲]

’’پس گروی چیز قبضہ میں رکھی جائے گی۔‘‘

((الحدیث:باب الرھن مرکوب و محلوب:… عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم الظھریرکب بنفقتہ اذا کان مرہونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ اذا کان مرہونا وعلی الذی یرکب ویشرب النفقۃ)) [بخاری ؍کتاب الرھن ؍باب الرھن مرکوب و محلوب ]

’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سواری پر سوار ہوا جائے گا بوجہ ا س کے خرچہ کے جب وہ سواری گروی رکھی جائے گی اور بکری کا دودھ پیا جائے گا اس کے خرچہ کی وجہ سے جب کہ وہ حیوان گروی رکھا جائے گا اور وہ شخص جو سواری کرے گا اور دودھ پیے گا خرچے کا ذمہ دار ہو گا۔ باب کا ترجمہ یہ ہے کہ باب ہے کہ گروی چیز پر سواری کی جائے گی اور دودھ پیا جائے گا۔‘‘

مذکورہ حدیث کی تشریح:

(( ای کائنا من کان ، ھذا ظاھر الحدیث: وفیہ حجۃ لمن قال یجوز للمرتھن الانتفاع بالرھنّ اذا قام بمصلحتہ ولو لم یاذن لہ المالک و طائفۃ قالوا ینتفع المرتھن من الرھن بالرکوب والحلب بقدرالنفقۃ ولا ینتفع بغیرھما لمفھوم الحدیثوأما دعوی الاجمال فیہ فقد دل بمنطوقہ علی اباحۃ الانتفاع فی مقابلۃ الانفاق وھذا یختص بالمرتھن لأن الحدیث وان کان مجملا لکنہ یختص بالمرتھن لأن اانتفاع الراھن بالمرھون لکونہ مالک رقبتہ لا لکونہ منتفقا علیہ بخلاف لمرتھن کما یجوز للمرأۃ اخذ مؤونتھا من مال زوجھا عند امتناعہ بغیر اذنہ والنیابۃ عنہ فی الانفاق علیھا۔)) [بخاری ؍کتاب الرھن ؍باب الرھن مرکوب و محلوب مع فتح الباری جلد:۵،ص:۱۴۳۔۱۴۴ مطبوعۃ دار المعرفۃ بیروت ، لبنان]

’’ترجمہ: یعنی گروی چیز جو بھی ہو یہ حدیث کا واضح مفہوم ہے۔ اور اسی حدیث میں اس شخص کی دلیل موجود ہے جس نے یہ کہا کہ گروی لینے والے کے لیے گروی چیز سے نفع لینا جائز ہے جبکہ وہ اس کی مصلحت کا خیال رکھے اگرچہ مالک اس کے لیے اجازت نہ بھی دے۔ اور ایک گروہ کا خیال ہے کہ گروی لینے والا گروی چیز سے خرچہ کے مطابق سوار ہونے کا اور دودھ کا نفع اُٹھا سکتا ہے اور ان دو چیزوں کے علاوہ کسی اور گروی چیز سے نفع نہیں اُٹھا سکے گا ۔ حدیث کے مفہوم کی وجہ سے لیکن یہ دعوی اس حدیث میں اجمالی ہے۔(یعنی بغیر دلیل کے) پس یقینا حدیث اپنے بیان کے ذریعہ خرچہ کے مقابلے میں نفع اُٹھانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور یہ خاص ہے گروی لینے والے کے ساتھ ۔ اور گروی لینے والے کے لیے اس گروی چیز میں حق ہے اور یقینا اس نے اس گروی چیز کے حق کو پورا کرنے کا خیال کیا ہے گروی چیز کے بڑھنے سے اور مالک کا نائب ہونے میں اس چیز میں جو اس پر واجب ہو اور اس گروی لینے والے کا اس گروی چیز سے پورے فائدے حاصل کرنا ، ایسے ہی جائز ہے جیسے عورت کے لیے اپنی محنت کے مطابق اپنے خاوند کا مال لے سکتی ہے ۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے انکار کے وقت بوجہ عورت کے نائب ہونے کے اپنے خاوند کا اپنی ذات پر خرچہ کر نے میں۔ (یہ حدیث بخاری کی ہے جو اصل شرح فتح الباری سے نقل کی گئی ہے) (باب الانتفاع بالرھن)‘‘

باب کا ترجمہ یہ ہے: (گروی چیز سے نفع اُٹھانے کا باب ہے) مذکورہ حدیث بخاری شریف والی امام ترمذی  اس باب کے تحت لائے ہیں۔ اس حدیث کی مزید تشریح ملاحظہ ہو:

(( ففیہ ما قال الحافظ ابن القیم فی اعلام الموقعین ومن ذلک قال بعضھم ان الحدیث الصحیح وھوقولہ الرھن مرکوب ومحلوب۔وعلی الذی یرکب ویحلب النفقۃ علی خلاف القیاس فانہ جوزلغیر المالک ان یرکب و یحلبھا و ضمنہ ذالک بالنفقۃ… وکذالک فیہ حق المالک وللمرتھن حق الوثیقۃ وقد شرع اللہ سبحانہ الرھن مقبوضا (بید المرتھن فاذا کان بیدہ فلم یرکبہ ولم یحلبہ ذھب نفعہ باطلا وان مکن صاحبہ من رکوبہ خرج عن یدہ وتوثیقہ…و یعوض عنھما بالنفقۃ ولہ فیہ حق فلہ ان یرجع ببدلہ ومنفعۃ الرکوب والحلب یصح ان یکونا بدلا فاخذھا خیر من ان تھدد علی صاحبھا باطلا ویلزم بعض ما انفق المرتھن… فالحاصل ان حدیث الباب صحیح محکم لیس بمنسوخ ولا یردہ اصل من اصول الشریعۃ ولا اثر من الآثار الثابتۃ وھو دلیل صریح فی جواز الرکوب علی الدابۃ المرھونۃ بنفقتھا وشرب لبن الدر المرھونۃ بنفقتھا)) [جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد:۲،ص:۲۴۶،۲۴۷ مطبوعۃ دہلی]

عربی عبارت کا ترجمہ:’’پس ا س حدیث میں دلیل ہے جو حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں فرمایا اور اسی وجہ سے ان کے بعض نے فرمایا ہے یقینا حدیث صحیح ہے اور وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے گروی چیز پر سوار ہوا جائے گا اور دودھ دوھا جائے گا اور خرچہ اس شخص پر ہو گا وہ جو سوار ہو گا۔ خلاف عقل ہے پس یقینا اس حدیث نے غیر مالک کے لیے سواری کرنا اور دوھنا جائز قرار دیا ہے۔ بوجہ خرچہ کرنے کے اور ایسے مالک کا حق ہے اور گروی لینے والے کے لیے قبضہ کا حق ہے اور یقینا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے ، گروی چیز کا قبضہ مرتہن کے ہاتھ ہی ہے۔ پس جب قبضہ اس کے ہاتھ میں تو اس پر سوار نہ ہو اور اس کو دوھے نہ تو اس کا نفع باطل گیا اور اگر وہ اس کے مالک کو اختیار دے تو اس کے قبضہ سے خارج ہو جائے گی اور ان دونوں چیزوں کا نفع اُٹھانا خرچ کا بدل دیا جاتا ہے۔ اور مرتہن کے لیے اس میں حق ہے لوٹنے کا اس کے بدل کے ساتھ اور نفع سوار ہونے کا اور دوھنے کا صحیح ہوتا ہے ، دونا دنوں کا بدل ، پس لینا نفع اس کا بہتر ہے اس بات سے کہ رائیگاں کرنا باطل ہے اس منفعت کے مالک پر اور لازم ہے کہ بدل دے دیا جائے گا جو خرچہ کیا گروی لینے والے نے ۔ پس ما حاصل یعنی تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ باب کی حدیث صحیح محکم ہے منسوخ نہیں ہے اور نہ ہی رد کرنا اس حدیث کو کوئی اصل شریعت کے اصولوں سے اور نہ ہی اثر ثابت شدہ آثار سے اور وہ حدیث دلیل صریح ہے گروی شدہ جانور ہو سوار ہونے کی جو از کی اور جانور گروی شدہ دودھ پینے کے جواز کی۔ (جامع الترمذی بمعہ تحفۃ الاحوذی)

((عَن سعید بن المسیب ان رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم قال لا یغلق الرھن)) [مؤطا امام مالک ص:۵۳۵۔۵۳۷۔ مطبوعۃ نور احمد اصح المطابع آرام باغ ،کراچی]

’’ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ گروی چیز کو روکا نہیں جائے گا۔‘‘

مذکورہ حدیث کے مطابق چیز کا گروی لینے والا گروی شدہ چیز کا مالک نہیں بنے گا خواہ وہ شرط کیوں نہ لگالے گروی شدہ چیز مالک ہی کی ہو گی ۔ مرتہن مالک نہیں بنے گا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا کہ رقم نہ ملنے پر اس کے عوض مالک بن جانا یہ جائز نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں کہ گروی چیز سے نفع اُٹھانا بالکل درست اور جائز ہے۔ موجودہ دور میں اگر زمین وغیرہ گروی لینا ہے تو خرچہ کر کے کاشت کرلے اور اس سے نفع ہو جائے یعنی خرچہ نکال کر پرافٹ آئے تو شریعت کی رو سے وہ پرافٹ جائز اور صحیح ہے کیونکہ یہ پرافٹ بوجہ خرچہ کے ہے نہ کہ رقم کی وجہ سے ہاں البتہ اگر کوئی زمین گروی لے کر ٹھیکہ پر دے دے تو یہ منع ہو گا اس لیے کہ اس نے خرچ نہیں کیا ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

الراقم رحمت اللہ راشد غفرہ اللہ الواحد مدرس جامعۃ محمدیۃ اوکاڑہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: (( عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم ’’اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ رِبًا إِلاَّ ھَائَ وَھَائَ ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلاَّ ھَائَ وَھَائَ))1 الحدیث ۔[’’رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونا سونے کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتا ہے ، گندم گندم کے بدلے میں اگرنقد نہ ہو تو سود ہو جاتا ہے جو جو کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتا ہے اور کھجور کھجور کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتا ہے۔‘‘] نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ((عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ:’’جَائَ بِلَالٌ إِلَی النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم بِتَمْرٍ بَرْنِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم: مِنْ أَیْنَ ھٰذَا؟ قَالَ: کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِیٌّ ، فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ۔ فَقَالَ: أَوَّہ عَیْنُ الرِّبَا ، عَیْنُ الرِّبَا…))2الحدیث۔[’’ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی  صلی الله علیہ وسلم کے پاس برنی کھجوریں لایا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تو کہاں سے لایا ہے؟ اس نے کہا : ہمارے پاس کچھ ردی قسم کی کھجوریں تھیں میں نے دو صاع دے کر ایک صاع یہ کھجوریں لی ہیں ۔ فرمایا : آہ یہ تو عین سود ہے ، عین سود ہے ۔ ایسا نہ کر بلکہ اگر تو خریدنا چاہتا ہے کھجوروں کو ایک دوسری بیع کے ساتھ فروخت کر پھر اس کے ساتھ خرید ۔‘‘] یہ دونوں حدیثیں آپ مشکاۃ /کتاب البیوع/ باب الربا میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مخصوص صورتوں کو ربا و سود گردانا ہے جبکہ اس سے پہلے نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سود کی تاریخ بیان فرمائی اور نہ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ربا و سود کی تعریف ذکر فرمائی۔ اب اگر کوئی دانشور صاحب فرمائیں ’’بہتر ہوتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے سود کی تاریخ بیان کرتے پھر سود کی صحیح تعریف واضح کرتے پھر ان مخصوص صورتوں کو ربا و سود گردانتے تو بہتر ہوتا‘‘ تو فرمائیے ان دانشوروں کی بات درست ہے یا {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}الاٰیۃ یہ اور {خَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وسلم} کو اپنا ناحق ہے؟ پھر یہ چیز بھی ملحوظ رکھیں کہ قرآن مجید میں صلاۃ ، زکوٰۃ ، صیام ، حج ، عمرہ ، زنا ، رباسود، سرقہ ، قصاص اور ردہ و ارتداد وغیرہ کے احکام موجود ہیں حالانکہ ان چیزوں کی تاریخ و تعریف قرآن مجید میں نہیں ۔ آیا یہ بھی بہتر ہے یا نہیں؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری /کتاب البیوع/باب بیع الشعیر بالشعیر۔ مسلم /کتاب البیوع /باب الربا۔

 

(۱)… آپ نے پہلے مکتوب میں سوا ل کیا ’’کرایہ پر زمین دینا کیسا ہے؟ اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا ’’کرایہ پر زمین لینا دینا درست ہے بشرطیکہ کرایہ کی ناجائز و حرام صورت نہ ہو۔‘‘ جس کا صاف صاف مطلب ہے زمین کے کرایہ کی کوئی صورت ناجائز اور حرام بھی ہے ۔ پھر آپ کے پہلے مکتوب میں پیش کردہ سوال ’’ٹھیکہ یا کرایہ پر زمین تو بخاری میں رافع بن خدیج والی حدیث میں نفی ہے ، آپ نے جائز کیسے لکھ دیا‘‘ کے جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا :’’ زمین ٹھیکہ یا بٹائی پر لینا دینا درست ہے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کرائے کی ایک مخصوص صورت سے منع کیا گیا ہے وہ صورت یہ ہے کہ سفیدہ زمین کاشت کرنے سے قبل قطعوں میں تقسیم کر لی جائے کچھ قطعے مالک کے اور کچھ قطعے مزارع کے ،بعد میں بیج ڈالا جائے کبھی مزارع کے کیاروں میں فصل نہ ہوتی کبھی مالک کے کیاروں  میں کچھ نہ ہوتا ، اس خاص صورت میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے چنانچہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث سے واضح ہوتا ہے۔‘‘ یہ دونوں چیزیں پڑھنے کے بعد آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ کرایہ یا ٹھیکہ پر زمین لینا دینا درست نہیں مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں……   اس میں صاف لکھا :((نَھَی النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلمعَنْ کِرَائِ (الْاَرْضِ)…الخ)) ‘‘ تو محترم پہلے لکھ چکا ہوں کہ رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے کراء الأرض کی ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا ہے جس صورت کی نشاندہی بھی پہلے کر چکا ہوں تو ان نہی والی روایات میں ایک مخصوص صورت سے نہی مراد ہے ہر قسم کے کراء الارض سے نہی مراد نہیں ۔ دیکھئے بٹائی کی صورت میں کراء الارض درست وجائز ہے اگر نہی والی حدیث میں کراء الارض کی ہر قسم سے نہی مراد ہو تو بٹائی والی صورت بھی ناجائز اور حرام ٹھہرے گی۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے قرآن مجید میں تین جگہ دم و خون کی حرمت کا ذکر ہے ، ساتھ مسفوح کی قید نہیں اور ایک جگہ دم و خون کے ساتھ مسفوح کی قید آئی ہے تو اب باقی تین جگہوں میں دم مسفوح مراد ہو گا نہ کہ عام و ہر قسم کا دم و خون۔ اگر کوئی شخص تین جگہوں میں مذکور دم و خون کو لے کر کہنا شروع کر دے کہ ہر قسم کا خون حرام ہے خواہ مسفوح ہو خواہ غیر مسفوح اور ایک جگہ دم و خون کے ساتھ مسفوح والی قید کو نظر انداز کر دے تو آپ فرمائیں یہ کج بحثی ہو گی یا شرح صدر چاہنے والی بات۔ بالکل اسی طرح کراء الارض والا معاملہ ہے کسی حدیث میں عام  کراء الارض سے نہی وارد ہوئی ہے اور کسی حدیث میں کراء الارض کی خاص صورت سے نہی وارد ہوئی ہے اور عام سے خاص مراد ہے اب کوئی اگر عام حدیث کو لے کر کراء الارض کی ہر قسم و صورت کو ممنوع قرار دیتا ہے تو وہ عام دم وخون کے ممنوع کرنے والی آیات کو لے کر ہر قسم کے دم و خون مسفوح وغیر مسفوح کو حرام قرار دینے والے کی طرح ہے ۔ دونوں کا حال اس معاملہ میں یکساں ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ فرما لیں کہ یہ کج بحثی ہے یا شرح صدر چاہنے والا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو شرح صدر سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کج بحثی سے بچائے ۔ آمین یا رب العالمین

آپ نقل کرتے ہیں: ’’ایک فریق کے حصے کی تعیین کرنا کہ وہ قطعی فائدے میں رہے اور دوسرے کو غیر یقینی صورت کے حوالے کرنا کہ اس کے حصے میں شاید پسینہ بہانے کے سوا کچھ نہ آئے یہ صورت سود اور جوئے کے کس قدر مشابہ ہے اور ایسا ہوتا ہے۔‘‘  یہ دلیل کئی وجہ سے نادرست ہے۔

اولاً اس لیے کہ یہ نص کے مقابلہ میں تعلیل ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے:

(( حدثنا سلیمان ابن حرب ثنا حماد عن أیوب عن نافع أن ابن عمر کان یکری مزارعہ علی عہد النبی صلی الله علیہ وسلم و أبی بکر ، و عمر ، وعثمان ، و صدرا من إمارۃ معاویۃ ، ثم حدث عن رافع بن خدیج أن النبی صلی الله علیہ وسلم نھی عن کراء المزارع ، فذھب ابن عمر الی رافع ، وذہبت معہ ، فسألہ ، فقال: نھی النبی  صلی الله علیہ وسلم عن کراء المزارع فقال ابن عمر: قد علمت أنا کنا نکری مزارعنا علی عہد رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم بما علی الاربعاء و شیء من التبن۔ حدثنا یحییٰ بن بکیر ثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب قال اخبرنی سالم ان عبداللہ بن عمر قال: کنت اعلم فی عہد رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم أن الأرض تکری ، ثم خشی عبداللہ أن یکون النبی صلی الله علیہ وسلمقد أَحدث فی ذلک شیئا لم یکن علمہ ، فترک کراء الارض۔ باب کراء الارض بالذھب والفضۃ، وقال ابن عباس: اِن أمثل ما أنتم صانعون أن تستأجروا الارض البیضاء من السنۃ الی السنۃ۔ حدثنا عمرو بن خالد ثنا اللیث عن ربیعۃ بن أبی عبدالرحمن عن حنظلۃ بن قیس عن رافع بن خدیج حدثنی عمای أنھم کانوا یکرون الارض علی عہد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بما ینبت علی الاربعا أو بشیء یستثنیہ صاحب الارض فنھانا النبی صلی الله علیہ وسلمعن ذلک، فقلت لرافع : فکیف ھی بالدینار والدرھم؟ فقال رافع: لیس بھا بأس بالدینار والدرھم))1 (۱/۳۱۵)

[’’ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے کھیتوں کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر ، عمر ، عثمان رضوان اللہ علیھم اجمعینکے عہد میں اور معاویہ  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں کرایہ پر دیتے تھے۔ پھر رافع بن خدیج کے واسطے سے بیان کیاگیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا(یہ سن کر) ابن عمر رضی اللہ عنہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا ۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اورتھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھے معلوم تھاکہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا ، پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہو ۔ چنانچہ انہوں نے ( احتیاطاً) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔نقدی لگان پر سونے چاندی کے بدل زمین دینا۔عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہنے فرمایا کہ بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ اپنی زمین کو ایک سال سے دوسرے سال تک کرایہ پر دو۔

رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ میرے دونوں چچا نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر ( کے قریب کی پیدوار) کی شرط پر دیا کرتے تھے یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین ( اپنے لیے ) چھانٹ لیتا اس لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج  رضی اللہ عنہ سے پوچھا اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایاکہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔]

تو ان احادیث سے ثابت ہوا کہ کراء الارض بصورتِ ٹھیکہ ممنوع نہیں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے صرف کراء الارض بما ینبت علی الاربعاء و بما یستثنیہ صاحب الأرض وغیرہ والی مخصوص صورتوں سے منع فرمایا ہے۔ نیز صحیح مسلم میں ہے:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری/کتاب الحرث والمزارعۃ

 

(( حدثنا یحیی بن یحیی قال: قرأت علی مالک عن ربیعۃ بن أبی عبدالرحمن عن حنظلۃ بن قیس أنہ سأل رافع بن خدیج عن کراء الارض ، فقال: نھی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمعن کراء الارض۔ قال فقلت: بالذھب والورق؟ فقال: أما بالذھب والورق فلا بأس بہ۔ حدثنا اسحاق قال: أنا عیسی بن یونس قال: ناالأوزاعی عن ربیعۃ بن ابی عبدالرحمن قال حدثنی حنظلۃ بن قیس الانصاری قال سالت رافع بن خدیج عن کراء الارض بالذھب والورق؟ فقال: لا بأس بہ انما کان الناس یواجرون علی عہد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمعلی الماذیانات، وأقبال الجداول ، وأشیاء من الزرع ، فیھلک ھذا ، ویسلم ھذا ، ویسلم ھذا ویھلک ھذا فلم یکن للناس کراء الا ھذا ، فلذک زجرعنہ ، فأما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ حدثنا عمروالناقد قال: ناسفیان بن عیینۃ عن یحیی وھو ابن سعید عن حنظلۃ الزرقی أنہ سمع رافع بن خدیج یقول: کنا أکثر الأنصار حقلا قال: کنا نکری الأرض علی أن لنا ھذہ ، ولھم ھذہ ، فربما أخرجت ھذہ ولم تخرج ھذہ فنھا ناعن ذلک ، وأما الورق فلم ینھنا))1 (۲/۱۳)

[’’حنظلہ بن قیس نے رافع بن خدیج  رضی اللہ عنہ سے پوچھا زمین کو کرایہ پر چلانا کیساہے؟ انہوں نے کہا: منع کیا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے ۔ میں نے کہا: کیا چاندی اور سونے کے عوض میں بھی کرایہ دینا منع ہے؟ انہوں نے کہا: چاندی اور سونے کے بدل تو قباحت نہیں ۔

حنظلہ بن قیس انصاری نے کہا میں نے رافع بن خدیج سے پوچھا زمین کو کرایہ پر دینا سونے اور چاندی کے بدلے کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ لوگ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نہر کے کناروں پر اور نالیوں کے سروں پر جو پیدوار پر زمین کرایہ پر چلاتے تو بعض وقت ایک چیز تلف ہو جاتی ، دوسری بچ جاتی اور کبھی یہ تلف ہوتی اور وہ بچ جاتی ۔ پھر بعضوں کو کچھ کرایہ نہیں ملتا مگر وہی جو بچ رہتا ، اس لیے آپ نے منع فرمایااس سے ۔ لیکن اگر کرایہ کے بدل کوئی معین چیز( روپیہ وغیرہ) جس کی ذمہ داری ہو سکے مقرر ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح مسلم/کتاب البیوع/باب کراء الارض۔

 

حنظلہ زرقی سے روایت ہے انہوں نے سنا رافع بن خدیج  رضی اللہ عنہ سے وہ کہتے تھے تمام انصار میں ہمارے ہاں کھیت زیادہ تھے ، ہم زمین کو کرایہ پر دیتے یہ کہہ کر کہ یہاں کی پیدوار ہم لیں گے اور تم وہاں کی لینا ، پھر کبھی یہاں اُگتا وہاں نہ اُگتا ، تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا ہم کو اس سے لیکن چاندی کے بدل کرایہ پر دینا تو اس سے منع نہیں کیا ۔‘‘]

تو ان احادیث میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بصراحت فرمایا ہے: ((فیھلک ھذا ویسلم ھذا… فلم یکن للناس کراء الا ھذا فلذلک زجرعنہ)) کراء الارض کی صرف ایک ہی صورت لوگوں میں رائج تھی وہ یہلک ہذا و یسلم ہذا والی اور اس ایک ہی صورت سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ٹھیکہ والی صورت سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔ رافع بن خدیج  رضی اللہ عنہ کی تصریح کہ ٹھیکہ والی صورت میں کوئی حرج وگناہ نہیں نہ ہی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ ان کی حدیث’’ نہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم عن کراء الارض‘‘ صرف ’’یھلک ھذا و یسلم ھذا‘‘ والی صورت کو متناول ہے اس کے علاوہ ٹھیکہ وغیرہ والی صورت کو متناول نہیں ۔

ثانیاً اس لیے اس تعلیل کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ٹھیکہ والا مال ٹھیکہ پر لی ہوئی زمین سے پیدا شدہ اناج کے معاوضہ میں ہے حالانکہ واقع میں اس طرح نہیں ٹھیکہ والا مال زمین کے مالک کے اپنی زمین کو کچھ عرصہ کے لیے زراعت و کاشت کی خاطر ٹھیکیدار کے حوالے کرنے کے عوض میں ہے آگے وہ اس زمین کو کاشت کرے خواہ نہ کرے کاشت کرنے کی صورت میں اناج پیدا ہو خواہ نہ ہو چنانچہ لفظ ’’کراء الارض‘‘ اس پر دلالت کر رہا ہے ’’کراء ما تخرجہ الأرض‘‘ تو کوئی بھی نہیں کہتا۔

ثالثاً اس تعلیل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو لازم آ جائے گا کہ بیع و شراء اور تجارت بھی حرام اور ناجائز ہو کیونکہ فریق بائع نے تو مشتری سے معین مال بطورِ قیمت وصول کر لیا اور قطعی فائدے میں رہا اور مشتری کو مال مبیع دے کر غیر یقینی صورت کے حوالے کر دیا اس کے حصے میں شاید پسینہ بہانے کے سوا کچھ نہ آئے یہ صورت سود اور جوئے کے کس قدر مشابہ ہے کیونکہ مشتری نے مال اپنے ٹھکانے پر پہنچانے کی مشقت و اُجرت برداشت کی ادھر مال قدرتی آفات سے ہلاک ہو گیا اور ایسا ہوتا ہے تو فرمائیے اس تعلیل کی بنیاد پر آپ بیع و تجارت کو حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں یا سمجھیں گے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: {وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ}

جناب نے سود کی دو تعریفیں نقل فرمائی ہیں۔ ۱۔’’ طے شدہ رقم پر طے شدہ مدت پر طے شدہ اضافہ سود ہے۔‘‘ ۲۔ ’’جاہلی دور کا سودیوں تھا کہ طے شدہ مدت کے لیے دس دینار قرض دینا اور وصولی پندرہ کی کرنا۔‘‘ پہلے با حوالہ لکھا جا چکا ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے سونے کی سونے کے ساتھ اور چاندی کی چاندی کے ساتھ متفاضلانہ نقد بنقد بیع اور ردی کھجور کے دو صاع کی برنی کھجور کے ایک صاع کے ساتھ بیع کو ربا اور سود قرار دیا ہے جبکہ یہ تینوں صورتیں آپ کی پیش کردہ دونوں تعریفوں کے مطابق ربا اور سود نہیں بنتیں تو محترم آپ ہی فرمائیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ان تینوں صورتوں کو ربا سود قرار دینا درست ہے؟ یا ان دو تعریفوں کے بموجب ان تینوں صورتوں کا ربا سود نہ ہونا درست ہے؟

آپ نے نقل فرمایا ہے :’’ راہن کے مفلس یا فوت ہو جانے پر قرض مطالبہ کرنے پر نہ ملے تو مرہونہ شے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کیا جائے۔‘‘ یہ کوئی قرآن مجید کی آیت نہیں نہ ہی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔ پھر گروی چیز کو قرض وصول نہ ہونے کی صورت میں فروخت کرنے کی اباحت راہن کی طرف سے صریح یا ضمنی اجازت پر مبنی ہے لہٰذا یہ مرہون چیز کے امانت ہونے کے منافی نہیں۔ دیکھیں آپ ہی لکھتے ہیں:’’ اصل ملکیت راہن کی رہے گی … الخ‘‘  نیز لکھتے ہیں:’’ ضمانت ہے‘‘ تو جب مرتہن مرہون چیز کا مالک نہیں وہ چیز اس کے پاس بطورِ ضمانت ہے تو وہ اسے کیونکر بدوں اجازت راہن فروخت کر سکتا ہے۔ کوئی آیت یا سنت و حدیث پیش فرمائیں۔

(۲)… آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال فرمایا:’’ اس زمین پر قبضہ کس کا ہوگا جبکہ یہ زمین رہن ہو؟‘‘ تو اس فقیر الی اللہ الغنی نے اس کا جواب دیا:’’ مرہونہ زمین مرتہن کے پاس رہے گی اس کا مالک راہن ہی ہو گا۔‘‘ یہ جواب پڑھ کر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ یہ صحیح ہے … الخ‘‘ جب صحیح ہے تو پھر بندوق کے رہن والی بات لکھنے کی کیا ضرورت؟ وہ تو معاملہ کے بگاڑ کی ایک صورت ہے جس کا حل اسلام میں قاضی کی عدالت ہے یا پھر مقروض مفلس ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلیٰ مَیْسَرَۃٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo} [البقرۃ:۲۸۰۔۲۸۱] [’’ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جانتے ہو ۔ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گااور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘]

(۳)… آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال فرمایا:’’ مرتہن اگر کاشت کر لے تو راہن کا کوئی نقصان ہو گا‘‘ تو اس فقیر الی اللہ الغنی نے اس کا جواب لکھا:’’ مرتہن کا شت کرے اور رائج الوقت ٹھیکہ یا بٹائی مالک راہن کو نہ دے تو مالک راہن کا نقصان ہو گا اور مرتہن سود خور بنے گا۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ٹھیکہ یا کرایہ غلط لکھا جا چکا ہے ، جب آپ نے سود کی تعریف ہی نہیں لکھی تو اسے سود لکھنا چہ معنی دارد؟‘‘ کسی چیز کو غلط لکھنے سے وہ غلط نہیں ہو جاتی جب تک اس کے غلط ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ زمین ٹھیکہ یا بٹائی پر دینے سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ، ہاں کراء الارض کی مخصوص صورتوں سے منع فرمایا ہے جن میں ٹھیکہ اور بٹائی شامل نہیں۔ رہی آپ کی ’’چہ معنی دارد‘‘ والی بات اس کا جواب ہے یہ کہ وہ معنی رکھتا ہے جو معنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا قول’’ أوہ عین الربا‘‘ رکھتا ہے کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی ربا سود کی تعریف کیے بغیر عین ربا سود کا حکم لگا دیا تو کیا آپ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے متعلق بھی فرما ئیں گے کہ سود کی تعریف نہیں کی تو اسے سود قرار دینا چہ معنی دارد؟

پھر غور فرمائیں مرتہن نے اگر دو لاکھ راہن کو قرض دے کر زمین رہن لی تھی اور زمین کاشت کرتا رہا اس کی آمدنی اس کے پاس رہی اور راہن سے دو لاکھ بھی وصول کر نا ہیں تو یہ آپ کی نقل کردہ دونوں تعریفوں کے مطابق بھی سود ہی بنتا ہے خواہ بعض صورتوں میں ہی بنے۔

(۴)… جناب نے پہلے اپنے مکتوب میں سوال کیا:’’ اگر کاشت نہ کیا جائے تو راہن کا کوئی فائدہ ہو گا؟‘‘ تو اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب میں لکھا:’’ اگر کاشت نہ کرے تو زمین خراب ہونے کا اندیشہ ہے پھر مالک راہن اپنی زمین کی آمدنی سے بھی محروم ہو گا۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں:’’اگر مرتہن کو نفع کی بجائے نقصان ہو تو وہ یہ (Risk) کیوں لے گا۔ رہن پر قبضہ مرتہن کا ہے مالک اصل اس سے فائدہ کیسے اُٹھائے گا؟‘‘ تو محترم آپ کی اس عبارت کے پہلے جملہ’’اگر مرتہن کو نفع کی بجائے نقصان ہو تو وہ یہ (Risk) کیوں لے گا‘‘کا تو میرے جواب’’ اگر کاشت نہ کرے…الخ‘‘ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ربط و تعلق نہیں پھر لطف یہ کہ اس جملہ کا آپ کے اپنے سوال ’’اگر کاشت نہ کیا جائے …الخ‘‘ کے ساتھ بھی کسی قسم کا کوئی ربط و تعلق نہیں۔

رہی آپ کی بات’’ رہن پر قبضہ مرتہن کا ہے مالک اصل اس سے فائدہ کیسے اُٹھائے گا‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ارض خیبر نصف و نصفی بٹائی پر کاشت کی خاطر خیبر والوں کو دی تھی تو اب قبضہ خیبر والوں کا ہے اور اس سے اصل مالک حصہ لے کر فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں بلکہ اسی طرح اگرمرتہن قابض مرہونہ زمین کاشت کر لے اور رائج الوقت ٹھیکہ یا حصہ اصل مالک کو دے تو قبضہ مرتہن کا ہی ہو گا اور فائدہ اصل مالک راہن بھی اُٹھاتا رہے گا۔ اگر مرتہن ارض مرہونہ کاشت کرے مگر اصل مالک راہن کو ٹھیکہ یا حصہ نہ دے تو وہ سود خور بنے گا۔

(۵)…آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’ کیا زمین بے کاشت چھوڑ دینا ٹھیک ہے؟‘‘ اس کے جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا :’’زمین کو بے کاشت کیے چھوڑ دینا زمین کی آمدنی سے محرومی کے ساتھ ساتھ زمین کو خراب کرنے کا اندیشہ ہے۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ پھر لازم ہے کہ وہ کاشت ہو اور یہ مرتہن ہی کرے گا۔‘‘ میرے جواب سے نہ تو کاشت کیے جانے کا لازم ہونا نکلتا ہے اور نہ ہی کاشت کرنے کا مرتہن پر مقصود ہونا نکلتا ہے پھر ان دونوں چیزوں کی کتاب و سنت اور عقل میں کوئی دلیل بھی نہیں۔

(۶)… جناب نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’ کاشت کرنا شے مرہونہ کی حفاظت و دیکھ بھال تصور ہو گی‘‘ اس پر اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا’’ حفاظت سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟‘‘ بتانے پر ہی جواب دیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس کو پڑھ کر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ حفاظت سے مراد کاشت کرنا ہی ہے اگر کاشت نہ کیا جائے تو زمین بنجر وغیرہ ہو جائے گی اور اس کی قدر کم ہو تی رہے گی‘‘ آپ اپنے پہلے مکتوب والی عبارت’’کاشت کرناشے مرہونہ کی حفاظت و دیکھ بھال … الخ‘‘ میں حفاظت دیکھ بھال کی جگہ کاشت کرنا‘‘ لکھ کر پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کا فرمانا ’’حفاظت سے مراد کاشت کرنا ہی ہے‘‘ بالکل غلط ہے کیونکہ’’کاشت کرنا شے مرہونہ کی کاشت کرنا تصور ہوگی‘‘ عبارت بے معنی و بے مقصد ہے۔

پھر زمین کو کاشت کیے بغیر رکھنا شریعت میں کوئی ممنوع و حرام نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے :

(( عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم : مَنْ کانت لہ أرض فلیزرعھا أو لیمنحھا أخاہ فإن أبی فلیمسک أرضہ))(۱/۳۱۵)

[’’ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود بوئے ورنہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی کو دے دے اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔‘‘]

(۷)… آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’شی مرہونہ بطورِ امانت ہے یا ضمانت‘‘ قرضہ واپس نہ ملنے کی صورت میں اسے بیچ کر قرضہ وصول کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا’’ امانت ہے ، مالک راہن کی اجازت ہو تو فروخت کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ امانت نہیں ضمانت ہے ، امانت کا قانون اور ہے اور ضمانت کا قانون اور ہے۔‘‘ تو محترم مؤدبانہ گزارش ہے آپ امانت اور ضمانت دونوں کے قانون جدا جدا کتاب و سنت سے بیان فرمائیں تو بات کھل جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۸)…بخاری اور ترمذی شریف میں جو حدیثیں ہیں انتفاع بالرہن والی وہ صحیح تو یہ حدیثیں جانور پر بند ہیں یا عام ہیں؟‘‘ یہ تھا جناب کا سوال جو آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں پیش فرمایا جس کا جواب اس فقیر الی اللہ الغنی نے لکھا’’ سواری اور دودھ والے جانور پر بند ہیں‘‘ اس کے بعد آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں’’ اپنی کتاب میں انتفاع بالرہن والی حدیثیں عام لکھ چکے ہیں اب اسے جانور پر بند کر رہے ہیں بند کرنے کی کوئی دلیل اس کی ناسخ کیا ہے…الخ؟  آپ پر لازم تھا کہ میری کتاب سے وہ عبارت پیش کرتے جس میں انتفاع بالرہن والی حدیثوں کو عام لکھا گیا ہے صرف اتنی بات لکھی گئی ہے کہ ’’سواری اور لویری پر خرچہ کے عوض نفع تو نص میں جائز ہے …الخ‘‘ جو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث میں سواری اور دودھ والے جانو رپر بند ہیں لہٰذامیری کتاب سے ان حدیثوں کے سواری اور دودھ والے جانور پر بند نہ ہونے اور عام ہونے پر دلالت کرنے والی عبارت پیش کرنا ابھی تک آپ کے ذمہ ہے ہمت فرمائیں اور وہ عبارت پیش کریں کیونکہ آپ کا مقصد کج بحثی نہیں شرح صدر ہے۔ ’’ناسخ کیا ہے‘‘ والی آپ کی بات بالکل ہی بے تکی ہے ۔ ذرا غور فرمائیں سمجھ آ جائے گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

آپ لکھتے ہیں:’’ جب اصل زر سے علاوہ خرچہ کے عوض نفع جائز ہے جانور سے تو یہ قانون زمین پر کیوں نہیں لگتا کیا زمین خود بخود دانے اُگلتی ہے … الخ‘‘ جانور کے متعلق رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی صحیح صریح حدیث موجود ہے ۔ زمین کے متعلق کوئی آیت اور حدیث موجود نہیں پھر جانور کو چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے ، تو مر جائے گا زمین کاشت نہ کی جائے تو بھی معدوم نہیں ہوتی اور زمین کو بلاکاشت چھوڑنا ہے بھی مباح جیسا کہ بادلیل لکھا جا چکا ہے نیز مرتہن مرہونہ زمین سے کچھ خرچ کیے بغیر فائدہ اُٹھا سکتا ہے کہ کسی کو ٹھیکہ یا بٹائی پر دے دے جبکہ جانور سے چارہ ڈالے بغیر فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا تو ان تین وجوہ کی بناء پر جانور والا قانون زمین پر نہیں لگتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زمین کو کاشت نہ بھی کیا تو اس میں گھاس مینہ وغیرہ خود رو چارے اُگ آتے ہیں جنہیں زمین والے فروخت کر دیتے ہیں اور ان پیسوں سے دانے وغیرہ بھی خریدے جا سکتے ہیں تو ایسی صورت میں زمین نے خود بخود دانے اُگل دیے۔

(۹)… آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں لکھا:’’ اصل زر کے علاوہ خرچہ کے بدلے اگر نفع جانور پر جائز ہے تو کیا اصول نہیں ہے؟ خرچہ تو زمین کاشت پر ہوتا ہے اور نفع ضروری نہیں کہ ہو گا؟‘‘ اس فقیر الی اللہ الغنی نے اس کے جواب میں لکھا:’’ یہ بات بے بنیاد ہے کیونکہ مرتہن مرہونہ زمین کو ٹھیکہ یا بٹائی پر دے تو مرتہن کا خرچہ نہیں ہو گا جبکہ ٹھیکہ یا بٹائی والی آمدنی اسے ملے گی جو مالک راہن کو نہ دینے کی صورت میں سود بنے گی۔‘‘ اس پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں’’ ہاں ٹھیک ہے زمین لے کر کرایہ یا ٹھیکہ پر دینا سود ہو گا کیونکہ اس پر مرتہن کا خرچہ نہیں ہوا۔‘‘ گھاس مینہ وغیرہ خود رو چارے والی صورت میں بھی مرتہن کا خرچہ نہیں ہوتا تو لا محالہ وہ بھی سود ہی ہو گی تو یہ چیز تسلیم کرنے سے ضرور شرح صدر ہو جانا چاہیے کہ جانور والی صورت اور زمین والی صورت دونوں میں فرق ہے۔

(۱۰)… آپ اپنے پہلے مکتوب میں لکھتے ہیں’’ مشکاۃ شریف میں حدیث ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی کو قرضہ ادا کیا اور کچھ زیادہ دیا تو کیا وہ سود تھا؟ ‘‘ اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا:’’ نہیں1یہ سود نہیں تھا‘‘ ا س پر آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں’’ ٹھیک ہے یہ سود نہیں تھا مگر اس سے یہ تو نکلتا ہے مرتہن کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے … الخ‘‘ غور فرمائیں آیا وہ صحابی  رضی اللہ عنہ مرتہن تھا اور رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم اس صورت میں راہن تھے؟ مرتہن نے قرضہ دیا اور قرضہ لینے والے کی زمین اپنے پاس بطورِ رہن رکھ لی اور اس قرضہ لینے والے کو اس کی اپنی ہی مملوکہ زمین کے منافع سے محروم کر دیاجبکہ یہ بغیر زمین رہن لیے بھی کوئی خسارے میں نہیں تھا مالدار آدمی ہے۔ کیا سود لیے دیے بغیر مرتہن کے حقوق کا خیال نہیں رہتا۔ پھر نبی  صلی الله علیہ وسلم نے قرضہ دینے والے صحابی کو جو کچھ زیادہ دیا تھا وہ اس صحابی کا حق نہیں تھا لہٰذا س حدیث سے جناب کا مرتہن کے حقوق کے خیال رکھنے کو نکالنا عجیب و غریب ہے جبکہ مقروض راہن کے حقوق کا کوئی خیال نہیں کہ وہ بے چارہ غریب مقروض ہے پھر زمین رہن رکھ کر اس کی آمدنی سے بھی محروم ہے۔ فبا للہ ا لعجب۔

(۱۱)… آپ نے اپنے پہلے مکتوب میں سوال کیا ’’ یہ کاروبار کی ایک شکل ہے ایک آدمی کاشت جیسا مشکل کام نہیں کر سکتا وہ زمین پر قرضہ لے کر دوسرا کاروبار کر رہا ہے جو زمین سے زیادہ نفع بخش ہے… الخ‘‘ اس فقیر الی اللہ الغنی نے جواب دیا’’ کاروبار کریں البتہ خیال رکھیں کہ یہ کاروبار شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ اگر جائز و حلال ہے تو وہ کاروبار کر لیں اگر وہ حرام اور ناجائز ہے تو کاروبار نہ کریں ۔ کسی شے کا کاروبار ہونا یا مشکل ہونا اس کے جائز و حلال ہونے کی دلیل نہیں‘‘ ( اور نہ ہی حرام اور ناجائز ہونے کی دلیل ہے) اس پر آپ لکھتے ہیں’’ میرے علم میں اس وقت کوئی کاروبار نہیں ہے ، جھوٹ ،فریب ، ملاوٹ ، بے ایمانی عام ہے میرا تجربہ ہے۔‘‘آپ ہی غور فرمالیں آپ کی اس بات کا کتاب وسنت کو شرح صدر کے ساتھ سمجھنے کے ساتھ کو ئی ربط و تعلق ہے پھر میرے جواب کے ساتھ اس کی کیا مناسبت ہے؟

آپ اپنے دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں’’ یہ مسئلہ نص میں تو موجود نہیں اس کو قیاس ہی کیا جائے گا کسی ملتے جلتے پر۔ میرا ذہن اس طرف بھی جاتا ہے راہن اگر واقعی مفلس تنگ دست ہے تواسے نفع سے کچھ دینا چاہیے اور اگر وہ زمین سے زیادہ نفع بخش کاروبار کر رہا ہے تو کسی اور حقدار کو دے دینا بہتر ہے۔‘‘

تو محترم1 بات تنگ دست اورفراخ دست کی نہیں بات تو ہے کہ زمین کے مالک کو اس کی زمین کا نفع ملنا چاہیے بوجہ ملکیت اور قرض دے کر زمین رہن لینے والے کو سود لینے کا حق نہیں ۔ آپ کی بات راہن اگر واقعی تنگ دست ہے تو اسے نفع … الخ‘‘ کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی سو پچاس ایکڑ کا مالک ہے اور زمین کے علاوہ کروڑوں کا اس کا کاروبار ہے تو اس کو اس کی زمین کے نفع سے کچھ نہیں ملنا چاہیے بلکہ اس سے زمین ہی لے لینا چاہیے کیونکہ وہ مفلس تنگ دست نہیں ، زمین کے بغیر ہی کروڑ پتی ہے آیا اس فکر کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل ہے؟ کیا آپ ایسی کوئی دلیل ذکر فرمائیں گے؟

آپ فرماتے ہیں’’ ایک طرف آپ لکھتے ہیںکہ مرہونہ زمین سے فائدہ اُٹھانا درست ہے بشرطیکہ وہ سود نہ بنے آگے چل کرمذکورہ حدیثوں کو جانور پر بند کر رہے ہیں‘‘ تو جناب محترم میری ان دونوں باتوں میں کوئی منافاۃ و تعارض نہیں کیونکہ یہ حدیثیں ہیں ہی جانور کے متعلق۔ ایسا نہیں کہ حدیثیں تو عام ہیں جانور اور زمین دونوں کو شامل ہیں تو یہ فقیر الی اللہ الغنی از خود انہیں جانو رپر بند کر رہا ہے ۔ آپ کا یہ فہم درست نہیں۔

آپ فرماتے ہیں’’ ایک المیہ یہ ہے کہ ایک ہی لائن کے مختلف عالم ایک ہی مسئلے کو کوئی جائز کہتا ہے کوئی ناجائز کوئی حلال کوئی حرام…… کیا ایسا ممکن نہیں کہ کم از کم اہل حدیث تو ایک بورڈ یا کمیٹی بنائیں جو ایسے جواب دے متفقہ۔‘‘

دیکھئے کسی چیز کے جائز و ناجائز اور حلال و حرام میں اختلاف صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین ، تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین کے درمیان بھی موجود تھا اور وہ سب ایک ہی لائن کے متعدد علماء اور فقہاء تھے تو کیا آپ ان کے متعلق بھی یہی فرمائیں گے ’’ ایک المیہ یہ ہے کہ ایک لائن کے … الخ‘‘ اس المیے کے حل کی خاطر آپ کے ذہن میں ایک بورڈ یا کمیٹی کا خاکہ ہے جو متفقہ فیصلہ صادر فرمائے تو محترم غور فرمائیں اس مجوزہ بورڈ یا کمیٹی کے ارکان بھی تو عالم ہی ہوں گے ان کا باہمی اختلاف ہو جائے تو المیہ جوں کا توں رہا ختم تو نہ ہوا۔ زندہ مثال دیکھ سکتے ہیں سعودیہ والوں نے آپ کے تجویز کردہ بورڈ یا کمیٹی کو ’’اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتائ‘‘ کے نام سے بنا رکھا ہے اس کمیٹی کے فتاوی چھپ رہے ہیں کوئی بیس کے قریب جلدیں چھپ چکی ہیں اس کا مطالعہ فرمائیں بہت سے مسائل میں اس کمیٹی یا بورڈ کے ارکان میں اختلاف ہو جاتا ہے کوئی جائز کہتا ہے کوئی ناجائز اور کوئی حلال کہتا ہے کوئی حرام۔

تو اس اختلاف والے المیے کا حل یہ بورڈ اور کمیٹیاں نہیں اس کا حل فقط وہی ہے جو کتاب و سنت میں بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا}                                                [النسآئ:۵۹]

[’’پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘]

 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ}الآیۃ [ہود:۱۱۸۔۱۱۹]

[’’ اور وہ اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے سوائے ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے۔‘‘]

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗ إِلَی اللّٰہِ} [الشورٰی:۱۰]

[’’ اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔‘‘]

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

{اِتَّبِعُوْا مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَo}

                                                                             [الاعراف:۳]

[’’تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی پیروی مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو۔‘‘]

رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(( اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ ، وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ ، فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ))1

[’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے جو شک والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔‘‘]

نیز رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(( لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا فَاتَّبَعْتُمُوْہُ وَتَرَکْتُمُوْنِیْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَائِ السَّبِیْلِ))2

[’’ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ جاتے تو تم سیدھے راستے سے گمراہ ہو جاتے۔‘‘]

آپ کے دوسرے مکتوب کا جواب ختم ہوا۔                                      ۲۴/۱۱/۱۴۲۳ھ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری/کتاب الایمان/باب فضل من استبرأ لدینہ۔                 2 مشکوٰۃ/کتاب الایمان/باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 516

محدث فتویٰ

تبصرے