سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز میں کم سے کم آیات کی تلاوت

  • 498
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3312

سوال

نماز میں کم سے کم آیات کی تلاوت


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں کم سے کم کتنی آیتوں کی تلاوت کی جاسکتی ہے۔؟۔ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!  

اس کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ بس معنی کے اعتبار سے مضمون مکمل ہونا چاہیے۔ اگر مضمون مکمل ہو جائے تو ایک آیت مثلا آیت الکرسی کی بھی تلاوت جائز ہے۔ یہ واضح رہے کہ آیات کی جگہ مکمل سورت کا پڑھنا افضل اور مستحب ہے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں؛

 سوال؛نماز كى ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت كے بعد كيا مكمل سورۃ كى بجائے كسى لمبى سورت كا كچھ حصہ تلاوت كرنا جائز ہے، اس طرح نماز ميں كئى ايك چھوٹى سورتيں تلاوت كرنے كى بجائے ہم بعض لمبى سورتيں پڑھ سكتے ہيں ؟

الحمد للہ

جى ہاں نماز ميں چھوٹى مكمل سورت كے بدلے كسى لمبى سورت كا كچھ حصہ تلاوت كرنا جائز ہے، ليكن افضل يہ ہے كہ ہر ركعت ميں مكمل سورت كى تلاوت كى جائے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا غالب عمل يہى تھا.

امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ظہر اور عصر كى دو ركعتوں ميں سورہ فاتحہ اور ايك ايك سورت پڑھا كرتے تھے ـ يعنى ہر ركعت ميں ايك سورۃ كى تلاوت كرتے ـ "

صحيح بخارى : ( 762 ) صحيح مسلم : ( 451 ).

يہ حديث  دليل ہے كہ: ( چھوٹى مكمل سورت كى قرآت كسى لمبى سورت كا كچھ حصہ پڑھنےسے افضل ہے ) اھـ

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 4 / 174 ).

كيونكہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ قول: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پڑھا كرتے تھے"

 اس عمل پردوام کی دليل ہے، يا پھر غالبا ان كا يہى فعل ہوا كرتا تھا.

ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 244 ).

 نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك ركعت ميں سورت كا كچھ حصہ تلاوت كرنا بھى ثابت ہے:

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر كى دونوں ركعتوں ميں 

’’قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا ‘‘

’’اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان ﻻئے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی‘‘(سورۃ البقرۃ:136)

اور جو آل عمران ميں ہے

’’تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ‘‘

’’ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے‘‘(سورۃ العمران:64)

كى تلاوت كيا كرتے تھے "

صحيح مسلم :( 727 ).

يہ حديث ايك ركعت ميں سورۃ كا كچھ حصہ تلاوت كرنے كى دليل ہے.

ديكھيں: نيل الاوطار ( 2 / 255 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ىہ طريقہ تھا كہ نماز میں پورى سورت كى تلاوت كيا كرتے تھے، اور بعض اوقات اسے دونوں ركعتوں ميں پڑھتے، اور بعض اوقات سورت كا ابتدائى حصہ تلاوت كرتے.ليكن سورتوں كا آخرى يا درميان كا حصہ كى تلاوت كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان نہيں كيا جاتا، اور ايك ہى ركعت ميں دو سورتيں پڑھنا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نفلى نماز ميں ايسا كيا كرتے تھے، ليكن فرضى نماز ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان نہيں كيا جاتا.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ حديث:

" ميں ان نظائر كو جانتا ہوں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ركعت ميں جن كو ملا كر پڑھا كرتے تھے، نجم اور الرحمن ايك ركعت ميں، اور اقتربت الساعۃ اور الحاقۃ ايك ركعت ميں، سورۃ الطور اور الذاريات ايك ركعت ميں، اور اذا وقعت الواقعۃ اور سورۃ نون ايك ركعت ميں، اور سال سائل اور سورۃ النازعات ايك ركعت ميں، اور ويل للمطففين اور سورۃ عبس ايك ركعت ميں سورۃ المدثر اور المزمل ايك ركعت ميں ھل اتى على الانسان اور لا اقسم بيوم القيمۃ ايك ركعت ميں، اور عم يتسالون، اور المرسلات ايك ركعت ميں اور سورۃ الدخان اور اذا الشمس كورت ايك ركعت ميں " الحديث.

یہ فعل كا بيان ہوا ہے، اس ميں جگہ كى تعيين نہيں، آيا يہ فرضى نماز ميں تھا يا كہ نفلى نماز ميں ؟ اس كا احتمال ہے.

اور دو ركعتوں ميں ايك سورت كى قرآت بہت ہى كم كيا كرتے تھے، ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے جھنى قبيلہ كے ايك شخص سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے فجر كى نماز ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اذا زلزلت الارض دونوں ركعتوں ميں سنى تھى.

وہ كہتے ہيں: مجھے علم نہيں كہ آيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا بھول كر كيا يا عمدا " ؟ اھـ

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 214 - 215 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" فرضى اور نفلى نماز ميں انسان كے ليے كسى سورت كى كوئى آيت پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں"

ہو سكتا ہے انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم سے استدلال كيا ہو.

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿چنانچہ تمہارے ليے جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو اتنا پڑھو﴾المزمل ( 20 ).

ليكن سنت اور افضل يہ ہے كہ وہ مكمل سورت پڑھے، اور زیادہ بہتر  يہ ہے كہ ہر ركعت ميں ايك سورت کی تلاوت ہو، اگر اس ميں مشقت ہو تو پھر ايك سورت كو ركعتوں ميں تقسيم كر كے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں. اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 104 ).

واللہ اعلم .


فتویٰ کمیٹی


محدث فتویٰ

تبصرے