سوال: حدیث کا حکم اور اس حدیث کا معنی و مطلب سمجھا دیں
ابوہمام ولید بن شجاع بن ولید بغدادی، ولید بن مسلم، اوزاع، یحیی بن ابی
کثیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے
پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کی روح اور جسم تیار
ہو رہا تھا۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1575 حدیث مرفوع مکررات 1
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قالوا يا رسول الله! متى وجبت لك النبوة؟ قال: « وآدم بين الروح والجسد »
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3609
خلاصة حكم المحدث: صحيحکہ انہوں (صحابہ کرام) نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! آپ کیلئے نبوت کب واجب (ثابت) ہوئی؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب آدم ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے۔‘‘
یعنی اس وقت کہ جب آدم میں جسم اطہر میں روح بھی نہیں ڈالی گئی تھی۔ (تحفۃ الاحوذی)
صحابہ کرام کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے نبی بنانے کا فیصلہ کب ہوا تھا؟ جس کا آپﷺ نے جواب دیا کہ آدم کے پیدا ہونے سے بھی پہلے۔ کیونکہ یہ چیز اللہ کے علم میں تھی اور اللہ کا علم قدیم اور ازلی ہے۔
جیسا کہ بعض صحیح روایات میں
متى وجبت لك النبوة؟کی بجائے متىٰ كُتِبتَ نبيا ہے، یعنی ’’آپ کو نبی کب لکھا گیا؟‘‘ اور بعض روایات میں ہے:
« إني عند الله لمكتوب خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته»کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھ دیا گیا تھا .....‘‘
جس سے معنیٰ خوب واضح ہو جاتا ہے۔
(١)
قلت يا رسول الله متى كتبت نبيا قال : و آدم بين الروح و الجسد
الراوي: ميسرة الفجر المحدث: الألباني - المصدر: تخريج كتاب السنة - الصفحة أو الرقم: 410
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح(٢)
إني عند الله لمكتوب خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته سأنبئكم بأول أمري دعوة أبي إبراهيم وبشرى عيسى ورؤيا أمي رأت حين ولدتني كأنها خرج منها نور أضاءت له قصور الشام
الراوي: العرباض بن سارية المحدث: ابن تيمية - المصدر: الرد على البكري - الصفحة أو الرقم: 61
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسنالله تعالیٰ نے سیدنا آدم کے جسدِ اَطہر کو پیدا فرمانے کے بعد اور اس میں روح ڈالنے سے پہلے جو کچھ ان کی اولاد میں ہونا تھا وہ لکھ دیا اور ظاہر کر دیا تھا۔ اسی میں نبی کریمﷺ کی نبوت بھی تھی، جسے لکھ دیا اور ظاہر کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
«يجمع خلق أحدكم في بطن أمه أربعين يوما نطفة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث إليه ملكا، فيُؤْمَرُ بأربع كلمات، فيقال: اكتب رزقه وأجله، وعمله، وشقي أوسعيد، ثم ينفخ فيه الروح»تو جیسے ماں کے پیٹ میں جنین کے بدن کو پیدا کرنے کے بعد اور اس میں روح پھونکنے سے پہلے اس کا رزق، اجل، اعمال اور شقاوت یا سعادت لکھ دی جاتی ہے، اسی طرح نبی کریمﷺ کے بارے میں بھی لکھ دیا گیا اور ابھی آدم میں روح نہیں پھونکی گئی تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وقوله ﷺ: «كنت نبيًا وآدم بين الروح والجسد» وفي لفظ «كتبت نبيًا»، كقوله ﷺ: «إني عند الله لمكتوب خاتم النبيين، وإن آدم لَمُنْجَدِلٌ في طِينَتِهِ» فإن الله بعد خَلْقِ جسد آدم وقبل نفخ الروح فيه كتب وأظهر ما سيكون من ذريته، فكتب نبوة محمد وأظهرها، كما ثبت في الصحيحين عن النبي ﷺ قال: «يجمع خلق أحدكم في بطن أمه أربعين يوما نطفة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث إليه ملكا، فيُؤْمَرُ بأربع كلمات، فيقال: اكتب رزقه وأجله، وعمله، وشقي أوسعيد، ثم ينفخ فيه الروح»، فقد أخبر ﷺأنه بعد أن يخلق بدن الجنين في بطن أمه - وقبل نفخ الروح فيه - يكتب رزقه وأجله وعمله وشقي أم سعيد فهكذا كتب خبر سيد ولد آدم وآدم منجدل في طينته قبل أن ينفخ الروح فيه ... مجموع الفتاوىٰ