سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(579) نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم

  • 4947
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2125

سوال

(579) نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت 3 طلاقیں دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے؟ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘

 2       عبدالرزاق نے عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی زوجہ کو 1000 طلاق دے ڈالیں۔ آپ سے مسئلہ دریافت کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ تین طلاقوں کے ذریعے سے تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی اور 997 ظلم اور عدوان کے طور پر باقی رہ گئے۔

 3       دار قطنی میں ہے کہ ابن عمر  رضی اللہ عنہ کو جب رجوع کا حکم دیا گیا تو انہوں نے آپؐ سے پوچھا کہ اگر میں اس کو 3 طلاق دے دیتا تو کیا، پھر بھی میں رجوع کرسکتا تھا؟ حضور نے جواب دیا: ’’ لا۔‘‘

 (۱)     ان احادیث کے مقابلے میں مسلم میں ابن عباس کا اثر کیا وقعت رکھتا ہے؟

 4       حدیث رکانہ بن عبد یزید ابو داؤد میں نقل کی گئی ہے کہ رکانہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیں تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ کیا اس کی نیت ایک طلاق ہی کی تھی۔ جب رکانہ نے حلفاً بیان دیا کہ میری نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی تو اس وقت آپؐ نے اسے رجوع کا حکم دیا۔

 5       صحیح بخاری میں عویمر عجلانی کا واقعہ ذکر ہے، پس انہوں نے قبل اس کے کہ آنحضرت اسے حکم دیتے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں۔

 6       امام بخاری نے حضرت عائشہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں۔ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ کیا وہ عورت اسی شخص سے نکاح کرسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی ، صحبت ، طلاق کے بعد پہلے شخص سے شادی کرے۔‘‘ گویا تین طلاق واقع ہوگئی تھیں۔ مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ آپ بخاری کو بھی نہیں مانتے؟ (اللہ دتہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1 اس روایت کے متعلق التعلیقات السلفیہ میں لکھا ہے:  (( حدیث محمود ابن لبید ھذا رجالہ ثقات لکن محمود ولد فی عہد النبی  صلی الله علیہ وسلم ولم یثبت منہ سماع ، وقد قال النسائی (یعنی فی الکبری) بعد تخریجہ: لا أعلم أحدا رواہ غیر مخرمۃ بن بکیر یعنی ابن الأشج عن أبیہ ۱۰ھ۔ وروایۃ مخرمۃ عن أبیہ عند مسلم فی عدۃ أحادیث ، وقد قیل: إنہ لم یسمع من أبیہ۔ کذا فی الفتح۔ ))  [(۱۶۳ ؍ ج:۵) ۱۰ھ (۲؍۸۹)]

          محدّثِ وقت شیخ البانی … رحمہ اللہ تعالیٰ … نے اس روایت کو صحیح سنن نسائی میں جگہ نہیں دی۔ اگر اس روایت کو صحیح ہی تسلیم کرلیا جائے تو بھی اس سے صرف اور صرف بیک وقت تین طلاق دینے کا عدم جواز نکلے گا بیک وقت تین طلاق کا تین ہی واقع ہونا اس سے بالکل نہیں نکلتا غور فرمالیں۔

 2       اس روایت کے متعلق مصنف عبدالرزاق کے محشی و محقق لکھتے ہیں:  (( وإبراھیم بن عبید اللّٰہ ذکرہ ابن حجر فی اللسان ، ونقل عن الدار قطنی أنہ ضعیف ، وقال مرۃ: مجھول۔ وأما داؤد بن عبادۃ فلم أجد أحدا ذکرہ۔ ))  [۱۰ھ (۶؍۳۹۳)]

          امام دار قطنی … رحمہ اللہ تعالیٰ … اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:  (( رواتہ مجھولون وضعفاء إلا شیخنا وابن عبدالباقی ۱۰ھ (۴؍۲۰)۔ )) غور فرمائیں اس روایت کے کمزور ہونے میں آیا رہ گئی ہے کوئی کسر باقی؟

 3       اس روایت کے متعلق التعلیق المغنی میں لکھا ہے:  (( فی إسنادہ عطاء الخراسانی ، وھو مختلف فیہ ، وقد وثقہ الترمذی ، وقال النسائی وأبو حاتم: لا بأس بہ۔ وضعفہ غیر واحد ، وقال البخاری لیس فیمن روی عنہ مالک من یستحق الترک غیرہ۔ وقال شعبۃ: کان نسیا۔ وقال ابن حبان: من خیار عباد اللّٰہ غیر أنہ کان کثیر الوھم سیٔ الحفظ یخطیٔ ولا یدری ، فلما کثر ذلک فی روایتہ بطل الاحتجاج بہ۔ وأیضا الزیادۃ التی ھی محل الحجۃ أعنی قولہ: لوطلقہا الخ۔ مما تفرد بہ عطاء ، وخالف فیہ الحفاظ ، فإنھم شارکوہ فی أصل الحدیث ، ولم یذکروا الزیادۃ۔ وأیضا فی إسنادہ شعیب بن رزیق الشامی وھو ضعیف۔ کذا فی النیل ، وذکرہ عبدالحق فی أحکامہ بھذا السند، وأعلہ بمعلی بن منصور، وقال: رماہ أحمد بالکذب۔ ولم یعل البیہقی ھذا السند إلا بعطاء الخراسانی ، وقال: إنہ أتی فی ھذا الحدیث بزیادات لم یتابع علیہا ، وھو ضعیف فی الحدیث لا یقبل ما تفرد بہ۔ کذا ذکرہ الزیلعی۔ ۱۰ھ (۴؍۳۲)۔ )) 

          محدّث وقت شیخ البانی … رحمہ اللہ تعالیٰ … نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ دیکھیں:1

 4       یہ روایت بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ چنانچہ عون المعبود میں لکھا ہے:  (( واستدلال بالحدیث علی أن الطلاق الثلاث مجموعۃ تقع ثلاثا ووجہ الاستدلال أنہ  صلی الله علیہ وسلم أحلفہ أنہ أراد بالبتۃ واحدۃ (یقول النور فوری: فی روایۃ ابن جریج لفظۃ: ثلاثا۔ بدل لفظۃ: البتۃ۔) فدل علی أنہ لو اراد بھا أکثر لوقع ما أراد ، ولولم یفترق الحال لم یحلفہ۔ وأجیب بأن الحدیث ضعیف ، ومع ضعفہ مضطرب ، ومع اضطرابہ (یقول النور فوری: وضعفہ) معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق الثلاث کان علی عہد رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم واحدۃ ، فالاستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح وإن شئت الوقوف علی ضعفہ واضطرابہ فراجع التعلیق المغنی شرح الدار قطنی ، فإنہ قد بین فیہ أخونا المعظم أبو الطیب ضعف الحدیث واضطرابہ بالبسط والتفصیل۔ ۱۰ھ (۲؍۲۳۱)۔)) 

          اس روایت کے ضعف کی مزید تفصیل دیکھنا چاہیں تو محدثِ وقت شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مایۂ ناز کتاب إرواء الغلیل کا مطالعہ فرمالیں۔ انہوں نے جلد نمبر: ۷ میں صفحہ نمبر: ۱۳۹ سے لے کر صفحہ نمبر: ۱۴۵ تک چھ صفحات میں سیر حاصل بات چیت سپرد قلم فرمانے کے بعد لکھا ہے:  (( وجملۃ القول أن حدیث الباب ضعیف ، وأن حدیث ابن عباس المعارض لہ أقوی منہ۔ ۱۰ھ (۷؍۱۴۵ ؍ ح: (۲۰۶۳)۔)) 

 5       عویمر عجلانی  رضی اللہ عنہ والی حدیث لعان کے بارہ میں ہے اس سے زیادہ سے زیادہ یہی بات نکالی جاسکتی ہے کہ لعان والی بیوی کو بعد از لعان میاں صاحب بیک وقت تین طلاقیں دے سکتے ہیں رہایکبارگی تین طلاقوں کا تین ہی واقع ہوجانا تو وہ اس حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔

 6       آپ لکھتے ہیں: ’’ امام بخاری نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں۔‘‘ الخ۔ بعد میں آپ فرماتے ہیں: ’’ گویا تین طلاق واقع ہوگئی تھیں۔‘‘ آپ نے حدیث

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1        إرواء الغلیل (۷؍۱۱۹۔ ۱۲۰؍ ح (۲۰۵۴)

          نقل کرتے وقت بھی ’’ تین طلاق ‘‘ کے لفظ بولے اور اپنی بات کرتے وقت بھی ’’ تین طلاق ‘‘ کے لفظ بولے ہیں جبکہ آپ کو بھی علم ہے کہ آپ ’’ بیک وقت تین طلاق ‘‘ کے وقوع کے اثبات کے درپے ہیں۔ جیسا کہ آپ کی پہلی نسائی والی روایت کے ذکر میں ’’ بیک وقت تین طلاقیں ‘‘ کے لفظ گزر چکے ہیں۔

پھر بخاری والی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی یہ روایت آپ نے کتاب الطلاق سے نقل فرمائی ہے اور یہ روایت امام صاحب نے اس مقام پر بطریق قاسم بن محمد مختصراً ذکر کی ہے ، جبکہ امام صاحب نے ہی اسی حدیث کو کتاب الادب ؍ باب التبسم والضحکمیں بطریق عروہ بن زبیر مفصلاً بیان فرمایا ہے اور اس میں یہ لفظ ہیں:  (( فطلقھا آخر ثلاث تطلیقات۔)) تو اس نے اس کو تین طلاقوں سے آخری طلاق دے دی۔ تو اس تفصیلی روایت سے ثابت ہوا کہ اس بیگم کو تین طلاقیں بیک وقت نہیں ملی تھیں۔ لہٰذا آپ کا موقف ’’ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوجاتی ہیں۔ ‘‘ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا مخالفین کا طعنہ کہ ’’ آپ بخاری کو بھی نہیں مانتے ‘‘ خواہ مخواہ اور بلاوجہ ہے۔

اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ قاسم والی روایت اور عروہ والی روایت اور ہے تو پھر ان کے ذمہ ہے کہ قاسم والی روایت میں  (( طلق امرأۃ ثلاثا۔)) کے لفظ سے بیک وقت تین طلاقیں مراد ہونے کی دلیل پیش فرمائیں۔ باقی اس روایت کا لحاظ  (( فتزوجت ، فطلق، فسئل النبی  صلی الله علیہ وسلم أتحل للأول؟ قال: لا۔)) الخ اس بات کی دلیل نہیں کیونکہ تین طلاقیں جدا جدا ہوں تو یہی حکم ہے جبکہ عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہ والی حدیث ہمیں بتارہی ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں۔ اور یہ’’ طلق امرأۃ ثلاثا ‘‘میں تین طلاقیں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے عہد کی ہی ہیں۔ لہٰذا یہ تین جدا جدا تھیں ورنہ لحاق میں بیان شدہ حکم درست نہیں رہتا۔ واللہ اعلم۔

                                                                        ۲۲ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 484

محدث فتویٰ

تبصرے