ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سات آٹھ سال پہلے طلاق دی۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد پھر دوسری طلاق بھیج دی۔ ایک ماہ پھر گزرنے پر تیسری طلاق بھیج دی اور پہلی طلاق دینے کے بعد اس نے اپنی بیوی سے رجوع بھی نہیں کیا۔ اس عورت نے اب تک کہیں دوسرا نکاح نہیں کیا ، اب وہ دونوں رجوع کرنا چاہتے ہیں کیا قرآن و حدیث میں اس کی اجازت ہے؟ (محمد یونس شاکر ، نوشہرہ ورکاں)
آپ کی مسئولہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اَلطَّـلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرۃ:۲۲۹] [ ’’ طلاق (رجعی) دو مرتبہ ہے ، پھر یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ ] ان دوطلاقوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے رجوع کی شرط نہیں لگائی۔ پھر فرمایا: {فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ} [البقرۃ:۲۳۰] [ ’’ اگر (کسی شوہر نے اپنی بیوی کو تیسری) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الاَّ یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو۔ ‘‘ ] دو کے بعد اور تیسری سے پہلے بھی رجوع کی شرط کہیں وارد نہیں ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دونوں قول: ’’ اَلطَّـلَاقُ مَرَّتَانِ ‘‘ اور ’’ فَإِنْ طَلَّقَھَا ‘‘دونوں صورتوں رجوع اور عدم رجوع کو متناول و شامل ہیں۔ تو صورتِ مسئولہ میں عورت اپنے خاوند کے لیے حلال نہیں۔ {حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا أَنْ یَّتَرَاجَعَآ إِنْ ظَنَّا أَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط} [البقرۃ:۲۳۰] [ ’’ اور وہ اسے طلاق دے ، اگر پہلا خاوند اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِ الٰہی پر قائم رہیں گے تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ ] ۲۳ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ