ایک آدمی نے کچھ عرصہ پہلے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی۔ دس دن کے بعدان کی صلح ہوگئی۔ دوبارہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان میں دوبارہ جھگڑاہوا تو اس نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں ایک ہی نوٹس میں بھیج دیں۔ اب تین طلاقوں کو دیئے ہوئے ساڑھے چار ماہ گزرچکے ہیں۔ کیاقرآن و حدیث کی روشنی کے مطابق نکاح ہوسکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اس آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر صلح و رجوع کرلینے کے بعد یکمشت تین طلاقیں دے دیں جو شریعت میں ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم ؍ جلد اول؍ صفحہ نمبر: ۴۷۷ میں ہے: ’’ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: تین طلاقیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک طلاق ہوتی تھی۔ ‘‘ الحدیث۔ اور پہلی رجعی طلاق اور دوسری رجعی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا تجدید نکاح درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَبُعُوْلَتُھُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا ط} [البقرۃ:۲۲۸] [ ’’ ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ ] اور عدت کے بعد رجوع بتجدید نکاح درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ فَـلَا تَعْضُلُوْھُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَھُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط} [البقرۃ:۲۳۲] [ ’’ اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں اپنی عدت کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں ، خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں ، آپس میں ساتھ اچھی طرح کے۔ ‘‘ ] چونکہ صورتِ مسئولہ میں دی ہوئی طلاق دوسری طلاق ہے۔ لہٰذا عدت کے اندر رجوع بلا نکاح اور عدت کے بعد رجوع بنکاح شرعاً درست ہے۔ واللہ اعلم۔ ۲ ؍ ۱۰ ؍ ۱۴۲۲ھ