کیا فرماتے ہیں علمائِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی اور عدت کے دوران اپنے والدین کے ساتھ صلح کے لیے آیا لیکن لڑکی کے والدین رضا مند نہ ہوئے۔ کیا یہ طلاق مؤثر ہوگئی ہے یا نہیں؟ (محمد عمران ، گھوڑے شاہ ، گوجرانوالہ)
صورتِ مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اب میاں بیوی عدت کے اندر اندر صلح کرسکتے ہیں۔ اور عدت کے بعد نیا نکاح کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ فَأَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّ حُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ط} [البقرۃ:۲۳۱] [ ’’ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کردو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم و زیادتی کے لیے نہ روکو۔ ‘‘ ] نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ فَـلَا تَعْضُلُوْھُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَھُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط} [البقرۃ:۲۳۱] [ ’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، جبکہ وہ دستور کے مطابق رضا مند ہوں۔ ‘‘ ]
۱۱ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۰ھ