جناب سائل نے اپنی بیوی کو یکبار (ایک ہی سانس میں) تین بار طلاق کہہ دیا ہے۔ یعنی کہ دو دفعہ طلاق ، طلاق اور تیسری مرتبہ کہ میں نے تمہیں تین طلاق دے دی ہیں۔
جنابِ محترم بندہ کو طلاق دینے کا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہ تھا اور اس دورانیہ کو پانچواں روز ہے۔ بندہ اپنے غصہ پر نادم اور پشیمان ہے اور رجوع کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا بندہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
صورتِ مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ کیونکہ ایک مجلس کی تین یا تین سے زائد طلاق ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔ صحیح مسلم ؍ کتاب الطلاق میں ہے : عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں :تین طلاقیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی طلاق ہوا کرتی تھیں۔ اور قرآنِ مجید میں ہے: {وَبُعُوْلَتُھُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا ط} نیز قرآنِ مجید میں ہے: {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ فَـلَا تَعْضُلُوْھُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَھُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط} الآیۃ۔
تو صورتِ مسئولہ میں عدت کے اندر صلح بلا نکاح درست ہے اور عدت کے بعد صلح بنکاحِ جدید صحیح ہے۔ واللہ اعلم ۔ ۲۰ ؍ ۹ ؍ ۱۴۲۳ھ