ہمارے ایک جاننے والے نے جس لڑکی سے شادی کی وہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کی شادی میں لڑکی کے والدین قطعاً راضی نہ تھے، کیونکہ ان کے خیال میں ایک سیّدزادی کا نکاح باہر کرنا باعث نفرت سمجھا جاتا ہے۔
المختصر چونکہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، لہٰذا لڑکی نے گھر سے فرار اختیار کی اور کسی دار الامان میں پناہ گزیں ہوگئی۔ لڑکا لڑکی کو بیاہ کر اپنے ساتھ لے آیا۔ لڑکی کے والدین نے لڑکی کی بازیابی کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کررکھا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں جبکہ ان کے دوبچے ہیں تو لڑکے کو احساس ہوا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر تو نکاح ہی نہیں ہوتا۔ لیکن دریافت طلب بات یہ ہے کہ اب اس مسئلہ کا شرعی حل کیا ہے؟ آیا انہیںتجدید نکاح کرنا پڑے گا یا وہ دونوں سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں؟
آپ نے جس نکاح کا تذکرہ فرمایا وہ کوئی نکاح نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ سیّد زادی کا نکاح باہر درست نہیں، کیونکہ سیّد زادی کا نکاح مسلم کے ساتھ درست ہے ، خواہ وہ غیر سید ہی ہو۔ بلکہ یہ نکاح اس بناء پر نہیں کہ ولی کے بغیر ہوا اور اگر نکاح سے پہلے یہ جوڑا آپس میں زنا کا ارتکاب کرچکا ہے تو یہ نکاح ناجائز ہونے کی دوسری وجہ ہوگی۔ ایک ولی کے بغیر ہونے والی وجہ موجود ہے ۔ اس جوڑے کے درمیان جدائی ضروری ہے اور لڑکی کو اس کے والدین کے پاس پہنچاناواجب و فرض اور اس لڑکے کا اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا حرام ہے۔ واللہ اعلم ۔ کیے پر سزا کے مستوجب ہیں [اور یہ بندہ اخلاص کے ساتھ توبہ کرے فیصلہ ولی کے ہاتھ میں ہے۔]
۱۳ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ