سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(511) کیا ایک سفر میں زیادہ عمرے کرسکتے ہیں؟

  • 4879
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2569

سوال

(511) کیا ایک سفر میں زیادہ عمرے کرسکتے ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک سفر میں زیادہ عمرے کرسکتے ہیں؟                      (محمد بشیر الطیب ، کویت)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمرہ میں بھی اور ایک سفر میں بھی متعدد عمرے کرنا درست ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی احادیث ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ (( عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم: اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا ، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ جَزَائٌ إِلاَّ الْجَنَّۃَ۔ ))(متفق علیہ)2

[’’رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عمرہ ان تمام گناہوں کا کفارہ ہے، جو موجودہ اور گزشتہ عمرہ کے درمیان سرزد ہوئے ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔‘‘]

یہ حدیث عام ہے مکہ مکرمہ میں مقیموں اور مسافروں دونوں کو شامل ہے ایک مقیم یا مسافر نے عمرہ کیا آٹھ دن یا کم و بیش دن ٹھہر کر اس نے دوسرا عمرہ کیا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس کے دونوں عمروں کے درمیانہ وقفہ کا کفارہ ہوجائے گا، اس حدیث کو دوسفروں میں دو عمروں کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں نہ قرآنِ مجید میں اور نہ ہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث میں۔ باقی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا عمل ’’ ایک سفر میں ایک عمرہ کرنا‘‘ اس حدیث کا مخصص نہیں بن سکتا ورنہ لازم آئے گا، عمر بھر میں چار عمروں سے زیادہ عمرے کرنا درست نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا عمل عمر بھر میں بعد از ہجرت چار عمرے کرنا ہی ہے ۔ نیز لازم آئے گا حج کے سفر میں طواف و داع کے علاوہ چھ طواف سے زیادہ اور عمرے کے سفر میں ایک طواف سے زیادہ طواف کرنا درست نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کے سفروں میں اتنے ہی طواف کیے ہیں اور معلوم ہے کہ دونوں لازم صحیح نہیں۔ لہٰذا ملزوم بھی صحیح نہیں تو عمر بھر میں چار عمروں سے زیادہ عمرے کرنا درست ہے اور ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرے کرنا بھی درست ہے اور گناہوں کا کفارہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:  (( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا ))

۲۔ (( وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم: إِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَعْدِلُ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری؍کتاب النکاح؍باب لا یخلون رجل بامرأۃ الازو محرم۔ صحیح مسلم؍کتاب الحج ؍باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ

2 بخاری ؍ کتاب العمرۃ ؍ باب وجوب العمرۃ وفضلھا

حَجَّۃً ))(متفق علیہ)1

[’’رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بے شک رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔‘‘]

یہ حدیث بھی عام ہے مکہ مکرمہ میں مقیموں اور مسافروں دونوں کو شامل ہے۔ پھر متعدد رمضانوں میں متعدد عمروں اور ایک رمضان میں متعدد عمروں کو بھی متناول ہے۔ ان صور متعددہ سے کسی ایک صورت کے ساتھ اس حدیث کو بھی خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیںنہ قرآنِ مجید میں اور نہ ہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث میں۔

۳۔ (( وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم: تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبٌ کَمَا یَنْفِی الکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ ، وَالذَّھَبِ ، وَالْفِضَّۃِ وَلَیْسَ لِلْحَجَّۃِ المَبْرُورَۃِ ثَوَابُ إِلاَّ الجَنَّۃَ ))2

[’’آپؐ نے فرمایا: ’’ پے درپے حج اور عمرہ کرو۔ بے شک یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں، جس طرح (آگ کی) بھٹی لوہے اور سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ حج مقبول کا ثواب صرف جنت ہے۔‘‘ ]

یہ حدیث بھی عام ہے مسافروں کو بھی شامل ہے ایک سفر میں متعدد عمروں کو بھی متناول ہے ، اس حدیث کو بھی کسی ایک صورت کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں نہ قرآنِ مجید میں اور نہ ہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث میں۔

۴۔ (( وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ1 عَلَی النِّسَآئِ جِھَادٌ؟ قَالَ: نَعَمْ عَلَیْھِنَّ جِھَادٌ لاَ قِتَالَ فِیْہِ اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ ))(رواہ ابن ماجہ وأحمد)

[عائشہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم1 کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ ہاں1 ان پر وہ جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں۔ حج اور عمرہ۔ ‘‘ ]

یہ حدیث بھی عام ہے ، پھر اس میں عمرہ کو جہاد کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور معلوم ہے کہ ایک سفر میں متعدد غزوات درست ہیں، جیسے حضر میں … وقفہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 بخاری ؍ کتاب العمرۃ ؍ باب عمرۃ فی رمضان ، مسلم ؍ کتاب الحج ؍ باب فضل العمرۃ فی رمضان

2 رواہ الترمذی ؍ کتاب الحج ؍ باب ثواب الحج والعمرۃ ، والنسائی ؍ کتاب الحج ؍ باب فضل المتابعۃ بین الحج والعمرۃ۔ ابن ماجہ ؍ کتاب المناسک ؍ باب فضل الحج والعمرۃ

۵۔ (( وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَقُوْلُ: وَفْدُ اللّٰہِ ثَلاَثَۃٌ اَلْغَازِی وَالحَاجُّ ، وَالْمُعْتَمِرُ ))(رواہ النسائی)

[’’اللہ کے مہمان تین ہیں۔ مجاہد… حج کرنے والا … اور عمرہ کرنے والا۔‘‘]

یہ حدیث بھی عام ہے مقیم اور مسافر دونوں کو شامل ہے، پھر ایک سفر میں ایک عمرہ کرنے والے اور ایک سفر میں زیادہ عمرے کرنے والے دونوں کو متناول ہے، تخصیص کی کوئی دلیل نہیں نہ تو قرآنِ مجید میں اور نہ ہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث میں۔

امام شوکانی … رحمہ اللہ تعالیٰ… حدیث: (( العمرۃ إلی العمرۃ کفارۃ لما بینھما ))کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:  (( وفی الحدیث دلالۃ علی استحباب الاستکثار من الاعتمار خلافا لقول من قال: یکرہ أن یعتمر فی السنۃ أکثر من مرۃ کالمالکیۃ۔ ولمن قال: یکرہ أکثر من مرۃ فی الشہر من غیرھم۔ واستدل للمالکیۃ بأن النبی  صلی الله علیہ وسلم لم یفعلھا إلا من سنۃ إلی سنۃ ، وأفعالہ علی الوجوب ، أو الندب۔ وتعقب بأن المندوب لا ینحصر فی أفعالہ  صلی الله علیہ وسلم، فقد کان یترک الشیء ، وھو یستحب فعلہ لدفع المشقۃ عن أمتہ ، وقد ندب إلی العمرۃ بلفظہ ، فثبت الاستحباب من غیر تقیید ، واتفقوا علی جوازھا فی جمیع الأیام لمن لم یکن متلبسا بالحج إلا مانقل عن الحنفیۃ أنھا تکرہ فی یوم عرفۃ ویوم النحر ، وأیام التشریق۔ وعن الہادی أنھا تکرہ فی أیام التشریق فقط ، وعن الہادویۃ أنھا تکرہ فی أشہر الحج لغیر المتمتع والقارن إذ یشتغل بھا عن الحج۔ ویجاب بأن النبی  صلی الله علیہ وسلم اعتمر فی عمرہ ثلاث عمر مفردۃ کلھا فی أشہر الحج۔ وسیاتی لہذا مزید بیان فی جواز العمرۃ فی جمیع السنۃ ))[نیل الاوطار:۴؍ ۲۸۳ ـ ۲۸۴]

          امام شوکانی … رحمہ اللہ تعالیٰ… کی یہ تشریح جس طرح پہلی حدیث کی تشریح ہے ، اسی طرح مندرجہ بالا باقی چار حدیثوں کی بھی تشریح ہے۔

          منتقی الأخبار میں ہے: (( وعن علی  رضی اللہ عنہ قال: فی کل شہر عمرۃ۔ (رواہ الشافعی) علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی عام ہے ، مقیم و مسافر دونوں کو شامل ہے، آپ اوپر پڑھ آئے ہیں، ایک ماہ میں ایک عمرہ والی تقیید بھی درست نہیں۔

          رہا یہ مسئلہ کہ آفاقی مکہ معظمہ میں رہ رہا ہے ، عمرہ کرنا چاہتا ہے تو احرام کہاں سے باندھے گا تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تنعیم مسجد عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما سے بھی احرام باندھ سکتا ہے ، کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر  رضی الله عنہ کو حکم دیاتھا کہ وہ اپنی ہمشیرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو تنعیم سے عمرہ کروائے۔ چنانچہ انہوں نے ان کو تنعیم سے عمرہ کروایا۔ 1اور وہ جہاں ٹھہرا ہوا ہے وہاں سے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( ھُنَّ لَھُنَّ وَلِمَنْ أَتٰی عَلَیْھِنَّ مِنْ غَیْرِ ھِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ، وَمَنْ کَانَ دُوْنَ ذٰلِکَ فَمِنْ حَیْثُ أَنَشَأَ حَتّٰی أَھْلُ مَکَّۃَ مِنْ مَکَّۃَ )) اور ایک روایت میں لفظ اس طرح ہیں:  (( فَھُنَّ لَھُنَّ ، وَلِمَنْ أَتٰی عَلَیْھِنَّ مِنْ غَیْرِ أَھْلِھِنَّ مِمَّنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ، فَمَنْ کَانَ دُوْنَھُنَّ فَمِنْ أَھْلِہٖ حَتّٰی أَنَّ أَھْلَ مَکَّۃَ یُھِلُّوْنَ مِنْھَا۔ )) (صحیح بخاری)تو مکہ مکرمہ میں ٹھہرے ہوئے آفاقی کے لیے اپنی رہائش گاہ اور تنعیم دونوں مقاموں سے عمرہ کا احرام باندھنا درست ہے اور رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی سنت و حدیث سے ثابت ہے۔

باقی ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک وقفہ کی تعیین و تحدید کتاب و سنت میں کہیں وارد نہیں ہوئی۔ عمرہ کرنے والا جتنا وقفہ مناسب سمجھے اتنا وقفہ کرلے یہ چیز عمرہ کرنے والے کی صواب دید کے سپرد ہے۔

یہ میقاتیں ان کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دوسرے شہروں سے ان کے پاس سے حج یا عمرہ کے ارادہ سے گزریں اور جو لوگ ان میقاتوں کے اندر ہوں وہ اپنی رہائش گاہ سے جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں حتی کہ اہل مکہ ، مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔                         ۱ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۳ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 444

محدث فتویٰ

تبصرے