کیا صدقات اور زکوٰۃ سے دینی مدرسہ کے لیے جگہ خریدی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس جگہ اس مال سے مدرسہ کی تعمیر کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ (سائل ابوعبداللہ محمد امین)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [التوبۃ:۶۰] [ ’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے، اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ ]
صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک کے لیے یا دو کے لیے یا تین کے لیے یا سب کے لیے دینی مدرسہ کی خاطر جگہ خریدی جاسکتی ہے، نیز اس جگہ پر صدقات و زکوٰۃ کے مال سے عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ ہاں ایسے دینی مدارس میں جو طلبہ ان آٹھ مصارف سے کسی ایک مصرف میں بھی شامل نہیں وہ اپنا خرچہ جمع کروائیں۔ واللہ اعلم۔ ۲۰ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۱ھ