حافظ صاحب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ایک دکان ہے، جس میں جو سامان ہے وہ خرید و فروخت ہونے کی وجہ سے کم زیادہ ہوتا ہے تو اس طرح اس مال پر پورا سال بھی نہیں گزرتا ہے۔ کیا اس دکان کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے؟ اور اگر ہے تو کیا دکان کی ہر چیز کی قیمت لگا کر حساب کرکے ادا کی جائے یا ویسے ہی اندازے کے ساتھ زکوٰۃ نکال دے، جبکہ کچھ قرض لینے اور دینے بھی ہیں۔ (کلیم انور، ہزارہ)
جو ماہ آپ نے زکوٰۃ کے ادا کرنے کے لیے متعین فرمایا ہے اس ماہ جتنا سودا برائے فروخت دکان میں موجود ہے۔ خواہ اس پر سال گزرا ہے یا نہیں۔ اس کی حالیہ قیمت لگالیں ، لاوکس ولا شطط۔پھر جتنی رقم آپ کے پاس نقد موجود ہے یا آپ نے لوگوں سے لینی ہے وہ دونوں اس سودے کی قیمت میں جمع کرلیں اور جو قرض آپ نے دوسروں کو دینا ہے وہ اس میزان سے نکال لیں، جو باقی بچے اس کی زکوٰۃ ادا کردیں۔
[رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے ہم اس مال کی زکوٰۃ ادا کریں جو ہم نے تجارت کے لیے تیار کررکھا ہے۔] ۱۶ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۳ھ