سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(459) یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟

  • 4827
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1401

سوال

(459) یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

براء بن عازب  رضی اللہ عنہکی روایت میں ہے: ((فَتُعَادُ رُوْحُہٗ فِیْ جَسَدِہٖ)) یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ محدثین میں سے کس نے اسے صحیح قرار دیا ہے ؟ بحوالہ تحریر فرما دیں۔ ( حدیث براء بن عازب ، رواہ احمد و ابو داؤد و قال البانی: اسنادہ صحیحٌ ، مشکوٰۃ باب ما یقال عند من حضر الموت ، الفصل الثالث) فرقہ عثمانیہ والے البانی کی تحقیق کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔

(۲)…منکرین کے سوال جواب کے بعد روح میت کے بدن سے پھر نکال لی جاتی ہے یا ہمیشہ بدن ہی میں رہتی ہے۔ محدثین نے اس بارے میں کیا صراحت کی ہے؟

(۳)… روح کا اصل مقام کون سا ہے؟ کیا روح کا اصل ٹھکانہ میت کا جسم ہے جیسا کہ حدیث براء بن عازب سے اعادہ روح کا اثبات ہوتا ہے یا نیک لوگوں کی روحیں جنت میں اور بُرے لوگوں کی روحیں جہنم میں رہتی ہیں؟

ایک طرف تو براء بن عازب کی حدیث سے اعادہ روح ثابت ہوتا ہے اور دوسری طرف روح کا جنت یا جہنم میں ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے مثلاً شہداء جنت میں اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ۔ اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ابراہیم کو دو دھ پلانے والی جنت میں موجود ہے۔‘‘

عمرو بن لؤی کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جہنم میں اپنی آنتیں کھینچتے دیکھا تھا۔(صحیح بخاری)

براہِ مہربانی ان احادیث میں تطبیق دے دیں۔

فرقہ عثمانیہ کہتا ہے کہ ایک طرف تم کہتے ہو کہ قبر میں روح لوٹا دی جاتی ہے ، دوسری طرف جہنم اور جنت میں بھی روح کی موجودگی ثابت ہو تی ہے اور مستزاد یہ کہ تم کہتے ہو کہ علیین یا سجین میں روحیں رہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلحدیث کی باتوں میں تضاد ہے لہٰذا شہداء کے جنت میں ہونے والی احادیث اور عمرو بن لؤی وغیرہ کے جہنم میں عذاب پانے والی احادیث کے پیش نظر صرف یہی عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ مرتے ہی روح جنت یا دوزخ میں بھیج دی جاتی ہے ۔ قبر میں روح لوٹائے جانے کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے۔

براہ مہربانی وضاحت فرما دیں کہ منکر نکیر کے حساب کتاب لینے کے بعد روح میت کے بدن سے نکال دی جاتی ہے یا نہیں اور پھر اس کا مستقل مقام کون سا قرار پاتا ہے ۔ کیا سجین جہنم کا ایک مقام ہے؟ کیا علیین جنت ہی کا ایک مقام ہے؟

(۴) … کیا عرض اعمال کا عقیدہ درست ہے؟ مسند احمد جلد سوم ۱۶۵ میں حدیث ہے :

’’بے شک تمہارے اعمال تمہارے فوت شد گان ، اعزہ و اقارب پر پیش ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو یہ فوت شد گان خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو دعا کرتے ہیں … ‘‘

(۵)… عبداللہ بن رواحہ  رضی اللہ عنہصحابی کی شہادت کے بعد ان کے بعض انصاری عزیز و اقارب دعا کرتے تھے :

’’ اے اللہ 1 میں ایسے عمل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو مجھے عبداللہ بن رواحہ کے پاس شرمندہ کرے۔(تفسیر ابن کثیر جلد سوم ، ص:۴۳۹)‘‘

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری ؍ کتاب احادیث الانبیاء ؍ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل

2 صحیح بخاری ؍ کتاب التعبیر ؍ باب تعبیر الرؤیا بعد صلاۃ الصُبح


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح ہے۔

(۲) … مؤمن کی روح بدن میں بھی ہوتی ہے اور جنت میں بھی۔ جیسا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ باقی قبر و برزخ کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں جیسا کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کو دنیاوی زندگی بعد از ولادت پر قیاس کرنا درست نہیں۔

(۳)… نمبر ۲ میں اس کا جواب گزر چکا ہے۔

دونوں باتیں درست ہیں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہیں ان میں کوئی تعارض نہیں۔ تطبیق کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب و سنت سے ثابت عقیدہ ، عمل اور قول کو اپنانے والوں کو کافر کہنے والے غور فرمائیں ان کے اس فتویٰ کی زد کہاں پڑتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔

(۴) … مسند امام احمد جلد سوم ص۱۶۵ پر اس کی سند اس طرح ہے: ((حدثنا عبداللہ حدثنی أبی ثنا عبدالرزاق ثنا سفیان عمن سمع أنس بن مالک یقول: قال النبی صلی الله علیہ وسلم ‘‘)) معلوم ہے کہ سند میں ’’من سمع انسا ‘‘ مجہول ہے۔

(۵) … آپ کے محولہ مقام پر لکھاہے: ((وکان بعض الأنصار من أقارب عبداللہ بن رواحۃ یقول: إنی أعوذبک من عمل أخزی بہ عند عبداللہ بن رواحۃ۔ کان یقول ذلک بعد أن استشھد عبداللہ))

اولاً تو یہ بے سند ہے ابن کثیر میں اس کی کوئی سند نہیں ۔ ثانیاً یہ بعض الأنصار من أقارب عبداللہ کا عمل ہے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی حدیث و سنت نہیں اور معلوم ہے موقوفات اور مقطوعات دین میں حجت و دلیل نہیں۔

                                                                              ۶؍۴؍۱۴۲۴ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 394

محدث فتویٰ

تبصرے