سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) پھر قیامت کے بعد جنت اور جہنم میں جانا کیسا؟

  • 4825
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1179

سوال

(457) پھر قیامت کے بعد جنت اور جہنم میں جانا کیسا؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا ، اس کا بعض حصہ بعض کو برباد کر رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو بن عامر الخزاعی اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ 2

          دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ جب نبی  علیہ السلام کے بیٹے ابراہیم  علیہ السلام کی وفات ہوئی ، تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔‘‘ 3

          ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوا جب قیامت سے پہلے ہی جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں تو، پھر قیامت کے بعد جنت اور جہنم میں جانا کیسا؟           (محمد یونس شاکر ، نوشہرہ ورکاں)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2 بخاری ؍ کتاب التفسیر ؍ باب ماجعل اللّٰہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام

3 بخاری ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ماقیل فی اولاد المشرکین


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پچھلے جواب میں جو کچھ گزرا اس سے اس سوال کے جواب کی طرف کچھ نہ کچھ اشارہ ہوتا ہے کہ شکم مادر والی زندگی، بعداز ولادت دنیا والی زندگی، قبر و برزخ والی زندگی اور آخرت، قیامت، جنت و دوزخ والی زندگی چاروں زندگیاں الگ الگ احکام رکھتی ہیں۔ ایک کے احکام کو دوسری کے احکام پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ تو قیامت سے پہلے جنت و جہنم میں جانے اور قیامت کے بعد جنت و جہنم میںجانے کے درمیان فرق ہے۔ دیکھئے شکم مادر میں زندگی اور ولادت کے بعد والی زندگی میں فرق ہے۔ یہ صرف سمجھانے کی خاطر کہہ رہا ہوں ، ایک زندگی کو دوسری پر قیاس نہیں کررہا۔ تو قبر و برزخ والی نیز آخر جنت و دوزخ والی زندگی کی حقیقت اور کیفیت کو ہم کما حقہ نہیں سمجھ سکتے، تاوقتیکہ وہاں پہنچ نہ جائیں ، اس لیے ہمیں کتاب و سنت کی اخبار پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ باقی حقیقت واقعیہ کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ضروری ہے۔

اوپر بیان شدہ چار زندگیاں دو ہی زندگیا ں ہیں۔ زندگی قبل الموت اور زندگی بعد الموت۔ قبل الموت زندگی کے دو حصے ہیں۔ اسی طرح بعد الموت زندگی کے بھی دو حصے ہیں۔تو اس تفصیل کا اعتبار کیا جائے تو پھر چار کا لفظ بھی بول سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ چار والی بات: { قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ط}[’’ وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوبار زندہ کیا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے۔‘‘] [المؤمن:۱۱] کے منافی نہیں ہے۔     

                                                                       ۲۴ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 391

محدث فتویٰ

تبصرے