سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(452) میت والے گھر تین دن ہاتھ اٹھاکر بار بار دعاکرنا کیسا ہے؟

  • 4820
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 733

سوال

(452) میت والے گھر تین دن ہاتھ اٹھاکر بار بار دعاکرنا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت والے گھر تین دن ہاتھ اٹھاکر بار بار دعاکرنا کیسا ہے؟ اور جو وصیت کی تھی، صحابیؓ نے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے دعا کروانا۔ آپؐ نے دعاکی تھی، اس سے استدلال کیساہے؟(محمد خالد نگری بالا، ایبٹ آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ثابت نہیں۔ ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ والی حدیث سے اس مخصوص اور رائج دعاء پر استدلال درست نہیں۔

[ ’’ ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو ابوعامر کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا، ان کا مقابلہ کیادرید بن الصمہ نے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کیا اور اس کے لوگوں کو شکست دی۔ ابوموسیٰ نے کہا مجھ کو بھی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ابوعامر کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر ابوعامر کے گھٹنے میں تیر لگا، وہ تیر بنی جثم کے ایک شخص نے مارا تھا، ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا: اے چچا1 یہ تیر تم کو کس نے مارا؟ ابوعامر نے مجھ کو بتلایا کہ اس شخص نے مجھ کو قتل کیا۔ اس شخص نے مجھے تیر مارا۔ ابو موسیٰ نے کہا میں نے اس شخص کا پیچھا کیا۔ اور اس سے جاکر ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگا، میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا: اے بے حیا1 کیا تو عرب نہیں ہے، توٹھہرتا نہیں۔ یہ سن کر وہ ٹھہر گیا، پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا۔ اس نے بھی وار کیا، میں نے بھی وار کیا۔ آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر کے پاس آیا اور کہا: اللہ نے تمہارے قاتل کو مارا۔ ابوعامر نے کہا: اب یہ تیر نکال لے ، میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا۔ ابوعامر نے کہا: اے میرے بھتیجے1 تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس جا اور میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہہ کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ ابوموسیٰ نے کہا: ابوعامر نے مجھے لوگوں کا سردار کردیا اور تھوڑی دیر وہ زندہ رہے، پھر انتقال کر گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک کوٹھڑی میں تھے، بان کے ایک پلنگ پر جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپؐ کی پیٹھ اور پسلیوں پر بن گیا تھا، میں نے یہ خبر بیان کی اور ابوعامر کا حال بھی بیان کیا اور میں نے کہا ابوعامر نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لیے دعا کیجئے۔ پھر رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ’’ یا اللہ1 بخش دے، عبیدا بوعامر کو۔‘‘ یہاں تک کہ میں نے آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔پھر فرمایا: ’’ یا اللہ1 ابوعامر کو قیامت کے دن بہت لوگوں کا سردار کرنا۔‘‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم 1 اور میرے لیے دعا فرمائیے بخشش کی۔ آپ نے فرمایا: بخش دے یا اللہ عبداللہ بن قیل (یہ نام ہے ابوموسیٰ کا) کے گناہ کو اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابوبردہ  رضی اللہ عنہ نے کہا ایک دعا ابوعامر کے لیے کی اور ایک ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ کے لیے۔‘‘ ]1                          ۳ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۱ھ

1 صحیح مسلم ؍ کتاب الفضائل ؍ باب من فضائل ابی موسیٰ وابی عامر الاشعریّین

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 375

محدث فتویٰ

تبصرے