مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں تراویح (۲۰) بیس رکعات پڑھی جاتی ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ یا دیگر کسی مقام کے قراء ، علماء اور خلفاء دین میں دلیل نہیں۔ قرآنِ مجید میں ہے: { اِتَّبِعُوْا مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ أَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ} [الأعراف:۳][ ’’ جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، اسی کی پیروی کرو اس کے علاوہ دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرو، تھوڑی ہی تم نصیحت مانتے ہو۔‘‘ ] نیز قرآنِ مجید میں ہے: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ط} [النسائ:۵۹][ ’’ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیردو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘ ]تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قیام اللیل اور قیام رمضان میں ابتدائی دو رکعتیں اور وتر کے بعد والی دو رکعتیں نکال کر گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہ فرماتی ہیں: (( مَا کَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلاَ فِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً ))1 [ ’’ رمضان اور غیر رمضان میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات کی نماز (بالعموم) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘] ۱۳ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۳ھ
1 بخاری ؍ التہجد ؍ باب قیام النبیؐ باللیل فی رمضان وغیرہ ، مسلم ؍ صلاۃ المسافرین ؍ باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبیؐ فی اللیل