میں نے ایک عالم سے کہا کہ مؤطا میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعات تراویح ثابت ہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ گیارہ والی روایت مضطرب ہے میں اناڑی تھا خاموش ہو گیا۔ میں اب آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ مجھے مضطرب کی تعریف عربی میں اور ترجمہ اُردو میں لکھ کر بھیجیں ۔ مطلوب حدیث کے اطلاقات واضح کریں اور اس گیارہ والی روایت کے سارے طرق لکھ کر وضاحت فرمائیں کہ یہ مضطرب نہیںہے۔ مزید کوئی مضطرب حدیث بھی لکھ بھیجیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو سکے۔ (اللہ دتہ ، کامرہ اٹک)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی الله عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کے حکم والی مؤطا امام مالک رحمہ الله کی روایت پر تفصیلی بات چیت اس بندۂ فقیر الی اللہ الغنی کی کتاب ’’تعداد تراویح ‘‘ میں دیکھ لیں ۔ ان شاء اللہ العزیز اس سلسلہ میں آپ کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے ۔بفضل اللہ و توفقیہ ۔ میرے پاس تعداد تراویح کا کوئی نسخہ نہیں کہیں سے حاصل کر لیں اور پڑھیں۔ ۱۳؍۱؍۱۴۲۳ھ
[تعدادِ تراویح استادِ محترم حافظ عبدالمنان صاحب نور پوری کی کتاب ہے جو مولانا غلام سرور صاحب گجراتی کے رسالہ ’’بیس رکعات تراویح کا شرعی ثبوت ‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ اس رسالہ میں مولانا غلام سرور صاحب نے مؤطا امام مالک کی گیارہ رکعات والی روایت کو مضطرب کہا ہے ۔ استادِ محترم نے اسی بات کی تحقیق کی جو کہ قارئین کے افادہ کے لیے درج کی جا رہی ہے:
حضرت المؤلف فرماتے ہیں:
’’اب رہی وہ روایت جو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں (مؤطا مام مالک ؍باب قیام رمضان) سو یاد رہے کہ اس اثر کے ناقل صرف اور صرف محمد بن یوسف ہیں اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں اور ان پانچوں کے بیان باہم مختلف ہیں جیسا کہ درج ذیل نقشہ سے صاف ظاہر ہے:
سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ
محمد بن یوسف
۱۔(امام مالک)
۲۔(یحییٰ بن سعید)
۳۔(عبدالعزیز بن محمد)
۴۔(ابن اسحاق)
۵۔(داؤد بن قیس وغیرہ)
حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔
بحوالہ
مؤطا امام مالک
رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت عمر نے ابی ابن کعب اور تمیم پر لوگوں کو جمع کیا ، پس وہ دونوں گیارہ رکعت پڑھتے تھے (اس میں حضرت عمر کے حکم کا ذکر نہیں)
بحوالہ
مصنف ابن ابی شیبہ
ہم حضرت عمر کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعت پڑھتے تھے( اس میں نہ حکم کا ذکر ہے نہ ابی بن کعب و تمیم داری کا)
بحوالہ
سنن سعید بن منصور
ہم حضرت عمر کے زمانہ میں بماہ رمضان تیرہ رکعت پڑھتے تھے ( اس میں بھی حکم اور ابی بن کعب و تمیم کا ذکر نہیں اور گیارہ کی بجائے تیرہ کا ذکر ہے)
بحوالہ
حضرت عمر نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتدا میں اکیس رکعت پر جمع کیا۔ (اس میں گیارہ کی بجائے اکیس کا ذکر ہے)
بحوالہ
مصنف عبدالرزاق
’’پس اُصولِ حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے اوراس حالت میں جب تک کہ کسی ایک بیان کو اُصول کے مطابق ترجیح نہ دی جائے یا تمام بیانات میں تطبیق نہ دی جائے اس وقت تک اس روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں۔‘‘ (ص:۲۲،۲۳)
اولاً:… صرف اور صرف محمد بن یوسف کے اس اثر کا ناقل ہونا کوئی وجہ ضعف نہیں ۔ دیکھئے بخاری شریف کی پہلی حدیث: (( اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ )) کے ناقل صرف اور صرف حضرت علقمہ ہیں حالانکہ حدیث انما الاعمال بالنیات باتفاق جمیع محدثین صحیح ہے ، پھر محمد بن یوسف سے متعلق صاحب رسالہ ہی لکھتے ہیں:
’’محمد بن یوسف ثقہ ثبت ، تقریب ، ص:۲۳۸۔‘‘ (ص:۹)
لہٰذا صاحب رسالہ کا قول ’’اس اثر کے ناقل صرف اور صرف محمد بن یوسف ہیں۔‘‘ حقیقت حال کا بیان ہے تضعیف اثر نہیں۔
… یحییٰ بن سعید قطان کا بیان ’’حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی الله عنہ پر لوگوں کو جمع کیا ، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔‘‘ امام مالک کے بیان ’’ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔‘‘ کے خلاف و منافی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید کا بیان بتا رہا ہے کہ حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کا عمل گیارہ رکعات تھا اور امام مالک کا بیان واضح کر رہا ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا تو ان میں موافقت ہے مخالفت اور منافات نہیں ، یہ درست کہ یحییٰ بن سعید کے بیان میں حضرت عمر کے حکم کا ذکر نہیں مگر ان کے بیان میں حضرت عمر کے حکم کی نفی بھی تو نہیں ہے۔
نیز عبدالعزیز بن محمد کا بیان’’ہم حضرت عمر کے زمانہ میں بماہِ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔‘‘ امام مالک اور یحییٰ ابن سعید کے مذکورہ بالا بیانات کے خلاف و منافی نہیں کیونکہ اس میں نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ رکعات کا حکم دینے کی نفی ہے اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھانے کی نفی ہے۔ باقی اس میں حکم اور ابی بن کعب و تمیم داری کا ذکر نہ ہونے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینے اور حضرت ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھانے کی نفی نہیں ہوتی ، ہاں اس میں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں بماہِ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ ادھر امام مالک کے بیان کے مطابق حضرت عمر کا حکم بھی گیارہ رکعات ہی تھا اور یحییٰ بن سعید کے بیان کے موافق حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کا عمل بھی گیارہ رکعات ہی تھا۔
پھر محمد بن اسحا ق کا بیان ’’ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہِ رمضان تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔‘‘ بھی امام مالک ، یحییٰ بن سعید اور عبدالعزیز بن محمد کے بیانات مذکور کے خلاف و منافی نہیں بشرطیکہ صاحب آثار السنن کی توجیہ ’’تیرہ رکعات میں بعد از عشاء والی دو رکعات شامل ہیں۔‘‘ کو تسلیم کر لیا جائے باقی اس میں حکم اور ابی بن کعب و تمیم داری کا ذکر نہ ہونا ان کے بیانات سے مخالفت و منافات نہیں ، کما تقدم۔ ہاں اگر صاحب آثار السنن کی توجیہ اور اس قسم کی کسی اور توجیہ کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر محمد بن اسحاق کا بیان عبدالعزیز بن محمد کے بیان کے منافی ہو گا کیونکہ اس میں ہے کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اس میں ہے کہ تیرہ رکعات پڑھتے تھے ، البتہ محمد بن اسحاق کا بیان اس صورت میں بھی امام مالک اور یحییٰ بن سعید کے بیانات کے خلاف و منافی نہیں کیونکہ امام مالک کے بیان میں گیارہ کے حکم اور یحییٰ بن سعید کے بیان میں ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور محمد بن اسحق کے بیان میں ان دونوں چیزوں (حضرت عمر کے گیارہ کا حکم دینے اور ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ پڑھنے) کی نفی نہیں کی گئی کیونکہ عدم ذکر کو نفی نہیں کہا جا سکتا۔
رہا داؤد بن قیس کا بیان ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتداء میں اکیس رکعات پر جمع کیا ۔‘‘ تو وہ واقعی امام مالک اوریحییٰ بن سعید کے بیانات کے خلاف و منافی ہے بشرطیکہ وہ مقبول ہو البتہ وہ عبدالعزیز بن محمد اور محمد بن اسحاق کے بیانات کے خلاف و منافی نہیں تو پتہ چلا کہ صاحب رسالہ کا فرمان ’’اور ان پانچوں کے بیان باہم مختلف ہیں ‘‘ محل نظر ہے ۔ فتدبر
(( قال العلامۃ الزرقانی فی شرح المؤطا : وقولہ : ان مالکا انفردبہ لیس کما قال فقد رواہ سعید بن منصور من وجہ آخر عن محمد بن یوسف فقال : احدی عشرۃ کما قال مالک ۱ھ (ج:۱، ص:۲۳۹) وقال الحافظ فی الفتح : لم یقع فی ھذہ الروایۃ عدد الرکعات التی کان یصلی بھا ابی بن کعب و قد اختلف فی ذالک ففی المؤطا عن محمد ابن یوسف عن السائب بن یزید انھا احدی عشرۃ و رواہ سعید بن منصور من وجہ آخر الخ (ج:۴،ص:۲۵۳) وقال صاحب آثار السنن : ما قالہ ابن عبدالبر من وھم مالک فغلط جدالان مالکا قد تابعہ عبدالعزیز بن محمد عند سعید بن منصور فی سننہ و یحیی بن سعید القطان عن ابی بکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ کلاھما عن محمد بن یوسف و قالا احدی عشرۃ کما رواہ مالک عن محمد بن یوسف ، واخرج محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل من طریق محمد بن اسحاق حدثنی محمد بن یوسف عن جدہ السائب بن یزید قال :کنا نصلی فی زمن عمر فی رمضان ثلاث عشرۃ رکعۃ۔ انتھی قلت : ھٰذا قریب مما رواہ مالک عن محمدبن یوسف ای مع الرکعتین بعد العشاء ۱ھ (التعلیق الحسن ، ص:۲۰۳)
’’ترجمہ:… ثانیا … علامہ زرقانی نے مؤطا کی شرح میں فرمایا: اس کا قول کہ مالک اس روایت میں اکیلے ہیں ، صحیح نہیں کیونکہ سعید بن منصور نے ایک دوسری سند کے ساتھ محمد بن یوسف سے بیان کیا اور فرمایا: ’’ گیارہ رکعتیں‘‘ جس طرح مالک نے فرمایا: ۱ھ(ج:۱، ص:۲۳۹)اور حافظ نے فتح میں فرمایا اس روایت میں ان رکعات کی تعداد مذکور نہیں جو ابی بن کعب پڑھاتے تھے ، اور اس کے متعلق اختلاف ہے ۔ چنانچہ مؤطا میں محمد بن یوسف نے سائب بن یزید سے بیان کیا ہے کہ وہ گیارہ رکعتیں تھیں اور سعید بن منصور نے اسے ایک اور سند کے ساتھ بیان کیا ہے …الخ۔ (ج:۴، ص:۲۵۳)اور صاحب آثار السنن نے فرمایا: ابن عبدالبر نے جو مالک کا وہم بتایا ہے بہت ہی غلط ہے کیونکہ مالک کی متابعت سنن سعید بن منصور میں عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے اور مصنف ابن ابی شیبہ میں یحییٰ بن سعید بن قطان نے کی ہے ، دونوں نے محمد بن یوسف سے بیان کیا ہے اور گیارہ رکعتیں ذکر کی ہیں جس طرح مالک نے محمد بن یوسف سے بیان کیا اور محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں محمد بن اسحاق کے طریق سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں مجھے محمد بن یوسف نے اپنے دادا سائب بن یزید سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے انتہی میں کہتا ہوں یہ اس روایت کے قریب ہے جو مالک نے محمد بن یوسف سے بیان کی یعنی عشاء کے بعد کی دو رکعتیں ملا کر ۔ (التعلیق الحسن، ص:۲۰۳)‘‘
تو منقولہ عبارات دلالت کر رہی ہیں کہ یحییٰ بن سعید اور عبدالعزیز بن محمد نے امام مالک کی متابعت کی ہے اور متابعت موافقت کا نام ہے نہ کہ مخالفت کا۔ چنانچہ شرح نخبہ میں لکھا ہے:
(( وما تقدم ذکرہ من الفرد النسبی ان وجد بعد ظن کونہ فردا قد وافقہ غیرہ فھو المتابع )) (ص:۴۴)
’’اور جس فرد نسبی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اسے فرد سمجھنے کے بعد اگر کوئی دوسرا راوی مل جائے جس نے اس کی موافقت کی ہو تو وہ متابع ہے۔‘‘
نیز ایک توجیہ کے مطابق محمد بن اسحاق بھی امام مالک رحمہ الله کی متابعت کرتا ہے جیسا کہ صاحب آثار السنن کے کلام سے مترشح ہو رہا ہے:
(( وثالثاً: قال الحافظ ابن الصلاح : المضطرب من الحدیث ھو الذی تختلف الروایۃ فیہ فیر ویہ بعضھم علی وجہ و بعضھم علی وجہ آخر مخالف لہ ، وانما نسمیہ مضطر بااذا تساوت الروایتان اما اذا ترجحت احد ھما بحیث لا تقاومھا الاخری بان یکون راویھا احفظ اکثر صحبۃ للمروی عنہ وغیر ذالک من وجوہ الترجیحات المعتمدۃ فالحکم للراجحۃ ولا یطلق علیہ حینئذ وصف المضطرب ولا لہ حکمہ ۱ھ (علوم الحدیث ،ص:۸۴) وفی التدریب شرح التقریب: (النوع التاسع عشر المضطرب ھو الذی یروی علی اوجہ مختلفۃ) من راو واحد مرتین او اکثراو من راویین او رواۃ (متقاربۃ) و عبارۃ ابن الصلاح متساویۃ و عبارۃ ابن جماعۃ متقاومۃ بالواو والمیم ای ولا مرجح (فان رجحت احدی الروایتین) اوالروایات (بحفظ راویھا) مثلاً( اوکثرۃ صحبتہ المروی عنہ او غیر ذالک) من وجوہ الترجیحات (فالحکم للراجحۃ ولا یکون ) الحدیث (مضطربا) لا الروایۃ الراجحۃ کما ھو ظاھر ولا المرجوحۃ بل ھی شاذۃ او منکرۃ کما تقدم ۱ھ (ص:۱۶۹) وفی شرح النخبۃ : و ان کانت المخالفۃ بابدالہ ای الراوی ولا مرجح لا حدی الروایتین علی الاخری فھذا ھو المضطرب وھو یقع فی الاسناد غالبا وقد یقع فی المتن لکن قل ان یحکم المحدث علی الحدیث بالا ضطراب بالنسبۃ الی اختلاف فی المتن دون الاسناد ۱ھ وفی حاشیتہ : قولہ : ولا مرجح … الخ فان ترجحت بان یکون راویھا احفظ او اکثر صحبۃ للمروی عنہ سیما اذا کان ولدہ او قریبہ او مولاہ او بلدیہ او غیر ذالک من وجوہ الترجیح المعتمدۃ ککونہ حین التحمل بالغا اوسماعہ من لفظ شیخہ فالحکم للراجح ولا یکون الحدیث حینئذ مضطر با وکذا امکن الجمع بحیث یمکن اَن یکون المتکلم معبر ا باللفظین فاکثر عن معنی واحد او یحمل کل منھما علی حالۃ لا تنافی الاخری شرح الشرح۔ ۱ھ (ص:۶۹)وفی شرح النخبۃ ایضا: فان خولف بارجح منہ لمزید ضبط او کثرۃ عدد او غیر ذالک من وجوہ الترجیحات فالراجح یقال لہ المحفوظ و مقابلہ وھو المرجوح یقال لہ الشاذ وھذا ھو المعتمد فی تعریف الشاذ بحسب الاصطلاح و ان وقعت المخالفۃ مع الضعف فالراجح یقال لہ المعروف و مقابلہ یقال لہ المنکر ۱ھ مقتصراً ( ص:۴۲،۴۳) وفی شرح النخبۃ ایضاً۔ وان کانت المعارضۃ بمثلہ فلا یخلو اما ان یمکن الجمع بین مدلولیھما بغیر تعسف او لا فان امکن الجمع فھو النوع المسمی بمختلف الحدیث ۱ھ (ص:۴۷) ))
’’ترجمہ:… ثالثاً… حافظ ابن صلاح نے فرمایا: مضطرب حدیث وہ ہے جس میں روایت مختلف ہو جائے چنانچہ کوئی اسے ایک طرح روایت کرے اور کوئی دوسرے طریقہ پر جو پہلے کے مخالف ہو ۔ ہم اسے مضطرب کا نام صرف اس وقت دیں گے جب دونوں روایتیں (قوت میں) برابر ہوں لیکن جب ان دونوں میں سے ایک کو ایسی ترجیح حاصل ہو جائے کہ دوسری اس کے بالمقابل نہ رکھی جا سکتی ہو اس وجہ سے کہ اس کا راوی حافظے میں زیادہ ہو یا جس سے روایت کر رہا ہے اس کی صحبت اسے زیادہ میسر رہی ہو یا اس کے علاوہ ترجیح کی صورتوں میں سے کوئی صورت موجود ہو تو راجح روایت کے حق میں فیصلہ ہو گا اور مضطرب نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اس کا حکم مضطرب والا ہو گا(علوم الحدیث ، ص:۸۴) اور تقریب کی شرح تدریب میں ہے : انیسویں قسم مضطرب ہے جو ایک ہی راوی سے دو یا زیادہ مرتبہ یا دو راویوں سے یا زیادہ راویوں سے ایسی مختلف وجوہ کے ساتھ روایت کی جائے جو ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں ، ابن صلاح کی عبارت یہ ہے کہ وہ وجوہ ایک دوسری کے برابر ہوں اور ابن جماعہ کی عبارت یہ ہے کہ وہ ایک دوسری کے برابر کی مد مقابل ہوں۔ اور ان وجوہ کے درمیان ترجیح دینے والی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ اگر ان دو روایات یا زیادہ روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح حاصل ہو جائے مثلاً اس کے راوی کے حافظہ کی وجہ سے یا مروی عنہ کے ساتھ اس کی صحبت کی وجہ سے یا ترجیح کے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے تو فیصلہ راجح روایت کے حق میں ہو گا اور وہ حدیث مضطرب نہیں ہوگی ۔ نہ راجح روایت مضطرب ہو گی جیسا کہ ظاہر ہے اور نہ ہی مرجوح روایت کیونکہ وہ اس صورت میں شاذ یا منکر ہو گی جیسا کہ گزر چکا ۔ انتہٰی (ص:۱۶۹) اور شرح نخبہ میں ہے:’’ اور اگر مخالفت راوی کے بدل دینے کے ساتھ ہو اور دونوں روایتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے والی کوئی چیزبھی موجود نہ ہو تو اس کا نام مضطرب ہے اور یہ اکثر سند میں ہوتی ہے اور کبھی کبھی متن میں بھی واقع ہوتی ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ محدث حدیث پر اضطراب کا حکم سند کے بغیر صرف متن کے اختلاف کی وجہ سے لگائے ۔ انتہیٰ اور اس کے حاشیہ میں ہے : قولہ : ’’ولا مرجح‘‘ تو اگر ایک روایت راجح ہو جائے اس وجہ سے کہ اس کا راوی زیادہ حافظ ہو یا مروی عنہ کے ساتھ زیادہ رہا ہو بالخصوص جب وہ اس کا لڑکا یا رشتہ دار یا غلام یا اس کے شہر میںرہنے والا ہو۔‘‘
یا اس کے علاوہ ترجیح کی صورتوںمیں سے کوئی قابل اعتماد صورت ہو مثلاً اس کا راوی حدیث حاصل کرنے کے وقت بالغ ہو یا اس نے خود شیخ کے لفظ سنے ہوںتواس قسم کی ترجیح حاصل ہوجانے کی صورت میں راجح روایت کے حق میں فیصلہ ہو گا اور اس وقت حدیث مضطرب نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر تطبیق ممکن ہو اس طرح کہ متکلم نے ایک ہی معنی کو دو یا زیادہ لفظوں کے ساتھ تعبیر کر دیا ہو یا دونوں میں سے ہر ایک لفظ کو کسی ایک حالت پر محمول کر دیا جائے جو دوسری حالت کے منافی نہ ہو ۔ شرح نخبہ ہی میں ہے :’’پس اگر ایک روایت کی مخالفت ایسی روایت کے ساتھ کی جائے جو ضبط کی زیادتی یا تعداد کی کثرت کی وجہ سے یا ترجیح کی وجوہ میں سے کسی وجہ سے راجح ہے تو راجح کو محفوظ کہا جائے گا اور اس کی مقابل کو جو مرجوح ہے ۔ شاذ کہا جائے گا۔ اصطلاح کے اعتبار سے شاذ کی یہی تعریف قابل اعتماد ہے اور اگر مخالفت ضعف کے ساتھ واقع ہو تو راجح کو معروف اور اس کی مقابل کو منکر کہا جائے گا انتہی ۔ بقدر ضرورت (ص:۴۲،۴۳)اور شرح نخبہ ہی میں ہے : اگر مخالفت ہم مثل روایت کے ساتھ ہو تو یا تو دونوں کے مفہوم میں بلا تکلف تطبیق ممکن ہو گی یا نہیں ، ممکن ہو تو اس قسم کا نام ’’مختلف الحدیث ‘‘ ہے ۔ انتہی (ص:۴۷)
(( وحاصل ھذہ العبارات أن الحدیث اذا روی علی أوجہ مختلفۃ فان أمکن الجمع من غیر تعسف فھو مختلف الحدیث او ترجح أحدھا بطریق من طرق الترجیح المعتبرۃ فالراجح محفوظ او معروف والمرجوح شاذ ا و منکر و ان لم یمکن الجمع ولا الترجیح فالحدیث مضطرب فالاختلاف الذی یمکن رفعہ بالجمع او الترجیح لیس باضطراب فی عرف اصول الحدیث ))
’’ترجمہ:… ان عبارات سے حاصل یہ ہوا کہ ایک حدیث جب مختلف وجوہ پر روایت کی جائے تو اگر تکلف کے بغیر تطبیق ممکن ہو تو وہ مختلف الحدیث ہے یا ترجیح کی معتبر وجوہ میں سے کسی وجہ کے ساتھ ایک روایت کو ترجیح حاصل ہو جائے تو راجح کا نام محفوظ یا معروف اور مرجوح کا نام شاذ ہے یا منکر ۔ اور اگر نہ ہی تطبیق ممکن ہو اور نہ ترجیح تو وہ حدیث مضطرب ہے تو وہ اختلاف جسے تطبیق یا ترجیح کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے اصول حدیث کی رو سے مضطرب نہیں ہے۔
پس کتب اصول حدیث کی مندرجہ بالا عبارات شہادت دے رہی ہیں کہ اگر مختلف بیانات میں ترجیح یا تطبیق کی کوئی معقول و مقبول صورت نکل آئے تو روایت کو اصطلاحاً مضطرب نہیں کہا جائے گا اور اس مقام پر ترجیح اور تطبیق کی صورت موجود ہے لہٰذا مصنف صاحب کا فرمان:’’ پس اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے ‘‘ درست نہیں ہاں جامع ترمذی کے بعض مقامات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ترجیح اور تطبیق کی موجودگی میں بھی روایت کو مضطرب کہا جا سکتا ہے تو پھر حضرت المؤلف کا بیان ’’یہ روایت مضطرب ہے …الخ‘‘ درست ہو گا۔
… اگر امام مالک رحمہ الله وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت کو مضطرب قرار دیا جائے تو پھر داود بن قیس کی اکیس رکعات والی روایت کو بھی مضطرب قرار دینا پڑے گا کیونکہ محمد بن یوسف کے باہم مختلف بیانات والے پانچ شاگردوں میں داؤد بن قیس بھی شامل ہیں ۔چنانچہ حضرت المؤلف کے پیش کردہ نقشہ سے صاف صاف ظاہر ہے تو جیسے صاحب رسالہ کے خیال میں بوجہ اضطراب امام مالک وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں ویسے ہی بوجہ اضطراب داؤد بن قیس کی اکیس رکعات والی روایت کو بھی کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں حالانکہ حضرت المؤلف نے اپنے مدعا کے ثبوت میں پیش فرمودہ دلائل میں سے سب سے پہلے داؤد بن قیس والی روایت کو پیش فرمایا ہے اگر کہا جائے کہ صاحب رسالہ نے تو داؤد بن قیس کی روایت کو بعد از ترجیح یا تطبیق دلیل بنایا ہے تو پھر امام مالک وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت سے استدلال کرنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھی آخر گیارہ رکعات والی روایت کو ترجیح یا تطبیق کے بعد ہی دلیل بنایا ہے رہی یہ بات کہ کونسی ترجیح یا تطبیق درست ہے تو اس پر کلام ہو گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
… جس طریقہ سے حضرت المؤلف نے گیارہ رکعت والی روایت کو مضطرب بنایا اگر اس طریقہ کو اختیار کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی بیس رکعات والی روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ حضرت سائب بن یزید کے تین شاگردوں محمد بن یوسف ، یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کے بیانات باہم مختلف ہیں جیسا کہ درج ذیل نقشہ سے صاف ظاہر ہے:
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ
۱۔(محمد بن یوسف)
۲۔(یزید بن خصیفہ )
۳۔(حارث بن عبدالرحمن)
ان کے پانچوں شاگردوں کے مذکورہ بیانات کو ذہن میں رکھیں جن کو حضرت المؤلف باہم مختلف قرار دے چکے ہیں نیز ایک نقشہ دے کر انہوں نے ان کے اختلاف کی صورت کو واضح کیا ہے۔
۱۔ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے (مالک اور محمد بن جعفر)
۲۔لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں بیس رکعات پڑھتے تھے۔(ابن ابی ذئب)
(پہلے بیان میں اپنے عمل کا ذکر ہے لوگوں کے عمل کا ذکر نہیں ، دوسرے بیان میں اس کا عکس نیز پہلے بیان میں وتر کا ذکر ہے دوسرے میں وتر کا ذکر نہیں ، پھر ان دونوں بیانوں میں حکم کا ذکر نہیں اور نہ ہی ابی بن کعب و تمیم کا نیز گیارہ ، تیرہ اور اکیس کی بجائے بیس کا ذکر ہے)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قیام تئیس رکعات تھا۔ (اس میں بھی نہ حکم کا ذکر ہے نہ ہی ابی بن کعب و تمیم کا پھر گیارہ ، تیرہ ، بیس اور اکیس کی بجائے تئیس کا ذکر ہے)
پس اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے اور اس حالت میں جب تک کہ کسی ایک بیان کو اصول کے مطابق ترجیح نہ دی جائے یا تما م بیانات میں تطبیق نہ دی جائے اس وقت تک اس روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں جب کہ عالم یہ ہے کہ حضرت المؤلف بطرق ثلاثہ اس روایت کو اپنے مدعا کے ثبوت میں پیش فرما چکے ہیں رہی ترجیح و تطبیق والی بات تو اس پر کلام آ رہا ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ
اب اگر ترجیح کی راہ اختیار کی جائے تو محمد بن یوسف کی گیارہ رکعات والی روایت کو ترجیح ہو گی جیسا کہ تینوں بزرگوں کی روایات کی اسناد پر کلام سے ظاہر ہے مگر اس میں یہ نقص ہے کہ ترجیح کی راہ تب اختیار کی جاتی ہے جب رواۃ کے بیانات میں مخالفت و منافات ہو اور وہ اس مقام پر ہے ہی نہیں جیسا کہ تدبر و تامل کرنے سے ظاہر ہے۔ ہاں صاحب رسالہ کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر حضرت سائب بن یزید کے تینوں شاگردوں کے بیانات باہم مختلف ہیں۔
نیز یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کے بیانات میں نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے عمل کا بلکہ ان میں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ لوگوں کے بیس رکعات پڑھنے کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو علم تھا یا نہیں تو ان بزرگوں کے بیانات میں سے بیس رکعات کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں۔
حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں:
’’حافظ ابن عبدالبر مالکی المتوفی ۴۶۳ھ نے دونوں صورتیں اختیار کی ہیں ، گیارہ اور اکیس میں اکیس کو ترجیح (قوت) دی اورگیارہ کو مرجوح (کمزور) قرار دیا اور اس کے ساتھ تطبیق کی یہ صورت بھی لکھی ہے کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہو ، پھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں اور زرقانی مالکی نے اسی تطبیق کو پسند کیا اور کہا کہ امام بیہقی نے بھی مختلف روایتوں کو اسی طرح جمع کیا ہے (زرقانی شرح مؤطا جلد :۱،ص:۲۱۵) اور دیگر ائمہ حدیث نے بھی اسی تطبیق کو پسند کیا ، خصوصاً حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں تطبیق کی صورت اختیار کی۔‘‘ ۱ھ(ص:۲۴)
(( أولاً:… قال الزرقانی فی شرح المؤطا (ان یقوما للناس بإحدی عشرۃ رکعۃ) قال الباجی : لعل عمر اخذ ذالک من صلاۃ النبی صلی الله علیہ وسلم ففی حدیث عائشۃ انھا سئلت عن صلاتہ فی رمضان فقالت: ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ۔ وقال ابن عبدالبر: روی غیر مالک فی ھٰذا الحدیث احدی وعشرون و ھو الصحیح ولا اعلم احدا قال فیہ احدی عشرۃ الا ما لکا و یحتمل ان یکون ذالک اولا ثم خفف عنھم طول القیام ونقلھم الی احدی و عشرین الا ان الاغلب عندی ان قولہ : احدی عشرۃ وھم۔ انتہی ولا وھم مع ان الجمع بالاحتمال الذی ذکرہ قریب و بہ جمع البیہقی ایضا وقولہ : ان مالکا انفرد بہ لیس کما قال فقد رواہ سعید بن منصور من وجہ آخر عن محمد بن یوسف فقال احدی عشرۃ کما قال مالک۔ ۱ھ (ج:۱، ص:۲۳۹)
وقال صاحب آثار السنن: ما قالہ ابن عبدالبر من وھم مالک فغلط جدا لِان مالکا قد تابعہ عبدالعزیز بن محمد الی آخر ما نقلنا قبل من التعلیق الحسن ، وقال علی القاری فی المرقاۃ : (باحدی عشرۃ رکعۃ) ای فی اول الامر کما قال ابن عبدالبر ھٰذِہِ الروایۃ وھم والذی صح انھم کانو یقومون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ واعترض بان سند تلک صحیح ایضا ویجاب بانہ لعلھم فی بعض اللیالی قصدوا التشبیہہ بہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ صحح عنہ انہ صلی بھم ثمانی رکعات والوتر و ان کان الذی استقر علیہ امرھم العشرین و روایۃ ثلاث و عشرین حسب راویھا الثلاثۃ الوتر فانہ جاء انھم کانو یوترون بثلاث وھذا یدل علی ان الوتر ثلاث علی ما تقرر علیہ آخر الامر وانہ غیر داخل فی صلاۃ اللیل ۔۱ھ (ج:۳، ص:۱۹۲) وقال صاحب تحفۃ الاحوذی بعد نقل رد الزرقانی والنیموی لقول ابن عبدالبر: ان الاغلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم۔ ما نصہ: فلما ثبت ان الا مام مالکا لم ینفرد بقولہ: احدی عشرۃ۔ بل تابعہ علیہ عبدالعزیز بن محمد وھو ثقہ ویحیی بن سعید القطان امام الجرح والتعدیل قال الحافظ فی التقریب : ثقہ متقن حافظ امام ظھر لک حق الظہور ان قول ابن عبدالبر: ان الاغلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم لیس بصحیح ، بل لو تدبرت ظھر لک ان الامر علی خلاف ما قال ابن عبدالبر اعنی ان الاغلب ان قول غیر مالک فی ھذا الاثر احدی و عشرون کما فی روایۃ عبدالرزاق وھم فانہ قد انفردھو باخراج ھذا الاثر بھذا اللفظ ولم یخرجہ بہ احد غیرہ فیما اعلم و عبدالرزاق و ان کان ثقۃ حافظ لکنہ قد عمی فی اٰخر عمرہ فتغیر کما صرح بہ الحافظ فی التقریب و اما الامام مالک فقال الحافظ فی التقریب: امام دار الہجرۃ راس المتقین و کبیر المتثبتین حتی قال البخاری: اصح الاسانید کلھا مالک عن نافع عن ابن عمر۔ انتھی و مع ھذا لم ینفردھو باخراج ھذا الاثر بلفظ احدی عشرۃ بل اخرجہ ایضا بھذا اللفظ۔سعید بن منصور و ابن ابی شیبۃ کما عرفت فالحاصل ان لفظ احدی عشرۃ فی اثر عمر بن الخطاب المذکور صحیح ثابت محفوظ و لفظ احدی و عشرون فی ھذا الاثر غیر محفوظ و الاغلب انہ وھم۔ ۱ھ(ج:۲،ص:۷۴) وقال الحافظ فی تہذیب التہذیب : وقال ابن المدینی سمعت ابن مھدی یقول : کان وھیب لا یعدل بما لک احدا۔ وقال ایضا: وکان ابن مھدی لا یقدم علی مالک احدا۔ وقال ایضا وقال النسائی : ما عندی بعد التابعین انبل من مالک ولا اجل منہ ولا اوثق ولا آمن علی الحدیث منہ… الخ(جلد:۱۰، ص:۷،۸،۹)
’’ترجمہ:… اولاً … زرقانی نے مؤطا کی شرح میں فرمایا: ’’ ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ‘‘ باجی رحمہ الله نے فرمایا: کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہنے یہ تعداد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی نماز سے لی ہو۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ ان سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رمضان میں نمازپوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اور ابن عبدالبر نے فرمایاکہ مالک کے علاوہ دوسرے راویوں نے اس حدیث میں اکیس رکعتیں روایت کیں اور یہی صحیح ہے اور مجھے مالک کے علاوہ کوئی شخص معلوم نہیں جس نے گیارہ رکعات روایت کی ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے گیارہ ہی ہوں ، پھر لوگوں سے لمبے قیام میں تخفیف کر دی گئی اور انہیں اکیس رکعتوں کی طرف منتقل کر دیا ہو۔ مگر میرے نزدیک زیادہ غالب یہی ہے کہ گیارہ رکعت وہم ہے انتہی۔ اور جب اس احتمال کے ساتھ تطبیق بالکل آسان ہے جو ابن عبدالبر نے بیان کیا تو یہ لفظ وہم نہیں ہے اور بیہقی نے بھی یہی تطبیق دی ہے اور اس نے جو یہ کہا کہ مالک اس میں اکیلے ہیں تو یہ بات اس طرح نہیں جس طرح انہوں نے فرمائی کیونکہ سعید بن منصور نے ایک دوسری سند کے ساتھ محمد بن یوسف سے روایت کی ہے اور فرمایا: ’’گیارہ رکعتیں ‘‘ جس طرح مالک نے فرمایا۔ ۱ھ(ج:۱، ص:۲۳۹) اور صاحب آثار السنن نے فرمایا کہ ابن عبدالبر نے جو مالک کا وہم قرار دیا ہے بالکل غلط ہے کیونکہ مالک کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے۔ آخر عبارت تک جو اس سے پہلے ہم نے التعلیق الحسن سے نقل کی ہے اور علی قاری نے مرقاۃ میں فرمایا: (باحدی عشرۃ رکعۃ)یعنی شروع شروع میں (گیارہ رکعتیں تھیں )جیسا کہ ابن عبدالبر نے کہا کہ یہ روایت وہم ہے اور ثابت یہی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعتیں قیام کرتے تھے اور یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سند تو اس (گیارہ ) کی بھی صحیح ہے جواب یہ دیا جائے گا کہ شاید انہوں نے بعض راتوں میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تشبیہ کا ارادہ کیا ہو کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ اگرچہ ان کا معاملہ بیس پر آٹھہرا۔ اور تئیس رکعت والی روایت میں راوی نے تین وتر بھی شمار کر لیے کیونکہ آیا ہے کہ لوگ تین وتر پڑھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخر میں معاملہ اسی بات پر آٹھہرا کہ وتر تین ہیں اور وہ صلاۃ اللیل میں داخل نہیں۔ انتہی۔ ج:۳، ص:۱۹۲ اور صاحب تحفۃ الاحوذی نے ابن عبدالبر کے قول ( میرے نزدیک زیادہ غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے) پر زرقانی اور نیموی کا رد نقل کرنے کے بعد فرمایا: صاحب تحفہ کی بلفظہ عبارت کا ترجمہ ۔تو جب ثابت ہو گیا کہ مالک اپنے قول گیارہ رکعت میں اکیلے نہیں بلکہ اس لفظ پر ان کی متابعت عبدالعزیز نے کی ہے اور وہ ثقہ ہیں اور جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن سعید قطان نے بھی متابعت کی ہے جن کے متعلق حافظ نے تقریب میں فرمایا: ثقہ متقن حافظ ، امام ‘‘ تو تمہارے لیے روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ابن عبدالبر کا قول ’’ کہ میرے نزدیک زیادہ غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے۔‘‘ صحیح نہیں بلکہ اگر تم تدبر کرو گے تو تمہیں ظاہر ہو جائے گا کہ اصل معاملہ اس بات کے برعکس ہے جو ابن عبدالبر نے کہی ہے ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس اثر میں مالک کے غیر کا قول اکیس رکعت جیسا کہ عبدالرزاق کی روایت میں ہے وہم ہے کیونکہ اس اثر کو ان لفظوں کے ساتھ روایت کرنے میں صرف عبدالرزاق اکیلا ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کے علاوہ کسی نے اسے ان لفظوں میں روایت نہیں کیا۔ اور عبدالرزاق اگرچہ ثقہ اور حافظ ہیں ، مگر آخر عمر میں نابینا ہو گئے تو متغیر ہو گئے ۔ جیسا کہ حافظ نے تقریب میں اس کی تصریح کی ہے ، رہے امام مالک تو حافظ نے تقریب میں فرمایا: دار الہجرت کے امام متقنین کے رئیس اورمتثبتین کے سردار ہیں یہاں تک کہ بخاری نے فرمایاکہ تمام سندوں سے زیادہ صحیح سند ’’مالک عن نافع عن ابن عمر ‘‘ہے۔انتہی۔ علاوہ ازیں مالک اس اثر کو گیارہ کے لفظ کے ساتھ روایت کرنے میں اکیلے نہیں بلکہ سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے اس اثر کو ان لفظوں میں روایت کیا ہے :’’جیسا کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے تو حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اثر مذکور میں گیارہ کا لفظ صحیح ثابت محفوظ ہے اور اکیس کا لفظ غیر محفوظ ہے اور زیادہ غالب یہ ہے وہ وہم ہے۔ ۱ھ (ج:۲، ص:۷۴) اور حافظ نے تہذیب التہذیب میں فرمایا: ’’ اور ابن مدینی نے کہا میں نے ابن مہدی سے سنا ہے کہ وھیب مالک ؒ کے برابر کسی کو قرار نہیں دیتے تھے اور یہ بھی کہا کہ ابن مہدی مالک پر کسی کو مقدم نہیں کرتے تھے ۔ اور یہ بھی فرمایا: ’’ اور نسائی نے کہا میرے نزدیک تابعین کے بعد مالک سے زیادہ کو ئی شخص نہ با شرف ہے نہ زیادہ جلیل القدر نہ زیادہ ثقہ اور نہ ان سے کوئی شخص حدیث میں زیادہ امین ہے…… الخ (جلد:۱۰، ص:۷،۸،۹)‘‘
حضرت المؤلف نے حافظ ابن عبدالبر کے اکیس رکعات والی روایت کو راجح اور امام مالک وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت کو مرجوح قرار دینے کو تو شرح زرقانی سے نقل فرمایا مگر شارح زرقانی کی تنقید و تردید برقول ابن عبدالبر در ترجیح کو رسالہ میں ذکر کرنا تو درکنار انہوں نے اس کی طرف ادنیٰ اشارہ کرنے کو گوارا تک نہیں فرمایا حالانکہ جس مقام سے وہ حافظ ابن عبدالبر کی ترجیح کو نقل فرما رہے ہیں اسی مقام پر علامہ زرقانی کی تنقید و تردید بھی موجود ہے جیسا کہ شرح زرقانی کی مندرجہ بالا عبارت سے صاف ظاہر ہے۔
محمدبن یوسف کا شاگرد داؤد بن قیس اکیس رکعات کہنے میں متفرد ہے اور اپنے سے اوثق رواۃکی مخالفت بھی کر رہا ہے تواُصول حدیث کی رو سے ا س کی روایت مرجوح ہو گی اور ’’اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے۔‘‘ اگر کہا جائے کہ حافظ عبدالرزاق کی کتاب مصنف سے پتہ چلتا ہے کہ داؤد بن قیس کا متابع بھی موجود ہے کیونکہ وہاں لفظ ہیں: (( داؤد بن قیس وغیرہ )) تو جوابا عرض ہے کہ یہ غیرہ مبہم اور مجہول ہے ۔ لا یدری من ھو
اس لیے اس متابعت کا کوئی اعتبار نہیں۔ دیکھئے حضرت المؤلف نے بھی اس غیرہ کو درخو ر اعتناء نہیں سمجھا ورنہ وہ فرماتے:’’ محمد بن یوسف کے کم از کم چھ شاگرد ہیں ۔‘‘ الخ تو ان کے بیان ’’ اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں اور ان پانچوں کے … الخ۔‘‘ سے واضح ہے کہ اس غیرہ کا ان کو بھی کوئی اتہ پتہ نہیں ، پھر داؤد بن قیس کے بیان کہ محمد بن یوسف کے چار شاگردوں کے بیانات کے مخالف ہونے کا حضرت المؤلف کو بھی اعتراف اور اقرار ہے جیسا کہ ان کے دئیے ہوئے نقشہ سے صاف صاف ظاہر ہے۔
… پہلے تو محمد بن یوسف کے پانچ شاگردوں کے بیانات میں ترجیح پر بات ہو رہی تھی جو اس نتیجہ پر پہنچی کہ امام مالک ، یحییٰ بن سعید اور عبدالعزیز بن محمد کا بیان ’’ گیارہ رکعات ‘‘ راجح اور داؤد بن قیس کا بیان ’’اکیس رکعات ‘‘ مرجوح ہے رہی حضرت سائب بن یزید کے تین شاگردوں محمد بن یوسف ، یزید بن خصیفہ اور حارثہ بن عبدالرحمن کے بیانات میں ترجیح تو اس مقام پر محمد بن یوسف کا بیان راجح ہے کیونکہ وہ یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن سے اوثق ہے اس لیے کہ حضرت المؤلف نے بذات خود محمد بن یوسف کی توثیق میں ’’ثقۃ ثبت‘‘ دو لفظ نقل فرمائے ہیں اور یزید بن خصیفہ کی توثیق میں ’’ثقۃ ‘‘ صرف ایک ہی لفظ نقل فرمایا ہے اور شرح نخبہ میں ہے:
(( ومن المھم أیضا معرفۃ مراتب التعدیل وارفعھا الوصف ایضا بما دل علی المبالغۃ فیہ واصرح ذالک التعبیر بأفعل کاوثق الناس او اثبت الناس والیہ المنتھی فی التثبت ثم ما تاکد بصفۃ من الصفات الدالۃ علی التعدیل او صفتین کثقۃ ثقۃ او ثبت ثبت او ثقۃ حافظ او عدل ضابط او نحو ذالک … الخ ))
’’اور اہم باتوں میں سے تعدیل کے مراتب کی پہچان بھی ہے ، ان میں سب سے پہلے بلند مرتبہ یہ ہے کہ ایسے لفظ سے تعریف کی جائے جو اس وصف میں مبالغہ پر دلالت کرے اور اس میں سب سے زیادہ صریح وہ ہے جو افعل(تفضیل) کے لفظوں کے ساتھ بیان کی جائے مثلاً أوثق الناس ، اثبت الناس ، إلیہ المنتہی فی التثبت ، پھر جس کی تاکید کسی صفت سے کی جائے جو تعدیل پر دلالت کرنے والی ہو یا دو صفتوں کے ساتھ مؤکد ہو مثلاً ثقہ ثقۃ یا ثبت ثبت یا ثقۃ حافظ یا عدل ضابط یا اس جیسے الفاظ… الخ‘‘
اور تدریب شرح تقریب میں لکھا ہے:
(( فالفاظ التعدیل مراتب) ذکر ھا المصنف کابن الصلاح تبعا لا بن ابی حاتم اربعۃ وجعلھا الذھبی والعراقی خمسۃ و شیح الاسلام ستۃ (اعلاھا) بحسب ما ذکرہ المصنف ( ثقۃ او متقن او ثبت او حجۃ او عدل حافظ او) عدل ( ضابط) و اما المرتبۃ التی زادھا الذھبی والعراقی فانھا اعلیٰ من ھذہ وھو ما کرر فیہ احد الالفاظ المذکورۃ اما بعینہ کثقۃ ثقۃ اولا کثقۃ ثبت او ثقۃ حجۃ او ثقۃ حافظ والرتبۃ التی زادھا شیخ الاسلام اعلی من مرتبۃ التکریر وھی الوصف بافعل کاوثق الناس واثبت الناس او نحوہ کالیہ المنتھی فی التثبت قلت ، ومنہ لا احد اثبت منہ ومن مثل فلان؟ وفلان لا یسأل عنہ ولم ارمن ذکر ھذہ الثلاثۃ وھی الفاظھم فالمرتبۃ التی ذکرھا المصنف اعلی ھی ثالثۃ فی الحقیقۃ‘‘۱ھ(ص:۲۳۰) )
’’پس تعدیل کے الفاظ کے چند مرتبے ہیں) مصنف نے ابن صلاح کی طرح ابن ابی حاتم کی پیروی میں چار مرتبے ذکر کیے ہیں اور ذہبی اور عراقی نے یہ مراتب پانچ بنائے ہیں اور شیخ الاسلام نے چھ بنائے ہیں( ان میں سب سے بلند ) مصنف کے ذکر کے اعتبار سے (ثقہ یا متقن یا ثبت یا حجۃ یا عدل حافظ یا ) عدل (ضابط) ہے ۔ اور ذہبی اور عراقی نے جو مرتبہ زیادہ کیا ہے وہ اس مرتبہ سے بلند ہے اور وہ ہے جس میں مذکورہ الفاظ بعینہ مکرر لائے جائیں یا کوئی دو لفظ مکرر لائے جائیں مثلاً ثقۃ ثقۃ یا ثقۃ ثبت یا ثقۃ حجۃ یا ثقۃ حافظ اور جو مرتبہ شیخ الاسلام نے زیادہ کیا ہے وہ تکریر کے مرتبہ سے بھی بلند ہے اور وہ ہے جس میں افعل ( تفضیل ) کے ساتھ وصف بیان کیا جائے۔مثلاً أوثق الناس ، أثبت الناس یا اس جیسے الفاظ مثلاً الیہ المنتہیٰ فی التثبت۔ میں کہتا ہوں اسی مرتبے سے یہ لفظ بھی ہیں ’’ اس سے زیادہ پختہ کوئی نہیں۔‘‘ اور ’’فلاں کی مثل کون ہے‘‘ اور ’’فلاں کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا ‘‘ اور میں نے کسی کو نہیں دیکھاجس نے یہ تین لفظ ذکر کیے ہوں حالانکہ تعدیل کے الفاظ میں یہ لفظ بھی آتے ہیں تو وہ مرتبہ جو مصنف نے اعلیٰ قرار دیا ہے درحقیقت وہ تیسرا ہے۔‘‘ ۱ھ(ص:۲۳۰)
تو محمد بن یوسف اور یزید بن خصیفہ کے بارے میں حضرت المؤلف کے نقل کردہ الفاظ توثیق کے لحاظ سے محمد بن یوسف تعدیل کے دوسرے مرتبہ میں اور یزیدبن خصیفہ توثیق کے تیسرے مرتبہ میں ہیں لہٰذا محمد بن یوسف یزید بن خصیفہ سے اوثق ہیں تو ترجیح محمد بن یوسف کی روایت کو ہو گی نہ کہ یزید بن خصیفہ کی روایت کو اوراگر تسلیم کر لیا جائے کہ درجہ ثقاہت میں یہ دونوں بزرگ برابر ہیں تو بھی کثرت صحبت اور رشتہ داری کی بناء پر ترجیح محمد بن یوسف کی روایت کو دی جائے گی ۔ اور کثرت صحبت اور رشتہ داری کا وجوہ ترجیح میں شامل ہونا پہلے با حوالہ بیان ہو چکا ہے۔
رہے حارث بن عبدالرحمان تو محمد بن یوسف کا ان سے اوثق ہونا ظاہر بات ہے کیونکہ محمد بن یوسف تو ثقہ ثبت ہیں اور حارث بن عبدالرحمن صدوق یھم۔ رہا حارث بن عبدالرحمن کا رجال مسلم سے ہونا تو وہ اتنے سے تو محمد بن یوسف کے برابر بھی نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ وہ محمد بن یوسف سے اوثق بنیں کیونکہ کسی راوی کا دوسرے درجہ کا ثقہ ہونا مسلم کی شرط نہیں ہے جبکہ عالم یہ ہے کہ حارث بن عبدالرحمن تو مسلم کے رجال سے ہیں اور محمد بن یوسف بخاری اور مسلم دونوں کے ر جال سے ہیں ، پھر محمد بن یوسف میں ترجیح کی دو اور وجہیں کثرت صحبت اور حضرت سائب سے رشتہ داری بھی موجود ہیں نیز حارث بن عبدالرحمن کی روایت کی سند محمد بن یوسف کی روایت کی سند کے ہم پلہ نہیں کیونکہ محمد بن یوسف سے بیان کرنے والے تو رأس المتقنین ، کبیر المتثبتین اور اوثق الناس بعد التابعین حضرت الامام مالک، امام الجرح والتعدیل ثقہ متقن اور حافظ یحییٰ بن سعید القطان اور ثقہ عبدالعزیز بن محمد ہیں ، اُدھر حارث بن عبدالرحمن سے بیان کرنے والے اسلمی صاحب ہیں جن کاحال پہلے لکھا جا چکا ہے تو ان وجوہ ترجیح کی بناء پر محمد بن یوسف کی روایت راجح اور حارث بن عبدالرحمن کی روایت مرجوح ٹھہرے گی۔
باقی یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کے ایک دوسرے کا متابع ہونے سے بھی وہ دونوں محمد بن یوسف کے درجہ ثقاہت کو نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ مراتب تعدیل و توثیق ، محمد بن یوسف کے مرتبہ ثقاہت ، ثقہ ، ثبت ، یزید بن خصیفہ کے درجہ ثقاہت ثقہ اور حارث بن عبدالرحمن کے مقام عدالت صدوق یھم پر تدبر کرنے سے واضح ہے ، چلو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یزید اور حارث دونوں مل کر درجہ ثقاہت میں محمد بن یوسف کے برابر ہیں لیکن ترجیح کی دو اور وجہوں کثرت صحبت اور رشتہ داری سے محمد بن یوسف تو بہرہ ور ہیں اور یزید و حارث دونوں ان دو وجوہ سے محروم ہیں یہ بھی تسلیم کہ کثرت صحبت میں بھی یہ دونوں محمد بن یوسف کے برابر ہیں مگر مروی عنہ سے رشتہ داری والی وجہ ترجیح سے تو یہ دونوں بہر حال محروم ہیں نیز یزید و حارث سے نیچے کے سب راوی محمد بن یوسف سے نیچے کے سب راویوں کے ہم پلہ نہیں ہیں کما تقدم تو اصول حدیث کے لحاظ سے محمد بن یوسف کی روایت راجح اور یزید و حارث کی روایت مرجوح ہے اور بقول حضرت المؤلف ’’ اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے۔‘ ‘ پھر محمد بن یوسف کی روایت راجح ہونے کی اور وجوہ بھی ہیں جیسا کہ ترجیح کی پچاس سے زائد وجوہ پر غور و فکر کرنے سے ظاہر ہے۔
… حنفیہ کے نزدیک ترجیح تطبیق سے مقدم ہے لہٰذا ترجیح کی کسی صورت مقبولہ کے ہوتے ہوئے ان کے ہاں تطبیق کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا چنانچہ صاحب فیض الباری تحریر فرماتے ہیں:
(( واعلم ان الحدیثین اذا لا ح بینھما تعارض فحکمہ عندنا ان یحمل اولا علی النسخ فیجعل احدھما نا سخا والاخر منسوخا ثم یتنزل الی الترجیح فان لم یظھر وجہ ترجیح احدھما علی الاخر یصار الی التطبیق فان امکن فبھا والا فالی التساقط ھذا ھو الترتیب عند التعارض عندنا کما فی التحریر و عند الشافعیۃ یبدأ اولا بالتطبیق ثم بالنسخ ثم بالترجیح ثم بالتساقط قلت: وما اختارہ الشافعیۃ رأی حسن فی بادیٔ النظر و ما یظھر بعد التعمق ھو ان ما ذھبنا الیہ اولی لان الترتیب بین التطبیق والتساقط ظاھرفان التساقط انما ھو عند تعذ ر التطبیق وما دام امکن الجمع لا معنی للتساقط وکذا تقدیم الترجیح علی التطبیق ایضا واضح فان الاخذ بالراجح مما جبل علیہ الانسان فھو مودع فی فطرتہ الاتری انک اذا سمعت رجلا افتاک فی مسألۃ بجواب ثم تسمع رجلاً افضل منہ یجیب بغیر جوابہ تاخذ بما اجاب بہ الافضل بدون تامل ولا ترکن الی قول المفضول اصلا وھذا ھو الاخذ بالراجح من حیث لا ندریہ ۱ھ(المقدمۃ ، ص:۵۲) ))
’’اور جان لو کہ جب دو حدیثوں کے درمیان تعارض سامنے آئے تو اس کا حکم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پہلے اسے نسخ پر محمول کیا جائے چنانچہ ایک کو ناسخ بنا دیا جائے اور دوسری کو منسوخ پھر نسخ سے اتر کر ترجیح کی طرف رخ کیا جائے اگر ایک حدیث کی دوسری پر ترجیح کی وجہ ظاہر نہ ہو تو تطبیق کی راہ اختیار کی جائے اگر ممکن ہو تو بہتر ورنہ دونوں کو ساقط سمجھا جائے ، تعارض کی صورت میں ہمارے نزدیک یہی ترتیب ہے جیسا کہ التحریر میں ہے اور شافعیہ کے نزدیک پہلے تطبیق سے ابتدا کی جائے گی پھر نسخ پھر ترجیح اور پھر تساقط۔ میں کہتا ہوں شافعیہ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے بادی النظر میں اچھی رائے ہے لیکن گہری نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری رائے اولیٰ ہے کیونکہ تطبیق اور تساقط کے درمیان ترتیب ظاہر ہے کیونکہ تساقط ہوتا ہی اسی وقت ہے جب تطبیق ناممکن ہو جب تک تطبیق ممکن ہو تساقط کا کوئی مطلب نہیں۔ اسی طرح تطبیق پر ترجیح کا مقدم ہونا بھی واضح ہے کیونکہ راجح بات کو اخذ کرنا ایسی چیز ہے جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے چنانچہ یہ اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جب آپ کو کوئی آدمی کسی مسئلہ میں کوئی فتویٰ دے پھر آپ کو کسی ایسے آدمی سے جو پہلے سے افضل ہو اس مسئلہ میں پہلے شخص کے فتویٰ کے علاوہ کوئی فتویٰ سُنیں تو آپ بلا تامل اس فتویٰ کو اخذ کریں گے جو افضل نے دیا ہے اور مفضول کے قول کی طرف مائل نہیں ہوں گے اور یہی چیز راجح کو اخذ کرنا ہے جو ہم نہ جانتے ہوئے بھی کرتے ہیں۔ (مقدمہ ، ص:۵۲)‘‘
(( اقول: ان شئت ان تعرف ما علی کلام صاحب الفیض ھذا وغیرہ فارجع الی انتقادات شیخنا بارک اللہ تعالیٰ فی علمہ و عملہ ورزقہ و عمرہ علی الفیض المسماۃ بارشاد القاری و سوف تطبع ان شاء اللہ تعالیٰ و انما المقصود ھھنا بیان ان الترجیح مقدم علی التطبیق عند الحنفیۃ))
’’ترجمہ:… میں کہتا ہوں کہ اگر آپ صاحب فیض کے اس کلام اور دوسرے کلام پر جو اعتراض اور خرابیاں لازم آتی ہیں جاننا چاہیں تو ہمارے شیخ (بارک اللہ فی علمہ و عملہ و رزقہ و عمرہ ) نے فیض الباری پر جو انتقادات ارشاد القاری کے نام سے لکھے ہیں ان کا مطالعہ فرمائیں ان شاء اللہ وہ طبع ہو جائیں گے۔ یہاں مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ حنفیہ کے ہاں ترجیح تطبیق پر مقدم ہے۔‘‘
تو اس اصول کے اعتبار سے عند الحنفیہ اس مقام پر تطبیق کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس جگہ ترجیح کی صورت موجودہے لیکن حضرت المؤلف نے چونکہ تطبیق کا بھی تذکرہ فرمایا ہے اس لیے ان کی پیش فرمودہ تطبیق کا جائزہ لینا بھی فائدہ سے خالی نہیں۔
… حضرت المؤلف نے جو تطبیق نقل فرمائی وہ یہ ہے کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہو پھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں ‘‘ مگر بندہ کو گیارہ کا حکم پہلے ہونے اور بعد میں اکیس کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ملی نہ تو حضرت المؤلف کے کلام میں اور نہ ہی حافظ بیہقی ، حافظ ابن حجر ، علامہ زرقانی ، علامہ شوکانی ، علامہ عینی ، علامہ شوق صاحب نیموی صاحب آثار السنن ، علامہ باجی مالکی اور دیگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی تحریرات میں بلکہ بندہ نے اپنی ناقص یادداشت کے مطابق گیارہ کا حکم پہلے ہونے اور بعد میں اکیس کر دینے کی آج تک کوئی دلیل نہ کہیں پڑھی اور نہ کسی سے سنی لہٰذا حضرت المؤلف کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ برائے مہربانی اس مذکورہ تطبیق کی کوئی دلیل بیان فرمائیں۔
وخامساً:… حضرت المؤلف کی عبارت بتلا رہی ہے کہ مذکورہ تطبیق احتمال پر مبنی ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں ’’ اس کے ساتھ تطبیق کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں‘‘ تو ان کے الفاظ ’’حکم دیا ہو‘‘ اور ’’کردی گئی ہوں‘‘ پر غور کرنے سے مذکورہ تطبیق کا مبنی بر احتمال ہونا خود بخود واضح ہو جاتا ہے پھر حافظ ابن عبدالبر کے الفاظ (( وَیحتمل ان یکون ذالک اولا ثم خفف عنھم طول القیام و نقلھم الی احدی و عشرین…الخ)) ’’احتمال ہے کہ یہ پہلے ہو پھر ان سے لمبے قیام میں تخفیف کر دی ہو اور انہیں اکیس رکعات کی طرف منتقل کر دیا ہو‘‘ علامہ زرقانی کے الفاظ (( وھم مع ان الجمع بالاحتمال الذی ذکرہ قریب )) ’’اور وہم بالکل نہیں کیونکہ مذکورہ احتمال کے ساتھ تطبیق ممکن ہے۔‘‘ اور علامہ عینی کے شیخ مکرم کے الفاظ (( لعل ھذا کان من فعل عمرا ولا ثم نقلھم الی ثلاث و عشرین )) ’’شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہکا یہ فعل پہلے ہو پھر آپ نے انہیں تئیس کی طرف منتقل کر دیا ہو ‘‘ بھی حضرت المؤلف وغیرہ کی نقل کر دہ تطبیق کے احتمالی ہونے پر دلالت کر رہے ہیں۔
وسادساً:… اگر احتمالی تطبیق ہی کو اختیار کرنا ہے تو پھر احتمالی تطبیقات اور بھی ہیں ان سے کسی کو اختیار کیا جا سکتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
(( والجمع بین ھذہ الروایات ممکن باختلاف الاحوال و یحتمل ان ذالک الاختلاف بحسب تطویل القراء ۃ و تخفیفھا فحیث یطیل القراء ۃ تقل الرکعات وبالعکس و بذالک جزم الداؤدی وغیرہ والعدد الاول (ای احدی عشرۃ) موافق لحدیث عائشہ المذکور بعد ھذا الحدیث فی الباب والثانی(ای ثلاث عشرۃ) قریب منہ والاختلاف فیمازاد عن العشرین راجع الی الاختلاف فی الوتر و کانہ کان تارۃ یوتر بواحدۃ تارَۃ بثلاث )) (۱ھ فتح الباری ج:۴،ص:۲۵۳)
’’ترجمہ:… اور ان روایات میں مختلف احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور احتمال ہے کہ یہ اختلاف قراء ت کو طویل اور کم کرنے کے اعتبار سے ہو تو جب قراء ت لمبی ہو تو رکعات کم ہوں اور اس کے برعکس قراء ت ہلکی ہو تو رکعات زیادہ ہوں ۔ داؤدی وغیرہ نے اسی کو یقین کے ساتھ بیان کیا ہے اور پہلی تعداد (گیارہ) حصرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے موافق ہے جو اس حدیث کے بعد باب میں ذکر ہوئی ہے اور دوسری (تیرہ)اس سے قریب ہے اور بیس سے زائد کا اختلاف ، وتر کے مختلف ہونے کی وجہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک وتر پڑھا جاتا تھا کبھی تین ۔ انتہی (فتح الباری ، ج:۴، ص:۲۵۳)
(( اقول : ویؤید ما جزم بہ الداؤدی و غیرہ ما ذکرہ صاحب آثار السنن فی باب التراویح باکثر من ثمان رکعات عن داؤد بن الحصین انہ سمع الاعرج یقول : ما ادرکت الناس الاوھم یلعنون الکفرۃ فی رمضان قال و کان القاری یقرأ سورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات فاذا قام بھا فی اثنتی عشرۃ رکعۃ رأی الناس انہ قد خفف رواہ مالک و اسنادہ صحیح۔ ۱ھ(ص:۲۰۳) ))
’’ترجمہ:… میں کہتا ہوں داؤدی وغیرہ نے جو بات یقین سے کہی ہے اس کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جو صاحب آثار السنن نے آٹھ رکعت سے زیادہ تراویح کے باب میں داؤد بن حصین سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اعرج سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے لوگوں کو اسی حال پر پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے تھے فرمایا کہ قاری سورۂ بقرہ آٹھ رکعتوں میں پڑھتا تھا تو جب وہ اسے بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ اس نے تخفیف کر دی ہے اسے مالک نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ (۱ھ ص:۲۰۳)
(( وقال المحدث المبارکفوری: قد جمع البیہقی وغیرہ بین روایتی السائب المختلفتین المذکورین بانھم کانو یقوموں باحدی عشرۃ رکعۃ ثم کانوا یقومون بعشرین یوترون بثلاث قلت: فیہ انہ لقائل ان یقول بانھم کانوا یقومون اولا بعشرین رکعۃ ثم کانوا یقومون باحدی عشرۃ رکعۃ وھذا ھوا لظاہر لان ھذا کان موافقا لما ھو الثابت عن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وذاک کان مخالفا لہ فتفکر۔۱ھ(تحفۃ الاحوذی ج:۲،ص:۷۶) ))
’’ترجمہ:… اور محدث مبارک پوری نے فرمایا: ’’بیہقی وغیرہ نے سائب کی مذکورہ دونوں مختلف روایتوں کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ وہ پہلے گیارہ رکعت قیام کرتے تھے ، پھر بیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے ، میں کہتا ہوں اس میں یہ ہے کہ کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ پہلے بیس رکعت قیام کرتے رہے ، پھر گیارہ رکعت قیام کرنے لگے اور ظاہر یہی بات ہے کیونکہ یہ اس تعداد کے مطابق ہے جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور وہ اس کے مخالف ہے ۔فتفکر ۱ھ(تحفۃ الاحوذی، ج:۲، ص:۷۶)
(( اقول : ویؤیدہ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قد ارشدھم الی الافضل فی وقت القیام بقولہ : والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون یرید آخر اللیل و کان الناس یقومون اولہ الافضل فی کیفیۃ القیام بجمعہ ایاھم علی قاریٔ واحد ویظھر ذالک من قولہ : لو جمعت ھؤلاء علی قاریٔ واحد لکان امثل۔ فلم یکن رضی اللہ تعالی عنہ لیرشد ھم فی کمیۃ القیام الا الی الافضل ایضا ولذالک کان أمرأبی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرہ رکعۃ و کان القاریٔ یقرأ بالمئین و کانوا یعتمدون علی العصی من طول القیام و ما کانوا ینصرفون الا فی فروع الفجر و انما کان ھذا العدد فی القیام افضل لثبوتہ عن النبی صلی الله علیہ وسلمو من المعلوم ان خیر الھدی ھدی محمد صلی الله علیہ وسلم وقد قال صلی الله علیہ وسلمللثلاثۃ الذین تقالوا عبادتہ : انتم الذین قلتم کذا و کذا اما واللہ انی لا حشاکم للہ و اتقاکم لہ … الخ۔ وھو یدل علی ان ما وافق سنۃ النبی صلی الله علیہ وسلم وطریقتہ ولو کان قلیلا افضل مماخالفھا ولو کان کثیرا فالقیام باحدی عشرۃ و ثلاث عشرۃ و ان کان قلیلا فی بادی الرأی افضل من القیام بثلاث و عشرین وست و ثلاثین و ان کان کثیرا فی بادی الرأی لموافقۃ الاول سنۃ النبی صلی الله علیہ وسلم و مخالفۃ الثانی ایاھا و قد ثبت ان طول القیام والقرأۃ افضل من اکثرۃ الرکوع والسجود فی صلاۃ التطوع وھو مذہب ابی حنیفۃ و ابی یوسف و محمد وھو قول الشافعی قال الطحاوی فی شرح معانی الاثار: وممن قال بھذا القول الاخر فی اطالۃ القیام وانہ افضل من کثرۃ الرکوع والسجود محمد بن الحسن۔ حدثنی بذالک ابن ابی عمران عن محمد بن سماعۃٓ عن محمد بن الحسن وھو قول ابی حنیفۃ وابی یوسف و محمد رحمہم اللہ تعالیٰ (ج:۱، ص:۳۲۱) ))
’’ترجمہ:… میں کہتا ہوں ، اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیام کے وقت میں بھی لوگوں کی راہنمائی افضل وقت کی طرف فرمائی یہ کہہ کر کہ جس وقت میں لوگ سو جاتے ہیں وہ اس سے افضل ہے جس میں قیام کرتے ہیں ، یعنی رات کا آخری حصہ اور لوگ رات کے شروع حصہ میں قیام کرتے تھے اور قیام کی کیفیت میں بھی افضل کی طرف رہنمائی کی کہ انہیں ایک قاری پر جمع کر دیا اور یہ بات ان کے اس قول سے ظاہر ہے کہ اگر میں ان لوگوں کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو افضل ہو تو قیام کی تعداد میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی رہنمائی افضل کی طرف ہی کر سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام کروائیں اور قاری سو سو آیات کی سورتیں پڑھتا اور لوگ طویل قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے ، اور فجر کے قریب جا کر ہی فارغ ہوتے تھے اور قیام میں یہ تعداد اس لیے افضل ہے کہ یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلمسے ثابت ہے اور معلوم ہے کہ سب طریقوں سے بہتر محمد صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تینوں آدمیوں کو فرمایا جنہوں نے آپ کی عبادت کو کم سمجھا تھا کہ کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں یاد رکھو1 اللہ کی قسم1 یقینا میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ رکھنے والا ہوں … الخ۔ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو عمل آپ کی سنت اور طریقے کے مطابق ہو خواہ کم ہی ہو اس عمل سے افضل ہے جو آپ کی سنت اور طریقے کے مخالف ہو خواہ وہ زیادہ ہی ہو تو گیارہ یا تیرہ رکعت قیام اگرچہ بظاہر نظر کم ہے تئیس اور چھتیس رکعت قیام سے افضل ہے اگرچہ ظاہر دیکھنے میں وہ زیادہ ہی ہے کیونکہ پہلی تعداد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے اور دوسری اس کے مخالف ہے اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نفل نماز میں قیام اور قراء ت کا طویل ہونا رکوع وسجود کی کثرت سے افضل ہے۔ یہ ابو حنیفہ ، ابو یوسف اور محمد کا مذہب ہے اور شافعی کا قول بھی یہی ہے ، طحاوی نے شرح معانی الاثار میں فرمایا: ’’ جو لوگ اس آخری قول یعنی قیام طویل کرنے اور کثرت رکوع وسجود سے اس کے افضل ہونے کے قائل ہیں ان میں محمد بن حسن بھی شامل ہیں ۔ مجھے یہ بات ابن ابی عمران نے محمد بن سماعہ سے بیان کی ، انہوں نے محمد بن حسن سے اور یہی قول ابو حنیفہ ، ابو یوسف اور محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ (ج:۱ ، ص:۳۲۱)
(( وقال الحافظ فی الفتح : وروی محمد بن نصر من طریق داؤد بن قیس قال : ادرکت الناس فی امارۃ ابان بن عثمان و عمر بن عبدالعزیز یعنی بالمدینۃ یقومون بست و ثلاثین رکعۃ و یوترون بثلاث و قال مالک ھو الامر القدیم عندنا وعن الزعفرانی عن الشافعی رایت الناس یقومون بالمدینۃ بتسع و ثلاثین و بمکۃ بثلاث و عشرین و لیس فی شیٔ من ذالک ضیق و عنہ قال : ان اطالو القیام واقلوا السجود فحسن و ان اکثر و السجود و اخفو القراء ۃ فحسن والاول احب الی۔ ۱ھ(ج:۴، ص:۲۵۳) ))
’’ترجمہ:… اور حافظ نے فتح الباری میں فرمایا: ’’ اور محمد بن نصر نے داؤد بن قیس کے طریق سے روایت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کو ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کی (مدینہ میں ) امارت کے زمانہ میں پایا کہ وہ چھتیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور مالک نے فرمایاکہ یہ ہمارے ہاں قدیم دستور ہے اور زعفرانی نے شافعی سے بیان کیا کہ میں نے لوگوں کو مدینہ میں دیکھا کہ انتالیس رکعت قیام کرتے تھے اور مکہ میں تئیس رکعت اور ان میں سے کسی میں بھی مضائقہ نہیں اور شافعی سے ہی راویت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر قیام طویل کر دیں اور سجدہ کی تعداد کم کر دیں تو اچھا ہے اور سجود زیادہ کریں اور قراء ت ہلکی کر دیں تو بھی اچھا ہے اور پہلی بات مجھے زیادہ محبوب ہے۔ ۱ھ(ج:۴، ص:۲۵۳)
(( فظھران القیام باحدی عشرۃ او ثلاث عشرۃ اذا اطیل القیام والقراء ۃ فیھا افضل عند الا ما مین الھا مین ابی حنیفۃ والشافعی ایضا من القیام بثلاث و عشرین و تسع و ثلاثین واحدی و اربعین اذا خفف القرائۃ والقیام فیھا والعمل فی بلاد نا الیوم ان الذین یصلون احدی عشرۃ او ثلاث عشرۃ تکون قراء تھم مساویۃ لقراء ۃ الذین یصلون ثلاثا وعشرین الا نادرا وکذا یکون قیام الاولین اطول من قیام الٓاخرین غالباً فیکون عمل الاولین فی قیام رمضان افضل عند ابی حنیفۃ والشافعی ایضاً من عمل الاخرین فیہ فتدبرثم التطبیق الذی حکاہ صاحب الرسالۃ عن ابن عبدالبر وغیرہ قد بنی علی تخفیف القیام والقراء ۃ فی ثلاث و عشرین او احدی و عشرین کمایظھر ذالک من عبارۃ ابن عبدالبر نفسہ و من ترجمتھا الاردویۃ التی ذکرھا المصنف و یظھر ذالک من کلام الباجی ایضا حیث قال :فامرھم اولا بتطویل القراء ۃ لانہ افضل ثم ضعف الناس فامرھم بثلاث و عشرین فخفف من طول القراء ۃ واستدرک بعض الفضیلۃ بزیادۃ الرکعات وقال ایضا : وکان الامر علی ذالک الی یوم الحرۃ فثقل علیھم القیام فنقصوا من القرأۃ وزاد وا لرکعات فجعلت ستاوثلاثین غیر الشفع والوتر وذکر ابن حبیب انھا کانت اولا احدی عشرۃ کانوا یطیلون القراء ۃ فثقل علیھم فخففوا القراء ۃ وزادوا فی عدد الرکعات فکانو یصلون عشرین رکعۃ غیر الشفع والوتر بقراء ۃ متوسطۃ ثم خففوا القراء ۃ وجعلوا الرکعات ستاو ثلاثین غیر الشفع والوتر، ومضی الامر علی ذالک وروی محمد بن نصر عن داؤد بن قیس قال : ادرکت الناس فی امارۃ ابان بن عثمان و عمر بن عبدالعزیز یعنی بالمدینۃ یقومون بست و ثلاثین رکعۃ ویوترون بثلاث و قال مالک ھو الامر القدیم عندنا۔۱ھ (شرح المؤطا للزرقانی ، ج:۱، ص:۲۳۹)
’’ترجمہ: … اس سے ظاہر ہوا کہ گیارہ یا تیرہ رکعت قیام جب کہ ان میں قیام اور قراء ت طویل کیے جائیں دونوں جلیل القدر ائمہ ابو حنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی تئیس ، انتالیس اور اکتالیس رکعت قیام سے افضل ہے جب کہ ان میں قیام اور قراء ت ہلکے ہوں ، ہمارے علاقے میں آج کل عملی صورت یہی ہے کہ جو لوگ گیارہ یا تیرہ رکعت پڑھتے ہیں ان کی قراء ت تئیس رکعت پڑھنے والوں کی قراء ت کے برابر ہی ہوتی ہے الا نادراً اسی طرح اول الذکر لوگوں کا قیام آخر الذکرحضرات کے قیام سے عموماً لمبا ہوتا ہے تو پہلے لوگوں کا عمل قیام رمضان میں دوسرے حضرات کے قیام سے ابو حنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی افضل ہو گا۔ فتدبر
پھر وہ تطبیق جو صاحب رسالہ نے ابن عبدالبر وغیرہ سے بیان کی اس کی بناء تئیس یا اکتالیس رکعتوں میں قیام اور قراء ت کی تخفیف پر ہے جیسا کہ یہ بات خود ابن عبدالبر کی عبارت اور اس کے اس اُردو ترجمہ سے ظاہر ہے جو مصنف نے کیا ہے اور یہی بات باجی کے اس کلام سے بھی ظاہر ہو رہی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:’’تو آپ نے پہلے انہیں قراء ت طویل کرنے کا حکم دیا کیونکہ یہ افضل ہے پھر لوگ کمزور ہو گئے تو انہیں تئیس کا حکم دیا اور طول قراء ت میں تخفیف کر دی اور اس سے فضیلت میں جو کمی آئی تھی اس کا کچھ حصہ رکعتیں زیادہ کر کے پورا کر دیا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ یوم حرہ تک معاملہ اسی طریقے پر رہا پس لوگوں پر قیام بھاری ہو گیا تو انہوں نے قراء ت کم کر دی اور رکعات زیادہ کر دیں ، چنانچہ رکعات کی تعداد جفت اور وتر کے علاوہ چھتیس کر دی گئی اور ابن حبیب نے ذکر کیا کہ تراویح پہلے گیارہ تھیں لوگ ان میںقراء ت لمبی کرتے تھے تو یہ ان پر بھاری ہو گئی تو انہوں نے قراء ت ہلکی کر دی اور رکعتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ، چنانچہ وہ جفت اور وتر کے بغیر درمیانی قرأت کے ساتھ بیس رکعت پڑھتے تھے ، پھر انہوں نے قرأت میں تخفیف کر دی اور رکعات جفت اور وتر کے بغیر چھتیس کر دیں اور معاملہ اسی پر چل نکلا ‘‘ اور محمد بن نصر نے داؤد بن قیس سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے لوگوں کو (مدینہ میں) ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں پایا کہ وہ چھتیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور مالک نے فرمایا ہمارے ہاں یہی امر قدیم ہے۔ ۱ھ (شرح مؤطا للزرقانی ج:۱، ص:۲۳۹)
(( فیکون عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی رأی ھؤلا إمرھم اولا بالأفضل ثم نقلھم الی غیر الافضل و شان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجل و ارفع من ھذا کما یحصل من ارشادہ ایاھم الی القیام فی آخر اللیل وجمعہ ایاھم علی قاریٔ واحد و انما راعی الافضل فیھما فلم یکن لیراعی الافضل فی وقت القیام وکیفہ و یدعھا فی کمہ ، ثم لا دلیل لا مر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایاھم بثلاث و عشرین کما تقدم نعم قد ثبت ان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امرا بیا و تمیما رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان یقوما للناس باحدی عشرۃفتامل
ثم قول الباجی :واستدرک بعض الفضیلۃ بزیادۃ الرکعات ظاہر فی ان فی زیادۃ الرکعات استدرا کالبعض فضیلۃ طول القیام والقرأۃ لا کل فضیلتہ۔ فالتطبیقات التی ذکرھا العلماء ھھنا ثلاث الاول ما ذکرہ ابن عبدالبر والبیہقی وغیرھما والثانی ما ذہب الیہ الداودی وغیرہ والثالث انھم کانوا یصلون احدی عشرۃ تارۃ و تارۃ ثلاث عشرۃ و تارۃ عشرین و قد اشار الیہ الحافظ بقولہ : والجمع بین ھذہ الروایات ممکن باختلاف الاحوال۔ وھھنا تطبیق رابع قد ذکرہ صاحب تحفۃ الاحوذی ولا یذہب علیک ان معنی التطبیق والجمع والتوفیق فی الثانی والثالث اشد وازید من الاول و الرابع فتفکر ))
’’ترجمہ:… تو ان لوگوں کی رائے کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہلے افضل کا حکم دیا ہو گا پھر انہیں غیر افضل کی طرف منتقل کر دیا ہو گا حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہکی شان اس بات سے نہایت بلند ہے۔ جیسا کہ آپ کے ان کی رات کے آخر حصہ میں قیام کی طرف رہنمائی اور انہیں ایک قاری پر جمع کرنے سے بالکل ظاہر ہو رہا ہے اور آپ نے ان دونوں چیزوں میں افضل کا خیال رکھا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قیام کے وقت اور کیفیت میں تو افضل کا خیال رکھیں اور کمیت( تعداد) میں اس کا خیال چھوڑ دیں ، پھر اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ آپ نے لوگوں کو تئیس رکعت کا حکم دیا جیسا کہ گزر چکا ہے ۔ ہاں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی اور تمیم داری رضی الله عنہکو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام کروائیں ۔ فتامل
پھر باجی کے اس قول’’ فضلیت کی کچھ کمی رکعتیں زیادہ کر کے پوری کی ‘‘ سے ظاہر ہے کہ رکعتیں زیادہ کرنے سے قیام اور قراء ت کے طویل ہونے کی فضیلت کی کچھ کمی پوری ہو سکتی ہے تو علماء نے اس مقام پر جو تطبیقیں ذکر کی ہیں تین ہیں ۔ پہلی وہ جو ابن عبدالبر اور بیہقی وغیرہ نے ذکر کی ، دوسری وہ جس کی طرف داؤدی وغیرہ گئے ہیں ، تیسری یہ کہ کبھی لوگ گیارہ پڑھتے تھے کبھی تیرہ اور کبھی بیس۔ اس تطبیق کی طرف حافظ نے یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ ان روایات کے درمیان احوال کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور اس مقام پر ایک چوتھی تطبیق بھی ہے جو صاحب تحفۃ الاحوذی نے ذکر کی ہے ، پھر آپ سے مخفی نہیں رہنا چاہیے کہ تطبیق اور جمع کا مفہوم دوسری اور تیسری تطبیق میں پہلی اور چوتھی تطبیق کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔ پس فکر کر‘‘
…اگر کوئی صاحب فرمائیں مانا کہ ابو حنیفہ کے نزدیک ترجیح تطبیق سے مقدم ہے مگر آپ کے نزدیک تو تطبیق ترجیح سے مقدم ہے تو جواباً عرض ہے کہ یہ درست ہے لیکن محدث مبار ک پوری اور علامہ داؤدی وغیرہ کی پیش کردہ تطبیقات بھی تو آخر تطبیقات ہی ہیں انہیں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ، البتہاتنی بات یاد رہے کہ یہ ترجیح و تطبیق والی ساری گفتگو حضرت المؤلف کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھنے پر مبنی ہے ۔ ورنہ بندہ کے نزدیک تو محمد بن یوسف کے بیان ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے ابی بن کعب و تمیم داری رضی الله عنہکو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا ‘‘ اور یزید و حارث کے بیانات میں تعارض تو سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ یزید اور حارث کے بیانات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کی نفی نہیں کی گئی ، ان میں تو صرف لوگوں کے عمل کا ذکر ہے کہ وہ بیس رکعات پڑھتے تھے یا ہم بیس رکعات پڑھتے تھے یا قیام بیس رکعات تھا تو لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے پہلے ہو خواہ گیارہ کا حکم دینے کے بعد کسی صورت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے متعارض نہیں ہے تو جب حضرت سائب بن یزید کے اصحاب ثلاثہ کے بیانات میں تعارض ہی نہیں تو اس مقام پر نہ تطبیق کی ضرورت ہے اور نہ ترجیح کی ، اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ لوگوں کا گیارہ کے حکم سے پہلے بیس رکعات پڑھنا تو واقعی گیارہ کے حکم سے متعارض نہیں مگر گیارہ کے حکم کے بعد لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا گیارہ کے حکم سے کیونکر متعارض نہیں تو جواباً گزارش ہے کہ وہ اس لیے متعارض نہیں کہ لوگوں کے حضرت عمر رضی اللہ عنہکے گیارہ کا حکم دینے کے بعد بیس رکعات پڑھنے سے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کی نفی نہیں ہوتی نہ مطابقت نہ ہی تضمناً اور نہ ہی التزاماً زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہکے حکم گیارہ رکعات سے بڑھ کر از خود بیس رکعات پڑھیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے حکم ہی پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں بیس پڑھنے سے منع نہ فرمایا ، پھر اس لیے بھی کہ بیس رکعات قیام رمضان بھی آخر نفلی عبادت ہی ہے گو رتبہ میں گیارہ رکعات قیام رمضان کے بوجوہ برابر نہیں مگر یہ بھی تب لازم آتا ہے جب کہ لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم گیارہ رکعات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بیس رکعات پڑھنا ثابت ہو اور ظاہر ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں نیز یاد رہے کہ بیس رکعات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع نہ فرمانے کا کسی روایت میں صراحتاً ذکر نہ ہونے سے ان کا بیس رکعات سے منع نہ فرمانا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے منع فرمانا ثابت ہوتا ہے ۔ بہر حال لوگوں کا بیس رکعت پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے پہلے ہو یا بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے متعارض نہیں لہٰذا اس مقام پر نہ تطبیق کی ضرورت ہے نہ ہی ترجیح کی ، رہا یہ سوال کہ کئی علماء کرام نے تطبیق یا ترجیح کی راہ اختیار فرمائی ہے تو وہ ان بزرگوں کی تحقیق ہے ، بندہ نے اپنی تحقیق پیش کی ہے ۔فتدبر
… حضرت المؤلف نے علامہ شوکانی کے تطبیق کو اختیار کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے سووہ تطبیق وہی ہے جس کا حافظ ابن حجر کے کلام میں ذکر ہو چکا ہے البتہ مناسب ہے کہ اس مسئلہ کے بارہ میں علامہ شوکانی کی تحقیق بھی نقل کر دی جائے چنانچہ لکھتے ہیں:
(( قال الحافظ: والجمع بین ھذہ الروایات … إلی أن قال : ھذا حاصل ما ذکرہ فی الفتح من الاختلاف فی ذالک و اما العددا الثابت عنہ صلی الله علیہ وسلم فی صلاتہ فی رمضان فأخرج البخاری وغیرہ عن عائشۃ انھا قالت : ما کان النبی صلی الله علیہ وسلم یزید فی رمضان ولافی غیر ہ علی احدی عشرۃ رکعۃ۔ واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی الله علیہ وسلم صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر۔ واخرج البیہقی عن ابن عباس کان یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعۃ عشرین رکعۃ والوتر۔ زاد سلیم الرازی فی کتاب الترغیب لہ ویوتربثلاث۔ قال البیہقی : تفردبہ ابوشیبۃ ابراہیم بن عثمان وھو ضعیف۔ واما مقدار القراء ۃ فی کل رکعۃ فلم یرد بہ دلیل والحاصل ان الذی دلت علیہ احادیث الباب و ما یشابھھا ھو مشروعیۃ القیام فی رمضان والصلاۃ فیہ جماعۃ وفرادی فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح علی عدد معین و تخصیصھا بقراء ۃ مخصوصۃ لم یرد بہ سنۃ۔‘‘ ۱ھ(نیل الاوطار ، ج:۳، ص:۵۳)
’’حافظ نے فرمایا: اور ان روایتوں کے درمیان تطبیق … یہاں تک کہ شوکانی نے کہا کہ یہ اس اختلاف کا خلاصہ ہے جو فتح الباری میں اس مسئلہ میں ذکر کیا ہے ، رہی وہ تعداد جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے تو بخاری وعیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلمنے انہیں آٹھ رکعتیں پڑھائیں ، پھر وتر پڑھایا اور بیہقی نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ ماہِ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ سلیم رازی نے اپنی کتاب ’’الترغیب ‘‘ میں یہ لفظ زیادہ کیے ہیں کہ اور تین وتر پڑھتے تھے۔‘‘ بیہقی نے فرمایا: اس میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ رہ گئی ہر رکعت میں قراء ت کی مقدار تو اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں آئی۔ حاصل یہ ہے کہ باب کی احادیث اور اس کی ہم مثل دوسری احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ رمضان کے قیام اور اسے اکیلے اکیلے یا با جماعت ادا کرنے کی مشروعیت ہے تو اس نماز کو جس کا نام تراویح ہے کسی معین عدد پر بند کر دینا اور کسی مخصوص قراء ت کے ساتھ خاص کر دینا کسی حدیث میں نہیں آیا۔‘‘۱ھ(نیل الاوطار ، ج:۳، ص:۵۳)
(( اقول : لم یرد الشوکانی بقولہ : فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح علی عدد معین الخ ان العدد المعین فی صلاۃ رمضان لم یثبت عن النبی صلی الله علیہ وسلم کما یزعمہ بعض الناس الیوم والدلیل علی عدم ارادتہ ذالک ما قال قبل : واما العدد الثابت عنہ صلی الله علیہ وسلم فی صلاتہ فی رمضان الخ۔ وانما اراد بقولہ : فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح الخ ۔ ما اشار الیہ بقولہ قبل و اما فعلھا علی الصفۃ التی یفعلونھا الان من ملازمۃ عدد مخصوص و قراء ۃ مخصوصۃ فی کل لیلۃ فسیاتی الکلام علیہ ۔ ۱ھ (نیل الاوطار ج:۳، ص:۵۲)والکلام الموعود اتیانہ قبل ھو قولہ فقصر الصلاۃ الخ
فائدۃ: قال الشوکانی فی النیل فی شرح قول صاحب المنتقی : ولما لک فی المؤطا عن یزید بن رومان قال : کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث و عشرین رکعۃ۔ ما نصہ بلفظہ : قولہ : (بثلاث وعشرین رکعۃ) قال ابن اسحاق : وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک ۔ ووھم فی ضوء النھار فقال : ان فی سندہ باشیبۃ ولیس الامر کذالک الخ(ج:۳، ص:۵۳)
اقول : وقد تقدم فی کلام الحافظ والعینی ما یدل علی ان قول ابن اسحاق : وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک ۔ فی حق روایۃ محمد ابن یوسف عن السائب بن یزید قال : کنا نصلی فی زمن عمر فی رمضان ثلاث عشرۃ رکعۃ۔ ولیس قولہ المذکور فی حق روایۃ یزید بن رومان قال : کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث و عشرین رکعۃ۔ کما توھمہ الشوکانی ، فوھم صاحب ضوء النھار فی قولہ : ان فی سند روایۃ یزید بن رومان ابا شیبۃ۔ ووھم صاحب اللیل فی جعل قول ابن اسحاق: وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک۔ فی حق روایۃ یزید بن رومان ولیس الامر کذالک فتفکر ))
’’ترجمہ:… میں کہتا ہوں ،شوکانی کا مقصد اپنے قول ’’تراویح کو کسی معین عدد پر بند کرنا الخ ‘‘ سے یہ نہیں کہ رمضان کی نماز میں معین عدد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں جیسا کہ آج کل بعض لوگوں کا خیال ہے اور ان کا مقصد یہ نہ ہونے کی دلیل وہ قول ہے جو انہوں نے اس سے پہلے فرمایا کہ ’’رہی وہ تعداد جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے الخ‘‘ بلکہ ان کا مقصد نماز کو عد دمعین پر بند نہ کرنے سے وہ ہے جس کی طرف اس عبارت سے پہلے اس قول کے ساتھ اشارہ کیا ’’ لیکن اس نماز کو اس طریقے سے ادا کرنا جس طرح آج کل کرتے ہیں کہ ہر رات خاص تعداد اور خاص قراء ت کی پابندی کرتے تھے تو اس پر کلام عنقریب آئے گا۔ ۱ھ (نیل الاوطار ، ج:۳، ص:۵۲)
اس عبارت میں جس کلام کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ہے جس میں کہا ہے کہ تراویح کو کسی عدد معین پر بند کرنا ۔الخ
N:… شوکانی نے نیل الاوطار میں صاحب المنتقی کے قول : (( وما لک فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث و عشرین رکعۃ )) کی شرح میں فرمایا… قولہ (( بثلاث وعشرین رکعۃ )) ابن اسحاق نے کہا یہ سب سے زیادہ پختہ روایت ہے جو میں نے اس مسئلہ میں سنی اور ضوء النہار میں مصنف کو وہم ہوا پس کہا ہے کہ اس کی سند میں ابو شیبہ ہے حالانکہ بات اس طرح نہیں ہے ۔ الخ۔(ج:۳، ص:۵۳)
میں کہتا ہوں حافظ اور عینی کے کلام میں اس بات کی دلیلیں گزر چکی ہیں کہ ابن اسحاق کا قول ’’کہ یہ سب سے زیادہ پختہ روایت ہے جو میں نے اس مسئلہ میں سنی ‘‘ محمد بن یوسف کی سائب بن یزید سے اس روایت کے بارہ میں ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔ اور ان کا یہ قول یزید بن رومان کی روایت کے بارے میں نہیں ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تئیس رکعت قیام کرتے تھے جیسا کہ شوکانی کو وہم ہوا ہے تو صاحب ضوء النہار کو اپنے اس قول میں وہم ہوا ہے کہ یزید بن رومان کی روایت میں ابو شیبہ ہے اور صاحب نیل کو یہ وہم ہوا ہے کہ انہوں نے ابن اسحاق کا قول (( ھذا اثبت ما سمعت الخ )) یزید بن رومان کی روایت کے حق میں قرار دے دیا ہے حالانکہ اصل معاملہ یہ نہیں ہے ۔ پس غور کر
حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں:
’’بہر حال یہ روایت (گیارہ والی ) ترجیح یا تطبیق کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے اور ترجیح یا تطبیق کے بعد جمہور امت کے مدعا پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا اس لیے کہ ترجیح کے بعد گیارہ کا ثبوت ہی نہیں ہو گا اور تطبیق کے بعد یہ ثابت ہو گا کہ عہد فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہو ااس کے بعد عہد فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہو گیا اور جب سے موقوف ہوا اس وقت سے تیرھویں صدی کے اواخر تک پھر کبھی اس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔‘‘ (ص:۲۴)
… صاحب رسالہ کا بیان ’’اور ترجیح یا تطبیق کے بعد … الخ ‘‘ حافظ ابن عبدالبر مالکی کی بیان کردہ ترجیح اور تطبیق پر مبنی ہے جن کا حال پہلے تفصیلاً گزر چکا ہے تو جب مصنف صاحب کے اس فرمان کی بنیاد ہی انتہائی غلط اور احتمالی ہے تو پھر ان کا یہ فرمان کیونکر درست اور غیر احتمالی ہو سکتاہے ۔ فتدبر
… پہلے آثار بحوالہ بیان ہو چکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب و تمیم داری رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہنے ابی بن کعب اور تمیم رضی الله عنہ پر لوگوں کو جمع کیا پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے ، پھر پہلے یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے امر اور لوگوں کے عمل گیارہ رکعات کو بدلنے کی کوئی دلیل نہیں ، لہٰذا حضرت المؤلف کا دعویٰ ’’عہدِ فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہوا اس کے بعد عہدِ فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہو گیا ‘‘ بے دلیل ہے۔
… حضرت المؤلف کا فرمان :’’اس وقت سے تیرھویں صدی کے اواخر تک پھر کبھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘ بھی مبنی بر حقیقت اور صادر از انصاف نہیں جیسا کہ امام مالک اور ابو بکر بن العربی کے گیارہ رکعات اور محمد بن اسحاق کے تیرہ رکعات اختیار کرنے سے یہ ظاہر ہے نیز تئیس رکعات ، انتالیس رکعات اور اکتالیس رکعات پڑھنے والے گیارہ رکعات پڑھتے رہے ہیں کیونکہ کم عدد زیادہ عدد کے اندر شامل ہوتاہے چنانچہ قاضی شمس الدین صاحب مد ظلہ نے اپنے بعض رسائل میں بیس پڑھنے والوں کے آٹھ رکعات سنت نبویہ کے عامل ہونے کی تصریح فرمائی ہے تو جب سے گیارہ رکعات پر عمل شروع ہوا اس وقت سے لے کر آج تک ان پر عمل موقوف ہوا نہ رہتی دنیا تک موقوف ہو گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پھر جب گیارہ اور تیرہ رکعات پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے عمل کی مہر ثبت ہے تو تیرہویں صدی تو تیرھویں صدی ہے خواہ قیامت تک کے لوگ ان پر عمل در آمد نہ کریں ، ان گیارہ اور تیرہ رکعات کی سنیت کو کوئی طاقت ختم کر سکی نہ کر سکے گی اور بیس رکعات کے سنت نبویہ ہونے کی کسی طاقت نے آج تک ثابت کیا نہ کر سکے گی۔ رہا بیس رکعات کے خلفائے راشدین کی سنت ہونے کا دعویٰ تو اس کے دلائل کا حال بھی پچھلے صفحات میں لکھا جا چکا ہے اسے ملاحظہ فرمائیں۔
… اگر حضرت المؤلف کے اندازِ فکر کو اپنا یا جائے تو پھر ہم بھی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’ بہر حال یہ روایت داؤد بن قیس اکیس رکعات والی ترجیح یا تطبیق کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے اور ترجیح یا تطبیق کے بعد گیارہ رکعات یا تیرہ رکعات پڑھنے والوں کے مدعا پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا اس لیے کہ ترجیح کے بعد اکیس کا ثبوت ہی نہیں ہو گا اور تطبیق کے بعد یہ ثابت ہو گا کہ عہدِ فاروقی میں چند روزاس پر عمل ہوا اس کے بعد عہدِ فاروقی ہی میں اکیس پر عمل موقوف ہو گیا اور لوگ بحسب امر فاروقی گیارہ رکعات پڑھتے رہے ، پھر صاحب رسالہ ہی کے اندازِ فکر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن کی روایت کو بھی حضرت داؤد بن قیس کی روایت پر قیاس فرما لیں ۔ فتامل
حضرت المؤلف لکھتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح قائم کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں گیارہ کا ذکر بھول سے بھی نہیں کیا ، فرماتے ہیں:
(( فلما جمعھم عمر علی ابی بن کعب کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث‘‘ فتاویٰ ابن تیمیہ ۱ھ، ص:۲۴ ))
’’ترجمہ:… پس جب عمر نے انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہپر جمع فرما دیا تو وہ انہیں بیس رکعات اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
اولاً:… صاحب رسالہ کے کلام میں مذکور ترجیح یا تطبیق کو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح قائم کرنے کے بیان میں گیارہ رکعات کے ذکر نہ کرنے کی وجہ بنانا اور بتانا بے دلیل ہے اور جو قول فتاوی ابن تیمیہ سے نقل کیا گیا ہے اس کی دلیل نہیں جیسا کہ اس پر غورو فکر کرنے سے ظاہر ہے جب صورت حال یہ ہے تو پھر اوپر منقول قول صاحب رسالہ کے بیان ’’یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام … الخ ‘‘ میں مذکور حصر و قصر کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔
… شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس مقام پر گیارہ رکعات کا ذکر نہ فرمانے سے نفس الامر اور واقع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہکے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی الله عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینے ، حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی الله عنہ کے گیارہ رکعات پڑھنے اور لوگوں کو عہدِ فاروقی میں گیارہ اور تیرہ رکعات ادا کرنے کی نفی نہیں ہوتی نیز جب حضرت عمر رضی اللہ عنہکا حکم ابی بن کعب و تمیم کا عمل گیارہ رکعات اور لوگوں کا عہدِ فاروقی میں عمل گیارہ اور تیرہ رکعات صحیح آثار سے ثابت ہے تو محض شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول (( فلما جمعھم )) کو لے کر ان صحیح آثار کو رد کرنا کوئی انصاف نہیں۔
و ثالثاً:… پھرشیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول (( فلما جمعھم … الخ)) بظاہرہ حضرت المؤلف کی نقل کردہ تطبیق کی تردید کر رہا ہے ۔ فتدبر
… چونکہ بات شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی چل نکلی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی تحقیق بھی سپردِ قلم کر دی جائے شاید اس ہی سے کسی کا بھلا ہو جائے چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں:
(( قال ابن تیمیۃ الحنبلی: اعلم انہ لم یوقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فی التراویح عددا معینا بل لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ثلاث عشرۃ رکعۃ لکن کان یطیل الرکعات ، فلما جمعھم عمر علی ابی کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ثم یوتر بثلاث و کان یخفف القراء ۃ بقدر ما زاد من الرکعات لان ذالک اخف علی المامومین من تطویل الرکعۃ الواحدۃ ثم کان طائفۃ من السلف یقومون باربعین رکعۃ یوترون بثلاث وآخرون بست و ثلاثین و اوتر و ابثلاث و ھذا کلہ حسن سائغ ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلی الله علیہ وسلم لا یزید ولا ینقص فقد اخطأ۔ ۱ھ (ج:۳، ص:۱۹۳) ))
’’ترجمہ:… ابن تیمیہ حنبلی نے فرمایا: ’’جان لے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے تراویح میں کوئی معین عدد مقرر نہیں فرمایا بلکہ رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ لیکن رکعات کو طویل کرتے تھے ، پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہنے انہیں ابی رضی اللہ عنہپر جمع کر دیا تو وہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے پھر تین وتر پڑھاتے اور قراء ت اتنی ہلکی کر لیتے جتنی رکعات بڑھائی تھیں کیونکہ یہ چیز مقتدیوں کے لیے ایک رکعت لمبی کرنے سے زیادہ آسان تھی۔پھر سلف میں سے کچھ لوگ چالیس رکعت قیام اور تین وتر پڑھتے تھے اور کچھ دوسرے حضرات چھتیس رکعت قیام اور تین وتر ادا کرتے تھے او یہ سب صورتیں اچھی اور جائز ہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قیام رمضان میں کوئی تعداد معین ہے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے اور جسے انسان نہ کم کر سکتا ہے نہ زیادہ تو اس شخص نے خطا کی ۔ انتہی (ج:۳، ص:۱۹۳)‘‘
(( اقول : ان الحافظ ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالیٰ لم ینف فی کلامہ ھذا ثبوت العدد المعین فی التراویح عن النبی صلی الله علیہ وسلم کما توھمہ بعض الناس الیوم ، بل قد اثبت فیہ العدد المعین فیھا عنہ صلی الله علیہ وسلم حیث قال : لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ثلاث عشرۃ رکعۃ۔ وانما نفی فیہ توقیف العدد المعین فیھا عن النبی صلی الله علیہ وسلم وھذا ھو المراد بقول السیوطی: ولو ثبت عد دھا بالنص لم تجز الزیادۃ علیہ ولا ھل المدینۃ والصدر الاول کانوا اورع من ذالک ، وبقول الشوکانی الماضی : فقصر الصلاۃ المسماۃ بالتراویح علی عدد معین… الخ ))
’’میں کہتا ہوں، حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله نے اپنے اس کلام میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلمسے تراویح میں معین عدد کے ثبوت کی نفی نہیں فرمائی جیسا کہ آج کل بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے۔ بلکہ خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے تراویح میں معین عدد یہ کہہ کر ثابت فرمایا کہ رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ نفی صرف اس بات کی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کوئی معین عدد مقرر فرما دیا ہو یہی مطلب سیوطی کے اس قول کا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:’’اگر نص کے ساتھ(صاف لفظوں میں ) اس کی تعداد ثابت ہوتی تو اس سے زیادتی کرنا کبھی جائز نہ ہوتا اور اہل مدینہ اور صدر اول کے لوگ اس سے زیادہ بچنے والے تھے۔‘‘ اور شوکانی کے گزشتہ قول ’’ اس نماز کو جس کا نام تراویح ہے کسی معین عدد پر بند کرنا … الخ ‘‘ کا مطب بھی یہی ہے۔‘‘