سوال: السلام و علیکم یہ مسیار کیا ہے؟ تفصیل سے بتاءیں۔ کیا یہ متعہ کی شکل تو نہیں؟
جواب: یہ نکاح کی ایک ایسی قسم ہے جس میں عورت اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے، عام حالات میں اس نکاح کی حوصلہ افزائی کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے اگرچہ کسی خاص کیس میں کسی خاص صاحب کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: سوال : مسيار شادى كا حكم كيا ہے ؟ الحمد للہ: اللہ سبحانہ و تعالى نے بہت سارے اہداف و مقاصد كے ليے شادى مشروع كى ہے، اس ميں كثرت نسل اور نوع انسانى كى حفاظت اور اولاد پيدا كرنا شامل ہے، اور ان مقاصد ميں عفت و عصمت اور انسان كو فواحش اور حرام كاموں سے محفوظ كرنا بھى شامل ہے. اور ان مقاصد ميں مرد و عورت كے مابين زندگى كے معاملات اور حالات ميں معاونت موانست بھى شامل ہے، اور ان مقاصد ميں خاوند اور بيوى ميں محبت و مودت اور سكينت و طمانيت بھى ہے، اور اس ميں نرمى و عاطفت كے سايہ تلے اولاد كى صحيح اور قوى تربيت بھى شامل ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: اور اس كى نشانيوں ميں ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ). شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " شادى كے نتيجہ ميں مودت و محبت اور رحمت كے اسباب مرتب ہوتے ہيں، چنانچہ بيوى سے استمتاع اور اولاد كى بنا پر لذت اور منفعت اور ان كى تربيت حاصل ہوتى ہے، اور بيوى سے آرام ملتا ہے، اس ليے كسى كے درميان بھى آپ اس طرح كى محبت و مودت اور رحمت نہيں ديكھيں گے جو خاوند اور بيوى كے مابين ہوتى ہے " انتہى ديكھيں: تفسير السعدى ( 1 / 369 ). ان آخرى برسوں ميں ايك ايسى شادى ظاہر ہوئى ہے جسے لوگ زواج مسيار كا نام ديتے ہيں، اور يہ نام عام لوگوں كى زبان پر ہے تا كہ عادى طور پر كى جانے والى شادى سے اس كى تميز ہو سكے. كيونكہ اس شادى ميں مرد بيوى كى جانب وقتا فوقتا جاتا ہے اور اس كے پاس مستقل طور پر نہيں رہتا. اس كى معروف صورت يہ ہے: اس ميں شادى كے سب اركان اور سارى شروط پائى جاتى ہيں، ليكن بيوى اپنے كچھ شرعى حقوق اپنے اختيار اور رضامندى سے چھوڑ ديتى ہے مثلا: نفقہ اور مبيت يعنى خرچ اور رات بسر كرنا. اس طرح كى شادى كرنے كے كئى ايك اسباب ہيں: 1 ـ شادى كى عمر سے زائد كو پہنچ جانے والى عورتوں كى كثرت، اور مطلقات اور بيوہ اور مخصوص حالات والي عورتوں كى كثرت ہونا. 2 ـ بہت سارى بيوياں تعدد يعنى يعنى خاوند كو ايك سے زائد شادياں كرنے كى مخالفت كرتى ہيں، اس كى بنا پر خاوند اس طرح كى شادى كرنے پر مجبور ہوتا ہے تا كہ پہلى بيوى كو اس كا علم نہ ہو سكے. 3 ـ بعض مردوں كا عفت و عصمت كا حصول اور حلال فائدہ حاصل كرنے كى رغبت جو ان كے مخصوص حالات كے موافق ہو. 4 ـ بعض لوگوں كا شادى كے اخراجات اور ذمہ داريوں سے بھاگنا، اس كى وضاحت اس سے ہوتى ہے كہ اس طرح كى شادى كرنے والے كم عمر كى نوجوانوں كى نسبت زيادہ ہے. يہ معلوم ہونا چاہيے كہ نكاح كى يہ صورت ايك مثالى اور مطلوبہ صورت نہيں، ليكن اس كے باوجود يہ اس وقت صحيح ہو گى جب اس ميں شادى كى شروط اور اركان پائے جائيں: مثلا رضامندى، اور ولى اور گواہوں كى موجودگى.... الخ شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى فتوى ديا ہے. اس ليے كہ عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ شرعى طور پر مقرر كردہ اپنے سارے يا كچھ حقوق ساقط كر دے، جن ميں خرچ اور رہائش اور رات بسر كرنے كى تقسيم شامل ہے. صحيح بخارى اور مسلم ميں حديث وارد ہے كہ: " سودہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اپنى بارى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو ہبہ كر دى تھى " اگر شرعى طور پر يہ جائز نہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى بھى اس كو تسليم نہ كرتے، اور ہر وہ شرط جو عقد نكاح كى جوہرى غرض اور اصلى مقصد ميں اثرانداز نہ ہوتى ہو تو وہ شرط صحيح ہے، نہ تو وہ عقد نكاح ميں مخل ہوتى ہے اور نہ ہى اسے باطل كرتى ہے. مجمع الفقھى كا فيصلہ ہے: " مجمع الفقہ الاسلامى كے مكہ مكرمہ ميں منعقد اٹھارھويں اجلاس ميں درج ذيل قرار پاس كى گئى: " مجمع الفقہى اس بات كى تاكيد كرتا ہے كہ شادى كے نئے عقد اگرچہ اس كے نام اور اوصاف اور صورتيں مختلف ہيں كو شريعت مطہرہ كے مقرر كردہ قواعد و ضوابط كے تابع ہونا چاہيے اور اس ميں اركان اور شروط پورى ہوں اور موانع سے خالى ہوں. ہمارے دور عصر حاضر ميں لوگوں نے بعض يہ عقد ايجاد كر ليے ہيں جس كے احكام ذيل ميں بيان ہيں: ايسا عقد زواج جس ميں عورت رہائش اور خرچ اور تقسيم يا كچھ دوسرے حقوق راضى و خوشى ختم كر دے كہ مرد جب چاہے دن يا رات ميں اس كے پاس آ سكتا ہے. اور يہ اسے بھى شامل ہے كہ ايسا عقد نكاح جس ميں عورت اپنے گھر والوں كے ساتھ ميكے ميں ہى رہے اور جب چاہيں دونوں عورت كے ميكے يا كسى اور جگہ مل ليں اس طرح كہ خاوند بيوى كو نہ تو رہائش دے اور نہ ہى خرچ. يہ دونوں عقد اور اس طرح كے دوسرے عقد اس وقت صحيح ہونگے جب اس ميں شادى كے اركان اور شروط ہوں، اور كوئى مانع نہ پايا جائے، ليكن يہ خلاف اولى ہے " اھـ اور اس خاوند نے بعض مصلحتوں كو ثابت كر ليا جو مرد اور عورت دونوں كے ليے ہيں: اس طريقہ پر شادى كرنے والى كچھ عورتيں كہتى ہيں: " اس شادى ميں بہت سارے حقوق كو چھوڑے جاتے ہيں جو كہ عورت صرف اس ليے چھوڑتى ہے كہ وہ كسى ايسے انسان سے شادى كر سكے جس سے وہ راضى ہو كہ وہ اسے كچھ اطمنان اور خوشى اور شخصى آزادى اور مستقبل كى اميديں اور نيك و صالح اولاد مہيا كر سكے، ان حقوق كے چھوڑے جانے كے باوجود ميں اس خاوند پر اعتراض نہيں كرتى اور مطالبہ كرتى ہوں كہ معاشرے ميں اس كے متعلق راہنمائى پھيلائى جائے تا كہ لوگ اس كا معنى اور اس كے اسباب اور حالات اور فوائد و نقصانا تكو سمجھ سكيں " اور ايك دوسرى عورت اس طرح كى شادى كرنے ميں اپنى كاميابى بيان كرتے ہوئے كہتى ہے: ميں اس سے زيادہ سپنے نہيں ديكھ سكتى، اور اللہ نے مجھ پر جو بھى نعمت كى ہے ميں اس كا شكر ادا كرتى ہوں " اور تيسرى عورت جو اس طريقہ پر شادى كر چكى ہے اس كا كہنا ہے: " ميں بالكل صراحت كے ساتھ كہتى ہوں كہ ميرا يہ تجربہ كامياب رہا ہے اور ميں اپنے نفسى استقرار كو پا چكى ہوں، ميرا اعتقاد ہے كہ طرفين ميں مكمل پختگى اور ہم آہنگى كے ہوتے ہوئے معاشرے ميں اس كى تطبيق ممكن ہے، اسى طرح جب عورت معين حالات ميں ہو ( مثلا شادى كى عمر سے زيادہ عمر ، يا پھر بيوہ، يا مطلقہ يا وہ عورت جو مناسب خاوند نہيں پا سكى ) اپنے آپ كو حرام كام ميں پڑنے يا پھر بغير خاوند كے زندگى گزارنے سے محفوظ ركھ سكتى ہے. اور چوتھى كا كہنا ہے: مسيار شادى كا تجربہ قليل سے عرصہ سے كر چكى ہوں ميں كہتى ہوں كہ يہ تجربہ نوے فيصد ( 90 ) كامياب ہے ليكن شرط يہ ہے كہ طرفين متفق ہوں اور ہم آہنگى ہو. ہم يہ انكار نہيں كرتے كہ اس شادى كى وجہ سے كچھ نقصانات بھى ہو رہے ہيں: 1 ـ ہو سكتا ہے اس صورت ميں شادياں كرنے سے متعہ كى ماركيٹ ميں تبديل ہو جائے، اور مرد ايك عورت سے دوسرى عورت كى طرف منتقل ہوتا رہے، اور اسى طرح عورت بھى ايك مرد سے دوسرے مرد كى طرف. 2 ـ خاندان اور فيملى كے مفہوم ميں مكمل طور پر خلل پيدا ہونا، كيونكہ نہ تو مكمل رہائش ہوتى ہے، اور نہ ہى خاوند اور بيوى ميں مكمل مودت و محبت. 3 ـ اس قسم كى شادى ميں عورت مرد كى نگرانى كو نہيں سمجھ سكتى ہو سكتا ہے وہ محسوس كرے كہ مرد اس پر نگران نہيں، جس كے نتيجہ ميں اس كے سلوك ميں خرابياں پيدا ہوں اور اس طرح وہ اپنے آپ كو بھى اور معاشرے كو بھى نقصان دے سكتى ہے. ـ اولاد كى تربيت صحيح اور محكم طريقہ سے نہيں ہو سكتى اور وہ مكمل نشو و نما نہيں كر سكتے، جس سے ا نكى شخصيت پر سلبى اثر ہوگا. ان محتملہ نقصانات كے پيش نظر اور اس صورت كى شادى كے احتمالات كى بنا پر يہ شادى مثالى نہيں ہو سكتى، ليكن بعض حالات اور مخصوص ظروف والے لوگوں كے ليے يہ مقبول رہےگى. واللہ اعلم.