سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(279) کیا اس دور میں بھی عصر کے بعد دو رکعات پڑھی جاسکتی ہیں؟

  • 4710
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1069

سوال

(279) کیا اس دور میں بھی عصر کے بعد دو رکعات پڑھی جاسکتی ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اس دور میں بھی عصر کے بعد دو رکعات پڑھی جاسکتی ہیں اور ان دو رکعات کی ابتدا کب ہوئی۔ کیا یہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور ام المؤمنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہما والی روایت قابل احتجاج ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی صحیح بخاری والی حدیث (( رَکْعَتَانِ لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَدَعُھُمَا سِرًّا وَّلاَ عَلاَنِیَۃً رَکْعَتَانِ قَبْلَ صَلاَۃِ الصُّبْحِ ، وَرَکْعَتَانِ بَعْدَ العَصْرِ ))2[’’ دو رکعتوں کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ پوشیدہ ہویا عام لوگوں کے سامنے صبح کی نماز سے پہلے دو رکعات اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعات۔‘‘] کے پیش نظر یہ بندۂ فقیر إلی اللہ الغنی کہتا ہے، آج بھی عصر کے بعد یہ دو رکعات پڑھی جاسکتی ہیں، کیونکہ نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم سے یہ ثابت ہیں اور آپ کا خاصہ بھی نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ ان دو رکعات کی ابتداء کب ہوئی؟ تو یہ تسلیم کرلینے سے کہ ان کی ابتداء مشغولیت والے واقعہ کے بعد ہوئی۔ آج ان دو رکعات کے پڑھنے کے اثبات کی نفی نہیں ہوتی۔

 تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما عصر کے بعد والی جن دو رکعات کے متعلق فرمارہی ہیں: (( لَمْ یَکُنْ

رَسُولُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم یَدَعُھُمَا سِرًّا وَّلاَ عَلاَنِیَۃً ))اور جن دو رکعات کو وہ خود بھی پڑھا کرتی تھیں وہ دو رکعات اور ہیں۔ اور ام المؤمنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہما مسند احمد وغیرہ والی حدیث میں عصر کے بعد والی جن دو رکعات کو بیان فرماتی ہیں۔ وہ دو رکعات اور ہیں۔ [ اور کریب نے ام سلمہ  رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کیا کہ نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں۔ پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ ]1 ام سلمہ  رضی اللہ عنہما والی مذکورہ بالا روایت کو قابل احتجاج تسلیم کیا جائے خواہ نہ۔ پھر تسلیم کی صورت میں ان قضاء دو رکعات کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا جائے، خواہ نہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی حدیث (( رَکْعَتَانِ لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم یَدَعُھُمَا سِرًّا وَّلاَ عَلاَنِیَۃً رَکْعَتَانِ قَبْلَ صَلاَۃِ الصُبْحِ وَرَکْعَتَانِ بَعْدَ العَصْرِ)) سے ثابت شدہ عصر کے بعد والی دو رکعات پر کوئی زد نہیں پڑتی وہ ثابت ہی ثابت ہیں۔ اور خاصہ بھی نہیں عامہ ہی عامہ ہیں۔

          ہاں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہما کی ابو داؤد والی روایت بوجہ تدلیس ابن اسحاق کمزور ہے۔ (( أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْعَصْرِ ، وَیَنْھٰی عَنْھَا )) [ ’’ بے شک رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعات پڑھتے اور اس سے منع کرتے تھے۔ ‘‘]

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے