آپ کا ایک رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں فتویٰ پڑھا اور دوست احباب کو بھی دکھایا۔ آپ نے حدیث (( اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلوٰۃِ قَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ عَلٰی شِمَالِہٖ )) 2کے عموم میں تخصیص تو ثابت کردی، مگر دوست کہتے ہیں نماز میں ہاتھوں کی صرف چار حالتیں احادیث سے ثابت ہیں:
(۱) قیام اول میں سینے پر ہاتھ باندھنا۔ (ـ۲) رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پررکھنا یا پکڑنا۔ (۳) سجدہ میں ہاتھوں کو کندھوں یا چہرے کے برابر زمین پر رکھنا۔ (۴) جلسہ اور تشہد میں ہاتھوں کو گھٹنوں یا ران پر رکھنا۔
ان چاروں کے علاوہ اور کوئی حالت نہیں ملی، تو قیام ثانی میں ہاتھوں کو لٹکانے یا چھوڑنے کی کیا دلیل؟
محترم شیخ1 اس مسئلہ میں جو عمل سنت سے قریب تر ہو، مع دلیل لکھ بھیجیں آپ کا شاکر ہوں گا۔
(فیضان کمال)
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ چھوڑنے نہ باندھنے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس قیام میں ہاتھ باندھنے کا ثبوت نہ ہونا۔ دیکھئے نمازِ جنازہ کے اندر میت کے لیے دعاء رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر دعا بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اب کوئی شخص اگر کہے کہ نمازِ جنازہ سے سلام پھیرنے کے بعد اور دفن سے قبل بھی دعا کرنا چاہئے اور کرے۔ اور دلیل یہ پیش کرے کہ نمازِ جنازہ میں دعاء اور قبر پر دعا ان دو کے علاوہ کوئی حالت نہیں ملی ، تو آیا اس کی یہ دلیل صحیح ہوگی؟ نہیں1 ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ نہ ملنا دلیل ہے کہ اس مقام پر دعا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ اسی لیے ہم لوگ اس موقع پر دعاء نہیں کرتے۔
تو آپ کے ذکر کردہ چار مقاموں پر ہاتھوں کی کیفیت خاص ثابت ہے۔ لہٰذا ان مقاموں میں اس کیفیت خاص کی پابندی کی جائے گی اور رکوع کے بعد والے قیا م میں وضع باندھنا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ لہٰذا ارسال اور چھوڑنے پر عمل کیا جائے گا۔ عام حالات میں چلتے پھرتے، نماز کے علاوہ کھڑے بیٹھے ہم خاص کیفیت وضع والی اختیار نہیں کرتے، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں تو بس اس مقام پر وضع کا ثابت نہ ہونا ارسال کی دلیل ہے۔ واللہ اعلم۔ ۱۲ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۴ھ