سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) از میں ناف سے اوپر بلکہ سینہ کے اوپر ہمیشہ ہاتھ باندھنا۔

  • 4667
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1277

سوال

(236) از میں ناف سے اوپر بلکہ سینہ کے اوپر ہمیشہ ہاتھ باندھنا۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنحضرتﷺ کا نماز میں ناف سے اوپر بلکہ سینہ کے اوپر ہمیشہ ہاتھ باندھنا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیلعی حنفی نے تخریج ہدایہ میں فرمایا ہے: روی ابن خزیمۃ فی صحیحہ من حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع رسول اللّٰہ ﷺ فوضع یدہ الیمنی علٰی یدہ الیسری علی صدرہ۔یعنی وائل بن حجر سے روایت ہے۔ کہا میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضرتﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں پر سینہ پر رکھا۔ وائل بن حجر گیارہویں ہجری میں حضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دیکھو تاریخ ابن خلدون جلد دوم۔ اُس کے ایک سال بعد حضرتﷺ کا انتقال ہوگیا۔ تو سینہ پر ہاتھ رکھنا ہے آخری فعل ﷺ کا ثابت ہوا۔ علاوہ اس کے صحیح بخاری میں سہل بن سعد سے مروی ہے۔ قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الیدالیمنی علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ یعنی لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں۔ ہاتھ کے پہونچے سے کہنی تک کا نام ذراع ہے۔ جیسا کہ مشہور اور کتابوں میں مذکور ہے۔ اور زیلعی یعنی ہاتھ کبھی صرف پہونچے تک اور کہنی تک۔ قال اللہ تعالیٰ السارق والسارقتہ فاقطعوا ایدیھما۔ یہاں ید سے مراد کہنی تک ہے۔ معنی اول بلا قرینہ اور معنی ثانی قرینہ کے ساتھ مستعمل ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں ید کے معنی ثانی یعنی کہنی تک مراد ہیں۔ کیوں کہ پوری پوری ذراع پر ہاتھ کہنی تک رکھا جاوے گا۔

پس حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دایاں ہاتھ کہنی بائیں ہاتھ پر کہنی تک نماز میں رکھنے کے لیے رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ دونوں ہاتھوں کا اس طرح رکھنا ناف کے نیچے نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اُس کے اوپر ہوسکتا ہے۔ ’’کان الناس‘‘ میں کان دائمہ ہے۔ یعنی لوگوں کو ہمیشہ اسی طرح حکم کیا جاتا تھا۔ منقطعہ ہونے کے لیے کوئی دلیل و قرینہ نہیں۔ کیوں کہ زیر ناف باندھنے کی روایتیں سب ضعیف و مجروح ہیں۔ واللہ اعلم

(ارغام المبتدعین ص ۵)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 310-309

محدث فتویٰ

تبصرے