آنحضرتﷺ کا بوقت رکوع کرنے اور سر اُٹھانے کے ہمیشہ رفع یدین کرنا۔
بلاشک احادیث صحیح قویہ سے رسول اللہﷺ کا نماز میں ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت ہے۔ سنن کبریٰ بیہقی میں ہے۔
عن ابن عمر ان رسول اللّٰہ ﷺ کان اذا افتتح الصلٰوۃ رفع یدیہ واذا رکع واذا رفع راسہہ من الرکوع وکان لا یفعل ذلک فی السجود فما ذالت تلک صلوتہٖ حتی لقی اللہ تعالیٰ۔
یعنی رسول اللہﷺ جب نماز شروع فرماتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے اور سجدوں میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ رفع یدین کے ساتھ ہمیشہ آپ کی نماز رہی یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔ اس روایت کو محقق زیلعی حنفی نے بھی نقل کیا ہے۔ دیکھو زیلعی تخریج الہدایہ ص ۲۱۳ اس کے خلاف کوئی روایت درجہ صحت کو نہیں پہنچی۔ صحاح ستہ میں جس قدر روایات اس بارہ میں ہیں اُن سے دلالۃ اور بیہقی وغیرہ کی روایت سے صراحۃً و وضاحۃً یہ امر یعنی رسول اللہﷺ کا دواماً رفع یدین کرنا ثابت ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
ان رسول اللّٰہ ﷺ کان یرفع یدیہ حذو منکبیہہ اذا افتتح الصلٰوۃ واذا اکبر للرکوع واذا ارفع رأسہ من الرکوع رفعہما کذالک وقال سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد وکان لا یفعل ذالک فی السجود۔
یعنی رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اُٹھاتے اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب اُس سے سر اُٹھاتے تب ہی دونوں ہاتھ اُٹھاتے سجدہ میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ بائیس صحابیوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اُن میں سے پندرہ صحابی کی روایت صحاح ستہ میں موجود ہے۔ باقی مسند امام احمد اور بیہقی و دارقطنی و طبرانی وغیرہ میں ہے۔ اس حدیث سے دوام اس طرح ثابت ہوا کہ عرب کے محاورہ میں جب بولا جاتا ہے کہ ’’ اذا ثبت کذا کان کذا‘‘ ۔ یعنی جب فلاں بات ایسی ہوگی۔ تو وہ کام ایسا ہوگا۔ مراد اس سے ہمیشگی اور دوام ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جس جگہ کوئی کلام بطور مذکور آئی ہے۔ وہاں پر مراد ہمیشگی اور دوام ہے۔ ہاں اگر کوئی قرینہ صارفہ پایا جاوے تو البتہ اُس کی حالت میں ہمیشگی کے معنی مراد نہ ہوں گے۔
کما قال اللّٰہ تعالٰی یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلٰوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الٰی ذکر اللّٰہ۔ فاذا فضتم من عرفات فاذکر اللّٰہ عند المشعر الحرام۔ فاذا قضیتم مناسلکم فاذکر اللّٰہ کذکرکم اباء کم وقال رسول اللّٰہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبر فکبروا الی آخر الحدیث۔
علاوہ اس کے صدہا مثالیں ہیں۔
جس جگہ کہ قرینہ صارفہ کی وجہ سے ہمیشگی مراد نہیں اُس کی مثال یہ ہے:
{ یا ایھا الذین اٰمنوا اذا قتم الی الصلٰوۃِ فاغسلوا الخ }
یعنی جب نماز کا ارادہ کرو تو وضو کرلو۔
یہاں پر ہمیشگی کے معنی مقصود نہیں۔ کیونکہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا ضروری نہیں۔ اس لیے کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بعض اوقات ایک وضو سے کئی نمازیں ادا فرمائیں۔ ’’ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا‘‘ ۔ یہاں بھی ہمیشگی مگراد نہیں۔ کیوں کہ روایت عبادہ بن الصامت ’’ لا تفعلوا الا بام القرآن‘‘ قرینہ صارفہ موجود ہے۔ سنن بیہقی میں اس حدیث پر جو کہ ابھی صحیحین سے نقل کی گئی۔ یہ زیادتی ہے۔ ’’ فما ذالت تلک صلوتہٖ حتی لقی اللہ تعالیٰ۔‘‘ رواہ عن سالم عن ابن عمر۔ یعنی رسول اللہﷺ کی نماز ہمیشہ اسی طور پر رہی یہاں تک کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی۔ واللہ اعلم۔ سوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو رسول اللہﷺ کے ہمیشہ رفع یدین کرنے میں کلام و شبہ ہے۔ گاہِ گاہِ کرنے میں اشتباہ نہیں۔ اسی واسطے اُس نے ہمیشگی کا ثبوت طلب کیا۔ خود رفع یدین کے ہونے نہ ہونے سے بحث نہیں کی۔ اگر اسی قدر اقرار ہو جاوے تب بھی غنیمت ہے۔ (ارغام المبتدعین ص ۳)