سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(232) رکوع میں ملنے سے رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟

  • 4663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 988

سوال

(232) رکوع میں ملنے سے رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رکوع میں ملنے سے رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟ اور امام رکوع کی حالت میں ہو اور مقتدی الحمد پڑھ کر ملجاوے اس صورت میں رکعت ہوگی یا نہیں یا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی ہے۔ لحدیث عبادۃ بن الصامۃ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا صلٰوۃ لمن یقرأ بفاتحۃ الکتاب متفق علیہ اور اگر امام رکوع میں ہے۔ اور مقتدی الحمد پڑھ کر مل جاوے تو یہ فعل مخالف ہے حدیث علی اور معاذ بن جبل کے قال قال رسول اللہ ﷺ اِذَا جاء احدکم الصلٰوۃ والامام علی حال فلیصنع الامام رواہ الترمذی اور مخالف ہے حدیث ابن ابی لیلیٰ کے وفیہ حتی جاء معاذ قال لا اراہ علی حال الا کنت علیھا قال فقال ان معاذًا قد سَنَّ لکم سنۃ کذالک فافعلوا رواہ ابوداؤد۔

کتبہ مولانا محمد بشیر عفی عنہ سہسوانی الجواب صحیح احمد عفی عنہ

الجواب صحیح عبدالرحمن عفی عنہ      الجواب صحیح خلافہ ، قبیحٌ خلیل الرحمن عفی عنہ

وما ذا بعد الحق الا الضلال حررہ السید محمد عبدالحفیظ

ہذا الجواب صحیح سید ابو الحسن

الجواب صحیح سید عبدالسلام   الجواب صحیح ابو محمد عبدالستار حسن العمر فوری

جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ابو البشار امیر احمد سہسوانی عفاء اللہ عنہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی بوجہ فوت ہونے قرأۃ فاتحہ کے جو ہر رکعت میں فرض ہے۔ اور جو نماز کی ایسی رکن اعظم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نماز ہی فرما دیا ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا صلٰوۃ لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب متفق علیہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قال انی سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول قال اللّٰہ تعالٰی قسمت الصلٰوۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث رواہ مسلم مشکوٰۃ ص۷۰۔

کتبہ مولانا حافظ محمد عبداللہ صاحب غازی پوری

سوال کے مطابق خوب تحریر ہوا ہے بیشک مدرک رکوع کے لیے اعادہ رکعت ضروری ہے۔ صرف رکوع میں شامل ہونا کافی نہیں ہوسکتا۔ یہی مسلک تاج المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابن خزیمہ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ صاحب محلی وغیرہم کا ہے۔ اگر تفصیل کی ضرورت ہو تو آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ مفصل طور پر لکھا جائے گا۔

الراقم محمد عبدالجبار عمر پوری کان اللہ لہٗ واصلح عملہ مقیم شہر دہلی

نقل از رسالہ فتویٰ امامیہ شائع کردہ شیخ ابو محمد عمر صاحب پھاٹک حبش خاں دہلی

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 303

محدث فتویٰ

تبصرے