سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(231) ایسی مسجد کے قرب و جوار میں جہاں پنجگانہ اذان نماز و جمعہ ادا کئے جاتے ہوں.

  • 4662
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 934

سوال

(231) ایسی مسجد کے قرب و جوار میں جہاں پنجگانہ اذان نماز و جمعہ ادا کئے جاتے ہوں.
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسی مسجد کے قرب و جوار میں جہاں پنجگانہ اذان نماز و جمعہ ادا کئے جاتے ہوں اور کوئی شخص علیحدہ اپنے مکان میں نماز ادا کیا کرے۔ اذان کی آواز بھی سنتا ہو۔ تارک السنۃ نبوہ ہے یا نہیں ایسے شخص کی نماز مطابق احادیث صحیح ہوتی ہے یا نہیں۔ کوئی عذر شرعی بھی نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شخص مذکور تارک سنت نبویہ ہے۔ بحدیث:

عبداللّٰہ بن مسعودٍ قال لقد ریئتنا وما یتخلف عن الصلٰوۃ الا منافقٌ قد علم نفاقہ او مریض ان کان المریض لیمشی بین رجلین حتی یاتی الصلٰوۃ وقال ان رسول اللّٰہ ﷺ علمنا سنن الھدیٰ وان من سنن الھدی الصلٰوۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ وفی روایۃٍ قال من سرّہ ان یلقی اللّٰہ غدًا مُسلمًا فلیحافظ علٰی ھذہ الصلٰوۃ الخمس حیث ینادی بھن فان اللّٰہ شرعی لنبیکم سنن الھدی وانھن من سنن الھدی ولو انکم صلیتم فی بیوتکم کما یصلی ھذا المتخلف لترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم رواہ مسلم کتبہ (مولانا) محمد بشیر عفی عنہ (سہسوانی)

الجواب صحیح احمد عفی عنہ             الجواب صحیح عبدالرحمن عفی عنہ

الجواب صحیح خلافہ قبیح خلیل الرحمن عفی عنہ وما ذا بعد الحق الاالضلال حررہ سید عبدالحفیظ

ہذا الجواب صحیح سید ابو الحسن         الجواب صحیح سید عبدالسلام

بلا عذر ایسی جماعت چھوڑ کر علیحدہ نماز پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ اور نہ ایسی نماز قبول ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے عہد سعادت میں کھلے ہوئے منافق کے سوا اور کوئی بلا عذر ایسی جماعت سے علیحدہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ایسا مریض جو بغیر دو شخصوں کے اپنے آپ کو مسجد میں حاضر نہیں کرسکتا ہے وہ بھی غیر حاضر نہیں رہتا تھا اور مسجد کے پڑوسی نابینا جن کا کوئی دستگیر نہیں ہوتا ان کا بھی یہ عذر نابینائی مسموع نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ان کو بھی حاضر ہونے کا حکم ہوتا تھا۔ اور خود رسول اللہﷺ اپنے مرض الموت میں اس وقت تک شریک جماعت ہوئے جب تک کہ دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دے کر حاضر مسجد ہوسکتے تھے اور ایسی جماعت میں حاضری کی ایسی سخت تاکید تھی کہ رسول اللہﷺ نے غیر حاضر ہونے والوں کو مع اُن کے گھروں کے پھونک دینے کا مقصد ظاہر فرمایا تھا۔ الحاصل بلا عذر ایسی جماعت چھوڑ کر علیحدہ نماز پڑھنا طریقہ اسلامی کے سراسر خلاف اور موجب ضلالت ہے۔ قال اللہ تعالیٰ ’’ والرکعوا مع الراکعین‘‘ اس کے بعد صحیح بخاری و مسلم و ابوداؤد و دارقطنی کی حدیثیں ہیں بخوف طول کے یہاں پر درج نہیں کی گئی۔  (مولانا حافظ محمد عبداللہ غازی پوری)

الجواب صحیح الراقم ابو محمد عبدالجبار عمر پوری کان اللہ لہٗ اصلح عملہٗ مقیم شہر دھلی

الجواب صحیح ابو البشار امیر احمد سہسوانی عفاء اللہ عنہ

نقل از رسالہ فتویٰ امامیہ طابع شیخ محمد عمر صاحب پھاٹک حبش خاں دہلی

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 303

محدث فتویٰ

تبصرے