سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟

  • 4659
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1031

سوال

(228) مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟ استدلال مستدل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ان دو روایتوں سے ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مدرک رکوع کی رکعت نہیںہوتی ہے اس لیے کہ ہر رکعت میںسورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے: قال رسول ﷺ لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب  متفق علیہ اور جزء القرأۃ للامام البخاری میں ابوہریرہ سے مروی ہے۔ ان ادرکت القوم رکوعالم تعتد بتلک الرکعۃ یعنی اگر تم قوم کو رکوع میں پاؤ تو اس رکعت کو شمار نہ کرو۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ھذا ھو المعروف عن ابی ھریرۃ موقوفا واما المرفوع فلا اصل لہ یعنی یہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوف معروف ہے لیکن یہ روایت مرفوعاً بے اصل ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دونوں روایت مذکورہ سے استدلال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں روایتوں میں رکعت ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ سکوت عنہ ہے پس ان دونوں روایتوں کو ان روایات کی طرف پھیرنا چاہیے۔ جن میں صراحۃً مذکور ہے کہ وہ رکعت نہیںہوتی ہے۔ علاوہ بریں حدیث من ادرک الخ میں رکعت سے رکوع مراد لینا جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ معنی مجازی ہے۔ اور لفظ کا معنی مجازی مراد لینا بلا قرینہ جائز نہیں اور اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیںہے۔ اور ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف بھی ہے۔ واللہ اعلم

مسئلہ

اول وقت میں نماز پڑھ لیناافضل ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے افضل الاعمال الصلوٰۃ لاوّل وقتھا حدیث جبرائیل علیہ السلام جس میں اوّل وقت اور آخر وقت میں دو دن نماز پڑھنا پڑھانا آیا ہے صرف اس لیے تھا کہ امت کو جتلا دیا جائے کہ دوسرے دن والی نماز کے وقت کے بعد نماز نہ ہوگی۔ کیوں کہ وہ اس نماز کا وقت نہیں بلکہ دوسری نماز کا وقت ہے۔ یا کسی نماز فرض کا وقت نہیں۔ پس اس سے یہ دلیل لینا کہ نماز آخر وقت ہی میں پڑھنا افضل ہے یا یہ کہ نماز پڑھنے والا اوّل وقت کو مقرر نہ کر رکھے بلکہ کبھی اوسط وقت کبھی آخر وقت میں پڑھے اور کبھی اوّل وقت میں پڑھے غلط اور باطل محض ہے۔ اگر یہ دلیل لینا صحیح ہوتا تو خود آنجنابﷺ نے جب کہ جبرائیل علیہ السلام نماز پڑھا گئے ہیں سب سے پہلے ایسا کیا ہوتا۔ آپ نے تو اوّل وقت کو ہی مقرر کر رکھا تھا جیسا کہ احادیث کھلے طور پر شہادت دے رہی ہیں۔ کچھ مخفی بات نہیں، حدیث شریف میںآتا ہے۔ ما صلی رسول اللّٰہ ﷺ صلٰوۃ من اخر میقاتھا الامرتین رہا ابداد سو وہ صرف ظہر ہی کے لیے ہے نہ کسی دوسری نماز کے واسطے کہ جس سے ہر نماز کو آخری وقت میں پڑھنے کی دلیل بنایا جاسکے اور ظہر میں ابراد کرنا بھی وہاں ہے جہاں ظہر کو دیر کے ساتھ پڑھنے میں ابراد ہوسکے کیوں کہ آپ نے ظہر کے لیے ابراد کرنے کا حکم دیا ہے۔ نہ تاخیر کا کسی حدیث میں نہیں آیا کہ آخر والظہر من شدۃ الحر۔ بلکہ جہاں فرمایا یہی فرمایا ’’ ابردد باالظہر‘‘ اس سے بھی یہ ہی ہے کہ جہاں ظہر کو دیر کے ساتھ پڑھنے میں گرمی کچھ کم ہو جاتی ہو وہاں ابراد چاہیے نہ کہ ہر جگہ عرب میں علی الخصوص مدینہ منورہ میں ہم نے خود دیکھا ہے کہ پہلا دو پہر حبس رہتا ہے اور زوال کے بعد ہوا شروع ہو جاتی ہے۔ اور جوں جوں گرمی کم ہوتی جاتی ہے۔ جس طرح کہ ہمارے بلاد میں ملتان وغیرہ ہیں اکثر یا ہمیشہ پہلے دوپہر ہوا رہتی ہے اور زوال کے وقت کے آس پاس حبس ہو جایا کرتا ہے۔ اور گرمی جوں جوں تیز ہوتی جاتی ہے ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہمارے بلاد میں ابراد کرنے والا نماز کو مؤخر ہی کر بیٹھتا ہے۔ ابراد نہیں کرسکتا اگر گرمی کو کم کرنا چاہے تو نماز ظہر کو عصر کے اوسط وقت میں پڑھنا پڑے گا۔ اور ظہر و عصر دونوں کو اوّل وقت سے کھو بیٹھے گا۔ اس لیے ہمارے بلاد میں ابراد ہے ہی نہیں عرب ہی میں ہے۔ کیا ان لوگوں کو اتنی حسن نہیں کہ گرما میں تین بجے کے وقت ایک بجے کی نسبت گرمی زیادہ ہوتی ہے پس کیا آنجنابﷺ گرمی شدید ہو جانے کے وقت میں ظہر پڑھنے کو فرمایا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ سمجھ دیوے آمین آنجناب کے فرمان کے صریح خلاف ہے۔ رہا یہ امر کہ اتفاق واجب ہے۔ اور اوّل وقت نماز پڑھنا سنت ہے اور سنت پر واجب مقدم ہے سو یہ خیال بھی غلط ہے۔ اور یہ قیاس باطل ہے شرعاً۔ اس لیے کہ مسلمان کو حکم یہ ہے کہ ’’ واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعًا ولا تفرقوا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی حبل کو ملکر مضبوط پکڑو اور افتراق پیدا نہ کرو۔ بحبل اللہ (دین اللہ) پر اتفاق کرو اور دین اللہ سے جدائی نہ کرو اور دین اللہ یہ ہی ہے کہ جس کام کو شارعﷺ نے افضل جانا وہ افضل ہے اور جو جائز اور مباح جانا وہ جائز اور مباح اور اس سے جدا ہونے والا ہی اتفاق سے نکلنے والا، لیکن جو شخص افضل کو افضل جان کر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس فعل کے ساتھ اس شخص کو اتفاق کی طرف بلاتا ہے۔ جو کہ جائز کو افضل جانتا ہو اور جائز کو افضل جاننے والا افضل کو افضل جاننے والے شخص اتفاق سے نکالنا چاہتا ہے۔ اگر ایسے غلطی میں پڑے ہوئے آدمی کو ساتھ ہو کر یہ سمجھے کہ میں اتفاق پیدا کر رہا ہوں۔ تو اس طرح سے ہوتے ہوئے شریعت محمدیہﷺ کو خیر باد کہہ بیٹھیں گے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اور یہ ظاہر ہے کہ سنت نبویہ پر چلنے والے پر فساد برپا کرنا مسلمان کا کام نہیں، بلکہ اس شخص کا جو سنت نبویہ سے جاہل یا ناواقف ہے اور جاہل کو فرض ہے کہ جہالت سے نکلے۔ رہا سایہ اصلی اگرچہ اس کا ذکر صراحۃ حدیث میں نہیںآیا ہے۔ لیکن یہ حقیقہ حدیث مذکورہ میں ہے۔ اس لیے کہ یہ یقینی امر ہے کہ آپ نے زوال کے بعد کا سایہ مثل ہو جانا فرمایا ہے۔ نہ زوال سے پہلے والے سایہ کا اور سایہ اصل اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال سے قبل موجود ہوتا ہے۔ پس وہ سایہ مثل سایہ میںخواہ مخواہ داخل نہیںہوسکے گا۔ پس حق بات یہ ہے ہمارے سایہ اصلی احادیث شریفہ میںاشارۃً مذکور ہے۔ اگرچہ صراحۃً مذکور نہیں۔ والکنایۃ ابلغ من صراحۃ، حدیث صحیح وہی ہے جس کی اسناد صحیح ہوگی۔ کتاب منحصر نہیں ہے۔ البتہ بخاری و مسلم کے سوا باقی کتب میں احادیث ضعیفہ بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے مقدم بخاری و مسلم ہے۔ وبس رہا مسئلہ اسفار کا سو آنجنابﷺ جس طرح کہ مسلم شریف اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ غلس میں نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔ نیز آنحضرتﷺ کا یہ فرمان افضل الاعمال الصلٰوۃ لاوّلوقتھا۔ ان تمام احادیث پر جب نظر ڈال کر اسفار کی حدیث پر نظر ڈالی جائے تو صاحبِ انصاف آدمی پر یہ صاف روشن ہو جاتا ہے کہ اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر کا معنی یہ ہے کہ فجر نماز پڑھتے پڑھتے روشنی کردو۔ اس سے اجر زیادہ ملتا ہے۔ بطور وجہ کے بتلایا ہے۔ صاف بتلایا ہے کہ یہ ہی معنی ہے اسفار کا کیوں کہ ثواب زیادہ جو ملتا ہے۔ مشقت کی زیادتی پر ملتا ہے۔ اور جس قدر مشقت کم ہو ثواب کم ملتا ہے۔ تو نماز فجر اگر کافی نیند کرکے طلوع آفتاب سے پہلے کافی روشنی کے وقت پڑھی جائے تو اس میں مشقت بہت کم ہے تو آدمی ثواب زیادہ کا حق دار کیوں کر ہوسکتا ہے۔ جب کہ ہر طرح سے اس نے اپنی طبیعت کو خوش کرلیا ہے۔ اور عبادت الٰہی میںکوئی بہت وقت صرف نہیں کیا اور اس کا یہی معنی امام شافعی نے کیا ہے۔ الفجر علی القدر المشقت علماء کا مسلم اور متفق مقولہ ہے۔ اس امر کو یہی مزید ہے کہ خود آنجنابﷺ نے نماز صبح میں سورۂ اعراف پڑھی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سورۂ بقرہ پڑھی حتی کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیا۔ کسی نے کہا تو فرمایا جواب میںاگر سورج نکل آتا تو ہم کو نماز ہی میں پاتا۔ خلاصۃالمرام یہ کہ آخر یا اوسط وقت میں نماز پڑھنے والوں کی رعایت میںاوّل وقت نماز نہ پڑھنا جائز نہیںہوسکتا، ہاں آخر یا اوسط وقت میں نماز پڑھے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اول وقت میں نماز پڑھیں۔ اور اس طرح اتفاق پیدا کریں۔ کمی کی طرف کو اتفاق کے لیے پسند کرنا حماقت یا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حبل اللہ (دین اللہ) کے خلاف ہے کہ انسان افضل کو جائز اور جائز کو افضل اعتقاد کرے۔ زیادہ خریت ہذا والسلام۔

عبدالتواب از ملتان (قلمی)

یہ شیخ الکل حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے تلامذہ میں سے ہیں

متوفی ۱۳ھ

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 298-301

محدث فتویٰ

تبصرے