سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(223) ایک دیوبندی مولوی آیت { واذا قریٔ القراٰن فاستمعوا لہٗ وانصتوا}

  • 4654
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 922

سوال

(223) ایک دیوبندی مولوی آیت { واذا قریٔ القراٰن فاستمعوا لہٗ وانصتوا}
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دیوبندی مولوی آیت { واذا قریٔ القراٰن فاستمعوا لہٗ وانصتوا} کی رو سے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو منع بتاتا ہے کیا اس کا یہ کہنا صحیح ہے؟

 (۲) ہمارے گاؤں کے فجر کی نماز جماعت بہت دیر کرکے شروع ہوتی ہے۔ تقریباً آفتاب طلوع ہونے سے دس منٹ پہلے ہوتی ہے۔ کیا یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(سوال نمبر ۱) اس آیت سے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر دلیل پکڑنی اپنے مذہب اور اصول اور اقوال علماء حنفیہ سے بے خبری اور ناواقفی پر مبنی ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنی چاہیے نہ جہری میں اور اس دعویٰ پر اس آیت سے دلیل پکڑتے ہیں۔ لیکن مولانا عبدالحئی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس آیت سے سری نمازوں میں مطلقاً اور جہری نمازوں میں امام کے سکتوں میں فاتحہ پڑھنے کی ممانعت قطعاً ثابت نہیںہوتی۔ (امام الکلام ص ۱۰۷) اسی طرح اور محققین حنفیہ نے بھی لکھا ہے اور مولوی انور شاہ مرحوم کہتے ہیں واعلم ان الانصات والاستماع یقتصران علی الجھریۃ فان الانصات مقدمۃ للاستماع ومعناہ التھیوللاستماع(فیض الباری ص ۳۴، ۱) آگے چل کر کہتے ہیں:

وقد مرمنی ان الایۃ تقتصر علی الجھریۃ فقط فلا تقوم حجۃ علیھم فی حق السریۃ (ایضاً ص۲۱۹،۱)

علمائے حنفیہ کے باہمی اختلاف کی یہ کیسی افسوس ناک مثال ہے ایک کہنا ہے کہ اس آیت سے دونوں نمازوں میں قرأت فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ اس آیت سے کسی نماز میں بھی ممانعت نہیں ثابت ہوتی۔ تیسرا کہتا ہے صرف جہری میں ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ فیاللعجب۔ مفصل اور مبسوط بحث ’’ تحقیق الکلام‘‘ ہر دو حصہ میں ملاحظہ کیجئے۔ یہاں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔

(۲) اتنی دیر کرکے فجر کی جماعت شروع کرنی آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے دائمی طریقے کے خلاف ہے۔ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین ہمیشہ غلس (تاریکی) میں نماز پڑھتے رہے اور اس قدر دیر کر دینی تو حنفیہ کے بھی خلاف ہے۔ مولوی انور شاہ کہتے ہیں:

وحد الاسفار عندنا ان یفرغ عنھا وقد بقی علیہ من الوقت مالوا عادفیہ صلٰوتہ لعارض وسعہ قبل الطلوع مع رعایۃ السنن ۔

(فیض الباری ص۱۳۴،۱ ) ، محدث دہلی جلد ۹ ش ۵

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 296

محدث فتویٰ

تبصرے