سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(219) امام کے پیچھے کھڑے ہونے کے زیادہ درجہ بدرجہ کون ہے؟

  • 4650
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2510

سوال

(219) امام کے پیچھے کھڑے ہونے کے زیادہ درجہ بدرجہ کون ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل عام طریقہ مساجد میں دیکھا جا رہا ہے کہ وقت جماعت ہر کس و ناکس امام کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے، حالاں کہ مسجد میں اہل علم اور دوسرے حضرات بھی نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہوتے ہیں، بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل جاہل ہوتے ہیں۔ جن کو نہ نماز آتی ہے اور نہ ضروری مسائل گویا ایک طرح کے نومسلم ہیں وہ بھی زبردستی امام کے پیچھے ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر ان کو منع کرو تو سخت ناراض ہوتے ہیں اور ضد کے ساتھ پہلے آکر نشانی رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ امام صاحبان سب برابر ہیں۔ اور کہتے ہیں کہاگر کوئی پہلے آجائے یا نشانی رکھ دے تو ہم منع نہ کریں گے وہ اس کی جگہ ہوگئی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ شرع محمدی میں اس بارے میں کوئی بیان ہو تو صرف قرآن و حدیث سے تحریر کردیں؟ امام کے پیچھے کھڑے ہونے کے زیادہ درجہ بدرجہ کون مستحق ہیں اور امام پر اس بارے میں کوئی ذمہ داری ہے یا کہ نہیں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کے قریب بالغ سمجھ دار لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لیلینی منکم اولو الاحلام والنھی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۔

میرے نزدیک عقل مندوں اور بالغوں کو کھڑا ہونا چاہیے پھر ان کے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں عقل اور بلوغ میں پھر وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں۔  (الحدیث ترمذی)

روضۃ الندیہ میں ہے:

کان رسول اللّٰہ ﷺ یحب ان یلیہ المھاجرو الانصار لیا خدوا عنہ قال فی الحجۃ ولئلا یشت علی اولی اولٰی الارحام تقدم من دونھم علیھم۔

رسول اللہﷺ انصار مہاجرین کو اپنے پاس کھڑے ہونے کو پسند فرماتے تھے۔ علامہ شوکانی نیل الافطار میں اس حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں:

فیہ مشروعیۃ تقدم اھل العلم والفضل لیاخذو عن الامام ویاخذو عنھم غیرھم لانھم احسنھم بضبط صفۃ الصلوٰۃ۔

ان حدیثوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم و اہل فضل امام کے پیچھے کھڑے ہونے کے زیادہ مستحق ہیں امام صاحب کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جس طرح رسول اللہﷺ خیال رکھتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب  مولانا عبدالسلام بستوی

(اخبار اہل حدیث جلد۱، ش ۲۴)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 293

محدث فتویٰ

تبصرے