سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) نمازی اپنا جاتا کہاں رکھے؟

  • 4637
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1494

سوال

(206) نمازی اپنا جاتا کہاں رکھے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آتا ہے جماعت تیار ہے وہ جوتا اُتار کر کہاں رکھے دائیں بائیں، یا آگے کیوں کہ پیچھے رکھنے میں جوتا چوری ہونے کا خطرہ ہے۔ براہِ کرم قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز ادا کرتے وقت جوتا دائیںطرف رکھنا منع ہے البتہ بائیں طرف رکھنا جائز ہے بشرطیکہ بائیں طرف کوئی اورنمازی کھڑا نہ ہوتا کہ جوتا اس کے دائیںطرف نہ پڑے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سائب سے مروی ہے:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِب قَالَ رَایْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّیْ یَوْمَ الْفَتْحِ وَوَضَعَ نَعْلَیْہِ عَنْ یَسَارِہٖ۔ (ابوداؤد مع عون المعبود ص۲۴۶،ج۱ نسائی ص۷۹ج۱)

یعنی حضرت عبداللہ بن سائب کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کو فتح مکہ کے دن دیکھا آپ نماز ادا فرما رہے ہیں اور آپ نے نعلین شریفین کو بائیں پہلو میںرکھا ہوا تھا۔

اس حدیث پر امام ابوداؤد پاؤں کے درمیان فاصلہ میںرکھ لینا چاہیے جیسا کہ حدیث شریف میںہے:

عن ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال اِذا صلی احدکم فلا یضع نعلیہ عن یمینہ ولا عن یسارہ فتکون عن یمین غیرہ الا ان لا یکون عن یسارہ احد ولیضعھن بین رجلین سنن ابی داؤد جلد ۱،ص۹۶۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نمازی اپنا جوتا دائیں بائیں ہرگز نہ رکھے کیوں کہ ایسی صورت میں جوتا دوسرے نمازی کی دائیں طرف میں پڑے گا لہٰذا اسے اپنا جوتا اپنے پاؤں کے درمیانی فاصلہ میں رکھ لینا چاہیے۔

اس حدیث کے ایک راوی ابو معاویہ عبدالرحمن بن قیس الزعفرانی پر امام منذری نے جرح کی ہے مگر امام موصوف کی جرح درست نہیں کیوں کہ یہ راوی زعفرانی نہیں ہیں بلکہ یہ ابو روح عبدالرحمن بن قیس العتکی ہیں جو کہ ثقہ ہیں:

قال الحافظ فی تھذیب التھذیب جلد ۶ ص۲۵۷ اخرجہ بن خزیمۃ وابن حبان فی صحیحھا وقال المنذری فی مختصرہ یُشْبِہُ ان یکون الزعفرانی ولیس کما ظن بان الزعفرانی یصغر عن ادراک یوسف ماھک مرعاۃ شرح مشکوٰۃ ص ۵۰۵ ج۱ لیضعھما بین رجلیہ (۱)

۱:  پاؤں کے درمیان رکھنے سے بہتر ہے کہ کپڑے میں چھپا کر آگے رکھے یا آج کل مسجدوں میںکھوکھے رکھے ہوتے ہیں ان میں جوتا چھپ جاتا ہے اور محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ یہ حدیث نماز جنازہ کے لیے مخصوص ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ نماز میںسجدہ اور تشہد نہیں۔ عام نمازوں میں جوتا پاؤں کے درمیان رکھنا تکلیف مالایطاق ہے۔  (توضیح المرام)

کے ذیل میںملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں قدامہ اذا کان علی یسارہ احدٌ مرقاۃ جلد ۱، ص ۴۸۴ یعنی جب کہ اس کے بائیں پہلو میں دوسرا نمازی بھی ہو، تو جوتا اپنے آگے رکھ لے۔ وانما لم یقل او خلفہ لئلا یقع قدام غیرہ اولئلا یذھب خشوعہ لاحتمالٍ ان یسرق مرقاۃ ص۴۸۴ جلد۱۔ یعنی آنحضرتﷺ نے جوتے کو پیچھے رکھنے کا حکم اس لیے نہیںدیا تاکہ وہ کسی دوسرے نمازی کے آگے نہ آجائے یا چوری ہونے کے احتمال سے خشوع درہم برہم نہ ہو جائے۔

مولانا عبید اللہ حنیف فیروز پوری مسجد چینیاں والی لاہور

الاعتصام جلد ۲۴ ش ۳۹

توضیح المرام

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک جوتا پہن کر نماز پڑھنا سنت ہے اور جوتا اتار کر بھی لیکن جوتا اتار کر نماز پڑھنا نماز کی اصلی ہیئت ہے۔ اور جوتا سمیت نماز پڑھنا بوقت ضرورت سنت ہے۔ جیسا کہ موزے اور جو رابوں پر بوقت ضرورت مسح کرنا مسنون ہے اور بلا ضرورت کوئی موزے پہنتا ہی نہیں اسی طرح بوقت ضرورت جوتا پہن کر نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ بالظھائر سجدنا علٰی ثیابنا اتقاء الحرمتفق علیہ مشکوٰۃ ص۶۰ ۔ یعنی رسول اللہﷺظہر کی نماز اتنی اول وقت ادا فرماتے کہ ہم لوگ گرمی کی وجہ سے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے چوں کہ مسجد نبوی میں سب کے لیے سایہ کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اشتدادِ گرمی کی وجہ سے ننگے پاؤں سنگ ریزوں پر کھڑے ہو کر طول قیام دشوار تھا۔ نماز ظہر میں آپ کا طول قیام مشہور بھی ہے۔ اس لیے بوقت ضرورت جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت فرمائی۔ مسجد میںجبکہ سایہ کا پورا انتظام ہو، پنکھے چل رہے ہوں، نیچے صفوں اور دریوں کا انتظام ہو تو اس وقت جوتا اُتار کر نماز پڑھنا مسنون ہے۔ جوتا اگرچہ پاک ہوتا ہے لیکن گرد و غبار سے آلودہ ہوتا ہے۔ اس لیے صفیں اور دریاں ایک دو نمازوں میں غبار آلودہ ہو جائیں گی۔ اور مسجد کو صاف رکھنا ایمان کی جزو ہے۔ بلکہ مسجد کو صاف کرنے کی بنا پر ایک مرد کو جنتی فرمایا ہے۔ ہذاما عندی واللہ اعلم الراقم علی محمد سعیدی خانیوال

سوال:… کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے صبح دو فرض شروع کئے، وہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات میں بیٹھ گیا کیا وہ دوسری رکعت میں تشہد کرے یا نہ کرے کیا اس پر سجدہ سہو لازم آتا ہے یا نہ؟ سائل عزیز الرحمن خطیب جامع اہلحدیث بستی چھٹہ ضلع ملتان

الجواب:… دوسری رکعت میں تشہد اور سجدہ سہو کرے لِکُلِّ سَھْوٍ سَجْدَتَانِ الھدیث۔ مسند ابوداؤد و ابن ماجہ۔

ابو سعید محمد شرف الدین دہلوی

(منقول از قلمی مسودہ)

مولانا عزیز الرحمن جامع اہل حدیث بستی چھڈ ضلع ملتان

 

 

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 04

تبصرے