سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) بے نمازی کے یہاں کا کھانا پانی اور اس کے ساتھ کھانا

  • 4619
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3263

سوال

(188) بے نمازی کے یہاں کا کھانا پانی اور اس کے ساتھ کھانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عمرو کہتا ہے کہ بے نمازی کے یہاں کا کھانا پانی اور اس کے ساتھ کھانا اور مصاحبت جائز و درست نہیں، تاوقتیکہ کہ نمازی نہ ہو جاوے، خالد اور اس کے تابعین کہتے ہیں کہ بے نمازی بھی مخلوق خدا سے ہے، سب کے یہاں کا کھانا پانی اور سب کے ساتھ کھانا پینا درست و جائز ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عمرو اور خالد کی باتوں میں سے کس کی بات صحیح اور کس کی غلط؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے نمازی کے یہاں کا کھانا اور پانی حرام نہیں ہے۔ مگر چونکہ بے نمازی اسلام کے ایک رکن اعظم یعنی نماز کا تارک ہے جو کفر اور ایمان کے درمیان میں مابہ الفرق ہے۔ اور اسی ترک نماز کی وجہ سے بے نمازی بہت سے علماء کے نزدیک کافر ہیں۔ اور بعض احادیث سے بھی اس کا کافر ہوناثابت ہوتا ہے۔ اور اس کے نہایت درجہ کے فاسق ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کے یہاں کھانا نہیں چاہیے مشکوٰۃ شریف میں عمران بن حصین سے روایت ہے۔ نھی رسول اللہ ﷺ عن اجابۃ طعام الفاسقین۔ یعنی رسول اللہﷺ نے فاسقین کی دعوت قبول کرنے اور ان کے یہاں کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے اور بے نمازی سے ملنے جلنے اور اس کے ساتھ مصاحبت رکھنے کی بات یوں ہے کہ اس کے سمجھانے اور نصیحت کرنے کی غرض سے اس مصاحبت و مخالطت جائز ہے، پس اگر وہ سمجھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دی اور نماز پڑھنے لگا فبھا اور اگر باوجود سمجھانے اور نصیحت کرنے کے بھی نماز نہیں پڑھتا، تو اب اس کی مصاحبت و مخالطت سے احتراز چاہیے۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے:

عن عبداللہ بن مسعود قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لما وقعت بنو اسرائیل فی المعاصی نھتھم علماؤھم فلم ینتھو افجالسوھم فی مجالسھم واکلوھم وشاربوھم فضرب اللّٰہ قلوب بعضھم ببعض فلعنھم علی لسان داؤد عیسیٰ بن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون الحدیث رواہ الترمذی وابوداؤد۔

یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل معاصی میں پڑے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا، سو وہ باز نہ آئے پھر ان کے علماء نے ان کے ساتھ مجالست و مصاحبت کی اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ مارا اور داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ان کو لعنت کی، اور یہ اس سب سے کہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے ۔ روایت کیا اس حدیث کو ترمذی اور ابوداؤد نے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہٗ اتم

حررہ سید محمد نذیر حسین   

(فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل ص ۵۷۱)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 271

محدث فتویٰ

تبصرے