کیا صلوٰۃ التسبیح رسول اللہﷺ سے ثابت ہے یا خیر قرون سے کوئی اثر ملتا ہے اگر کوئی باجماعت ادا کرتا ہے۔ تو وہ بدعتی ہے؟ اور جو جماعتِ جواز کے قائل ہیں ان کے دلائل کو بھی ملحوظ رکھ کر فیصلہ فرمائیں؟
صلوٰۃ التسبیح کے متعلق مشکوٰۃ وغیرہ میں ضعیف حدیث آئی ہے اور ضعیف حدیث کے متعلق محدثین احمد وغیرہ کا فیصلہ ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث معتبر ہے۔ حلال و حرام میں اس کا اعتبار نہیں۔ چوں کہ تسبیح نماز کچھ فضائل اعمال کی قسم سے ہے۔ اس لیے اس پر عمل جائز ہے۔ لیکن اس کا اہتمام کرنا یہاں تک کہ جماعت سے ادا کرنا اور جماعت کی طرف دعوت دینا یہ بدعت ہے۔ جو عمل جس حالت پر آئے تو اس سے اس کا مرتبہ بڑھانا نہیں چاہیے۔ اس کے علاوہ جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی گنتی تنہا پڑھنے میں ہوتی ہے۔ جماعت کے ساتھ پڑھنے میں کمی بیشی ہونے کا ہر وقت کھٹکا رہتا ہے۔ مسنون طریقہ تسبیحات کا آہستہ کہنا ہے۔ چنانچہ ہر نماز میں آہستہ کہی جاتی ہیں۔ اس صورت میں امام کو کیا پتہ کہ میری تسبیحات کے ساتھ مقتدیوں کی تسبیحات پوری ہوگئی ہیں۔ اور پھر مقتدیوں میں کوئی جلدی پڑھنے والا ہوتا ہے۔ کوئی آہستہ کسی کی زبان موٹی ہوتی ہے۔ وہ بہت دیر میں پوری کرتا ہے۔ بلکہ اس صورت میں جہر ہو تب بھی حساب پورا ہونا مشکل ہے۔ خاص کر جو جو لوگ امام سے دور ہیں۔ جہاں آواز پہنچنی مشکل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز تسبیح میں جماعت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔
عبداللہ امرتسری روپڑی
(فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲، ص ۳۹۲)