سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) اوقات کراہت میں نماز تحیۃ المسجد ادا کرنا بہتر یا اسے ترک کرنا؟

  • 4586
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1027

سوال

(155) اوقات کراہت میں نماز تحیۃ المسجد ادا کرنا بہتر یا اسے ترک کرنا؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اوقات کراہت میں نماز تحیۃ المسجد ادا کرنا بہتر یا اسے ترک کرنا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں بڑے بڑے فحول علماء اصول بھی متحیر و متوقف ہیں۔ اس لیے کہ احادیث عام ہیں اور سب اوقات کو شامل ہیں انہیں اوقات میں کراہت اوقات بھی ہیں۔ دوسری طرف اوقاتِ مخصوصہ میں ہر قسم کی نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ نہی صلوٰۃ تحیۃ المسجد کو بھی متضمن ہے۔ پس ان احادیث میں عموم من وجہ کی نسبت ہے۔ چنانچہ اوقات غیر مکروہ میں احادیث تحیۃ خاص ہیں۔ اور ان نمازوں کے متعلق کہ جو تحیۃ المسجد نہیں احادیث نہی خاص ہیں اور ایک ہی لحاظ سے دونوں عام ہیں۔ اس لیے ترجیح دینے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔ اور ترجیح ممکن نہیں کہ دونوں طرف صحیحین کی احادیث ہیں۔ ہر دو متعدد طرق سے ثابت ہیں۔ اور نہی یا نفی بمعنی نہی کے الفاظ پر مشتمل۔ اس لیے صحت متن یا سند اور تعدد طرق کے علاوہ اگر ترجیح ممکن ہو تو معاملہ حل ہو جائے۔

شوافع احادیث تحیۃ کے عموم پر عمل پیرا ہیں دوسری طرف احناف، لیث رحمہ اللہ، اوزاعی رحمہ اللہ احادیث نہی در اوقاتِ مکروہہ کے عموم کو ترجیح دیتے ہیں لیکن سب بلا دلی۔ شوافع کہتے ہیں کہ وہ نمازیں جو کسی سبب پر موقوف ہیں (مثلاً کسوف وغیرہ) وہ جائز ہیں۔ مثلاً آنحضرتﷺ نے نماز عصر کے بعد ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ لیکن یہ دلیل صالح الاحتجاج نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسند احمد رحمہ اللہ میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے سوال کیا کیا ہماری بھی اگر یہ رکعتیں فوت ہو جائیں تو اس وقت میں پڑھ لیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا ’’ نہیں‘] معلوم ہوا کہ یہ امر آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ بالفرض خاص تسلیم نہ کریں۔ تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ نماز عصر کے بعد ظہر کی دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تمام ذوات الاسباب نمازیں جائز ہیں۔ ان دو رکعتوں پر باقی نمازوں کو قیاس کرنا اگر درست بھی ہو تو صرف انہیں حضرات کے نزدیک اسے عموم نہی سے خاص قرار دیا جائے گا۔ جو اس طرح تخصیص کو جائز سمجھتے ہوں۔ لیکن اسی حدیث میں دلیل ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اگرچہ بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن سنن ابوداؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اس کی موید ہے۔ انہا قالت کالت کان یصلی بعد العصر وینھی عنھا یعنی آپ نماز عصر کے بعد کچھ نماز پڑھتے لیکن دوسروں کو منع کرتے۔

البتہ سنن ابوداؤد میں یزید بن اسود کی حدیث ہے۔ اس سے عموم نہی کی تخصیص ممکن ہے حدیث یوں ہے:

قال شھدت مع النبی ﷺ حجۃ فضیلت معہ صلوٰۃ الصبح فی مسجد الخیف فلما قضی صلوٰتہ انحرف فاذا ھو برجلین فی اخر القوم لم یصلیا فقال علی بھما فجئی بھما ترتعد فرائصھما فقال ما منعکما ان تصلیا فقالا یا رسول اللّٰہ ﷺ انا کنا قد صلینا فی رحالنا قال فلا تفعلا اذا صلیتما فی رحالکما ثم اتیتما مسجد جماعۃ فصلیا فانھا لکما نافلۃ:

یزید بن اسود کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کے ساتھ حج کیا۔ مسجد خیف میں آپﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپﷺ نے دو آدمیوں کو دیکھا۔ ان سے پوچھا تم نے نماز کیوں نہ پڑھی انہوں نے بتایا کہ ہم اپنے خیموں میں پڑھ آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ مناسب نہیں، جب تم اپنی نماز پڑھ لینے کے بعد مسجد میں جماعت پاؤ تو پڑھ لیا کرو، یہ نقل ہو جائے گی۔ اس حدیث میں اس طرح باجماعت نفل ادا کرنے کا جواز موجود ہے۔ البتہ اس نماز پر بھی تحیۃ المسجد کو قیاس کرنا درست نہیں۔ ان آدمیوں کو نماز کا حکم اس لیے دیا گیا کہ نماز باجماعت کے پاس بیٹھنا بہت بُرا معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ان سے پہلے پوچھا! مسلمان انتما ’’ مسلمان ہو۔‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کہ دارقطنی کے علاوہ ابو نعیم، طبرانی اور خطیب نے بھی تلخیص میں روایت کی ہے۔ اس عموم نہی کی مخصص ہوسکتی ہے۔ حدیث یوں ہے:

قال النبی ﷺ یا بنی عبدالمطلب ویابنی عبدالمناف لا تمنعوا احدا یطوف بالبیث ویصلی فانہ لا صلٰوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولا بعد العصر حتی تغرب الشمس الا عند ھذا البیت یطوفون ویصلون۔

اے بنی عبدالمطلب اے بنی عبدالمناف کسی کو بیت اللہ کے طواف یا اس میں نماز پڑھنے سے کسی وقت بھی نہ رکو۔ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نہیں ہوتی۔ لیکن بیت اللہ اس سے مستثنیٰ ہے ۔ انہیں طواف کرنے دو، نمازیں پڑھنے دو۔ اس حدیث کو اگرچہ حافظ نے تلخیص میں معلول قرار دیا ہے۔ لیکن سنن اربعہ، ابن خزیمہ، ابن حبان اور دارقطنی میں جبیر بن معطم کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

اسی طرح دارقطنی میں جابر رضی اللہ عنہ اور ابن عدی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات بھی اس کی تاکید کرتی ہیں۔ یہ اشکال صرف تحیۃ المسجد ہی میں نہیں بلکہ ہر اس چیز میں ہے کہ جس کی دلیل من وجہ عام اور من وجہ خاص ہو۔ مثلاً نماز جنازہ صلوٰۃ کسوف ظہر کی دو رکعتیں نماز استخارہ وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے کسی خارجی دلیل کی دستیابی تک توقف ہی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اوقاتِ مکروہہ میں آدمی مسجد میں نہ جائے۔ اس لیے کہ ایک طرف وجوب تحیۃ المسجد کی احادیث ہیں تو دوسری طرف ان اوقات میں نماز نہ پڑھنے کا حکم۔ چنانچہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ ہم نے اس مسئلہ پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے، اوقاتِ کراہیہ مطلق تحریم پر دال ہیں۔ لہٰذا ایسے اوقات میں مسجد میں آنے والا دو میں سے ایک منہی عنہ کا مرتکب ہوگا۔ وفی ہذا لمقدار کفایۃ لمن لہٗ ہدایہ واللہ اعلم بالصواب

الدلیل الطالب علی ارجح المطالب ص ۳۶۰


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 245-247

محدث فتویٰ

تبصرے