سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) ایک شخص سنتیں پڑھ رہا تھا۔ جماعت کھڑی ہوگئی..الخ

  • 4578
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1267

سوال

(147) ایک شخص سنتیں پڑھ رہا تھا۔ جماعت کھڑی ہوگئی..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص سنتیں پڑھ رہا تھا۔ جماعت کھڑی ہوگئی۔ ایسی صورت میں کیا وہ نیت توڑ دے یا سنتوں کو پورا کرکے جماعت میں شرکت کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی صورت میں نماز کی نیت توڑ دینی چاہیے کیوں کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد کوئی دوسری نماز شروع کرنا یا پڑھتے رہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

اذا اقیمت الصلٰوۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ۔ (ترمذی)

بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں۔ الا المکتوبۃ التی اقیمت یعنی جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو پھر اس نماز کے سوا جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔ دوسری کوئی نماز جائز نہیں ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسی حالت میں لوگوں کی نیت تڑوا دیتے تھے۔ بعض لوگ فجر کی سنتوں کو جماعت کے ہوتے ہوئے پڑھتے رہتے ہیں۔ گھر سے مسجد میں آئیں یا وضو سے فارغ ہوں تو فرض نماز کو چھوڑ کر سنتیں پڑھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ان سنتوں کو فرض سے پہلے پڑھنے کی اس درجہ کوشش کی جاتی ہے کہ اگر امام التحیات میں ہے تو وضو میں دیر کریں گے۔ اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد علیحدہ نماز پڑھنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ طریقہ کار شریعت مطہرہ کے بالکل خلاف ہے۔ مشہور ہے کہ فجر کے فرضوں کے بعد سجدہ حرام ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رات کے فرشتے امام کے سلام پھیرتے ہی نامہ اعمال لپیٹ کر لے جاتے ہیں اور سنتیں نامچہ میں شامل نہیں ہوتی اس لیے ان سنتوں کو فرضوں سے پہلے پڑھنا ضروری ہے یہ من گھڑت باتیں ہیں۔ احادیث میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ طریقہ فقہ حنفیہ کے خلاف ہے۔ امام قرآن پڑھ رہا ہے اور یہ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ اس موقعہ پر آیت کریمہ { اذا جاء احدکم فی المسجد والامام یصلی فلیفعل بما یفعل الامام}یعنی جو شخص مسجد میں آئے اور امام نماز پڑھا رہا ہو تو آنے والے کو فوراً اس رکن میں شریک ہو جانا چاہیے جس کو امام ادا کر رہا ہے۔ صحیح مسئلہ یہی ہے کہ عصر اور فجر کے فرضوں کے بعد کوئی نماز جائز نہیں ہے۔ (یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے یا طلوع ہو جائے۔) مگر فوت شدہ نماز ان دونوں فرضوں کے بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں جیسا کہ امام ترمذی نے لکھا ہے۔ وھو قول اکثر الفقھاء من اصحاب النبی ﷺ ومن بعدھم انھم کرھو الصلوٰۃ بعد صلوٰۃ الصبح حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تعزب الشمس واما الصلٰوۃ الفوائت فلا باس ان تقضٰی بعد العصر وبعد الصبح ایک صحابی فجر کے فرضوں کے بعد نماز پڑھنے لگے حضرت کے دریافت کرنے پر صحابی نے عرض کیا کہ فرضوں سے پہلے سنتیں نہیں پڑھی تھیں ان کو اَب پڑھ رہا ہوں، حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اذالا باس‘‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مولانا عبدالسلام بستوی شیخ الحدیث ریاض العلوم دہلی ترجمان دہلی ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۲ء ۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 237

محدث فتویٰ

تبصرے