سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) مزدلفہ کے علاوہ بھی کسی جگہ نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ یا نہیں؟

  • 4570
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1161

سوال

(139) مزدلفہ کے علاوہ بھی کسی جگہ نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مزدلفہ کے علاوہ بھی کسی جگہ نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مزدلفہ میں جمع کرنا ثابت ہے اسی طرح سفر میں جمع تاخیر صحیح وغیر ھما کی روایات سے ثابت ہے اور جمع تقدیم صحیحین میں نہیں البتہ دوسری کتب حدیث کی روایات سے ثابت ہے۔ اور یہ روایات درجہ صحت تک پہنچ جاتی ہیں۔ اسی طرح بارش کے لیے بھی جمع کرنا ثابت (۱) ہے۔ البتہ بلا عذر جمع کرنا معرکۃ الآراء مسئلہ ہے، ہر زمانے میں خاص طور پر اس زمانے میں اس پر بہت سے رسائل لکھے گئے ہیں۔

۱:  بارش میں جمع تقدیم کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں صرف استدلال یا بعض تابعین کا تعامل ہے جو نص صریح کے مقابل حجت نہیں۔ سعیدی

جو لوگ مطلق جواز کے قائل ہیں وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں جو صحیحین میں باین الفاظ دارد ہے۔

ان النبیﷺ بِالمدِیْنَۃِ سَبْعًا وَثَمَانِیًا الظھرو العصر والمغرب والعشا۔

مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی، نسائی اور ابوداؤد میں بایں الفاظ مروی ہے۔ جمع بین الظھر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ من غیر خوفٍ ولا سفر یعنی آپ نے بلا خوف اور بلا سفر نمازیں جمع کیں۔ جمہور کی طرف سے اس کے بہت سے جواب دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرت نے بوجہ مرض ایسا کیا، لیکن ایسی صورت میں اس کا ذکر دینا چاہیے تھا۔ نیز آنحضرتﷺ نے صحابہ کی معیت میں ایسا کیا، تعجب ہے کہ نووی رحمہ اللہ نے اس جواب کو قوی قرار دیا ہے۔ بعض نے یہ جواب دیا کہ بادل کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو بادل چھٹا معلوم ہوا کہ نمازِ عصر کا وقت ہوچکا ہے۔ ظاہر یہ جواب تکلفات سے معمور ہے حالاں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کیا ہے کہ امت تنگی میں نہ پڑے، اگر بادل کا قصہ درست ہے۔ تو اس قول کا مطلب کیا ہوگا، ایک جواب یہ ہے کہ جمع حقیقی نہ تھی صوری تھی اس جواب کو نووی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس جواب کو نووی رحمہ اللہ ضعیف قرار دے رہے ہیں قرطبی نے اسے مستحسن قرار دیا۔ امام الحرمین نے اسے راجح کہا۔ ابن ماجشون اور طحاوی نے اسے پسند کیا۔ ابن سید الناس نے اسے قوی قرار دیا۔ انہوں نے تصریح کی ہے کہ ابو الشعثاء کہ جو اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ بھی اسے جمع صوری قرار دیتے ہیں۔ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسی توجیہہ کو ترجیح دی ہے پھر نسائی کی ایک روایت میں صراحت بھی موجود ہے۔ صلیت مع النبی ﷺ الظھرو العصر جمیعًا والمغرب والعشاء جمیعا اخر الظھر وعجل العصر واخر المغرب وعجل العشاء یعنی آپﷺ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء جمع کیں، ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کیا۔ اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے۔ نیز حضرت جبریل کی حدیث اور اس پر مزید آنحضرتﷺ کا زندگی بھر کا عمل کہ ہر نماز اس کے اپنے وقت پر پڑھی جاتی تھی، پھر بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہیں کہ یہ جمع صوری تھی۔ اس کے علاوہ صحیحین میں عمرو بن دینار سے منقول ہے کہ انہوں نے ابو الشعثاء سے پوچھا: اظنہ اذا لظھر وعجل العصر واخر المغرب وعجل العشاء قال وانا اظنہٗ۔ یعنی میرا خیال ہے آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہوگا۔ اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرلیا ہوگا۔ ابو الشعثاء نے کہا ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔ اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بخاری، مؤطا امام مالک، نسائی اور ابوداؤد میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا ما رایتُ رسول اللّٰہ ﷺ صلوٰۃ بغیر میقاتھا الا صلواتین جمع بین المغرب والعشاء بالمزدلفۃ کہ میں نے آنحضرتﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے وقت کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہو البتہ مزدلفہ میں دو نمازیں پڑھیں مغرب اور عشاء کو جمع کیا کے پڑھا۔ (دوسری فجر کہ اسے وقت سے پہلے پڑھا) یاد رہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی مدینہ میں جمع صلوتین کی حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ اب اس روایت اور دوسری روایات جمع فی المدینہ میں تعارض ختم کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اس جمع کو جمع صوری قرار دیدیا جائے ابن جرید کی یہ روایت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ عن ابن عمر قال خرج علینا رسول اللّٰہ ﷺ فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینھما یعنی ظہر کو تاخیر سے اور عصر کو جلدی پڑھا اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کیا اور جمع کرکے پڑھا۔ ظاہر ہے یہ جمع صوری ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان صحابہ میں سے ہیں جو جمع فی المدینہ کے راوی ہیں لہٰذا کوئی اشکال باقی نہ رہا۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جمع صوری شارع علیہ السلام سے وارد نہیں تو غلط فہمی میں ہے آنحضرتﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے مستحاضہ کو کہا وان قویت علی ان تؤخری الظھر وتعجل العصر فتغتسلین وتجمعین بین الصلوتین اگر تو ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کرکے غسل کے بعد ان دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھ سکے (تو ایسے کرے) اسی طرح مغرب اور عشاء کے متعلق فرمایا۔ یہ حدیث ثابت ہے اور حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ یہ بلاشبہ جمع صوری ہی ہے۔ خطابی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اسے جمع صوری پر محمول کرنا درست نہیں اس لیے کہ اس طرح نمازوں کو ان کے وقت میں پڑھنا بہت مشکل ہے عوام تو کجا خواص بھی اس کو محسوس نہیں کرسکتے اس لیے یہ سہولت کی بجائے تنگی ہے۔ لیکن خطابی رحمہ اللہ کا یہ کہنا درست نہیں اس لیے کہ آپﷺ نے اوقاتِ نماز بمعہ علامات اس وضاحت سے بتائے ہیں کہ عوام و خاص ان سے مطلع ہیں اور انہیں آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ نیز سہولت یہ ہوگی کہ دو بار کی بجائے ایک ہی دفعہ نماز کی تیاری کرنا پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کا حکم اور آنحضرتﷺ کا ساری حیاتِ طیبہ کا عمل یہی ہے کہ نماز اوّل وقت میں پڑھی جائے لیکن اس جمع صوری سے آپﷺ نے امت کے لیے سہولت کردی کہ نمازوں میں سے کسی کا وقت بھی فوت نہ ہو اور انہیں جمع کرکے بھی پڑھ لیا جائے، رہی جمع تاخیر یا جمع تقدیم تو وہ صرف مزدلفہ میں ثابت ہے۔ یا سفر اور بارش کی حالتوں میں، ورنہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًاکے مصداق نماز اپنے وقت کے ساتھ فرض ہے۔ نیز آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:

لیس التفریط فی النوم انما التفریط فی البغظۃ بان تؤخر الصلوٰۃ حتی یدخل وقت اخری۔

اگر کوئی نماز کے وقت نیند سے مغلوب ہو جائے تو کوئی حرج کی بات ہے کہ جاگتے ہوئے دانستہ اتنی تاخیر کردے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔

نیز فرمایا:

من جمع بین الصلوٰتین من غیر عذرٍ فقد اتی باب من ابواب الکبائر۔

کہ جس نے بلا عذر دو نمازیں جمع کرکے پڑھیں اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔

اس کے علاوہ آپ نے نماز کو وقت پر نہ پڑھنے والوں کی مذمت فرمائی۔ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلا عذر جمع کو جائز کہنے والے آنحضرتﷺ کے ارشادات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں۔ اور جن دلائل سے وہ استدلال کرتے ہیں۔ وہ ان کے مطلوب پر دلالت نہیں کرتے۔ وعلی نفسھا براقش تجنی۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم۔  (الدلیل الطالب علی ارجح المطالب ص ۳۸۶)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 225-222

محدث فتویٰ

تبصرے