سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) سفر میں کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیے

  • 4567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2243

سوال

(136) سفر میں کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفر میں کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیے، قرآن و حدیث سے مدلل بیان فرمائیں؟ جزاکم اللہ عن جمیع المسلمین خیراً


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصوص شرعیہ میں مطلق سفر وارد ہے۔ کوئی صحیح روایت سفر کی حد میں میری نظر سے نہیں گزری، صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال بھی اس میں مختلف ہیں۔ عبداللہ بن عمرو عبداللہ بن عباس اڑتالیس میل میں دوگانہ پڑھتے تھے۔ طبرانی دارقطنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے۔ (۱)لا تقصروا فی اقل من اربعۃ برد۔ مگر یہ حدیث باتفاق اہل حدیث ضعیف ہے۔ صحیح ہے کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔ حافظ ابن حجر تلخیص میں لکھتے ہیں۔ (۲) والصحیح عن ابن عباس من قولہ قال الشافعی اخبرنا سفیان عن عمرو عن عطاء عن ابن عباس انہ سئل انقصر الصلوٰۃ الی عرفۃ قال لا ولکن الٰی عسفان والی جدۃ والی الطائف واسنادہ صحیح وروی البیھقی عن عطاء بن ابی رباح ان عبداللّٰہ بن عمرو عبداللّٰہ بن عباس کانا یصلیان رکعتین ویفطر ان فی اربعۃ برد فما فوق ذلک واخرجہ البخاری تعلیقا۔ ابوداؤد میں ہے۔ (۳) عن نافع ان ابن عمر کان یخرج الی غابۃ فلا یفطر ولا یقصر۔کتاب مراصد میں لکھا ہے کہ غایۃ مدینہ منورہ سے ایک برید کی مسافت پر ہے اور دحیہ کلبی اور بعض اہل علم تین میل کو سفر کہتے ہیں اور اس میں قصر کو جائز جانتے ہیں۔

۱:  چار برد سے کم مسافت پر نماز قصر نہ کرو۔ ۱۲

۲:  اور صحیح یہی ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے۔ امام شافعیؒ نے کہا کہ خبر دی ہم کو سفان نے ابن عمرو سے وہ عطاء سے وہ ابن عباسؓ سے کہ ان سے پوچھا گیا کیا ہم عرفات پر نماز قصر کریں تو انہوں نے فرمایا کہ نہ ، ہاں عسفان اور جدہ اور طائف پر کرلو۔ اور اس کی اسناد صحیح ہے۔ اور بیہقیؒ نے عطاء ابن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمچار برد یا اس سے زیادہ فاصلے پر نماز دوگانہ پڑھتے تھے۔ اور روزہ بھی نہ رکھتے تھے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو تعلیقاً بیان کیا ہے۔ ۱۲

۳:  نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ غابہ جگہ کو جاتے نہ افطار کرتے اور نہ قصر کرتے۔

ابوداؤد میں ہے۔ (۴) عن منصور الکلبی ان دحیۃ بن خلیفہ خرج من قریۃ من مشق الی قدر قربۃ عقبۃ من الفسطاط وذلک ثلاثہ امیال فی رمضان ثم ان افطر وافطر معہ ناس وکرہ اٰخرون ان یفطروا فلما رجع الی قریۃ قال واللّٰہ لقد رأیت الیوم امرا ما کنت اظن انی اراہ ان قومًا رغبوا عن ھدی رسول اللّٰہ ﷺ واصحابہ۔ مگر اس روایت کی صحت میں گفتگو ہے۔ (۵) قال الخطابی ولیس ھذا الحدیث بالقویاور لفظ ان قومًا رغبوا عن ھدی رسول اللّٰہ ﷺ واصحابہ۔ مراداس ہدی سے سفر میںافطار ہے نہ تحدید سفر۔

۴:  منصور کلبی سے روایت ہے کہ وحیہ بن خلیفہ رمضان شریف میں دمشق سے اتنی دور گئے جتنا کہ فسطاط سے عقبہ ہے۔ اور یہ تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ تو اس نے اپنے بعض ساتھیوں سمیت روزہ افطار کیا۔ اور بعض نے اس بات کو مکروہ جانا۔ جب اپنے گاؤں کو واپس آیا تو کہا کہ واللہ میں نے آج ایک ایسا کام دیکھا جو میرے گمان میں نہ تھا کہ دیکھوں گا۔ (وہ یہ) کہ ایک قوم نے رسول اللہﷺاور آنجناب رسالتِ مآبﷺ کے اصحاب سے روگردانی کی۔ ۱۲

۵:  خطابی نے کہا کہ یہ حدیث قوی نہیں۔ ۱۲

(۱)قال البیھقی والذی روینا عن دحیۃ الکلبی ذلک فکانہ ذھب فیہ الی ظاھر الایۃ فی الرخصۃ فی السفر واراد بقولہ رغبوا عن سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ واصحابہ فی قبول الرخصۃ لافی تقریر السفر الذی افطر انتھٰی اور سعید بن منصور نے ابو سعید سے روایت کی ہے (۲) کان رسول اللہ ﷺ اذا سافر فرسخًا یقصر الصلوٰۃ۔ مگر یہ حدیث طبقہ رابعہ یا خمسہ کی ہے اور اس طبقہ کی حدیث جب تک ائمہ حدیث اس کی تصحیح نہ کریں قابلِ اعتماد دلائق استناد نہیں اور اس کی تصحیح کسی سے مروی نہیں اور صحیح مسلم میں ہے۔ (۳) کان رسول اللہ ﷺ اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال او ثلاثۃ فراسخ صلی رکعتین شعبۃ الشاکاس میں شعبہ کا شک ہے کہ تین میل ہے یا تین فرسخ لہٰذا یہ حدیث دو معنی کی محتمل ہے یعنی سفر کی تحدید میں یا سفر کی طویل میں اقامت کی جگہ سے تین میل یا تین فرسخ دور ہو کر دوگانہ شروع کرتے تھے غرض کہ اس باب میں یہ حدیث بھی نص صریح نہیں۔ عوالی مدینہ جو مدینہ منورہ سے بمسافت تین چار میل کے تھے روز مرہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں مدینہ کو آیا کرتے تھے مگر کہیں ثابت نہیں کہ ان کو آپ نے فرمایا ہو کہ تم مسافر ہو تم دوگانہ پڑھو یا تم پر جمعہ فرض نہیں اور نہ کہیں ثابت ہے کہ کسی نے اہل عوالی سے اس آمد و رفت میں دوگانہ نماز پڑھی ہو یا مواشی کے چرانیوالے جو ہر روز پانچ چھ میل چکر کھا کر اپنے قیام کی جگہ پر آتے ہیں۔ کسی نے دوگانہ نماز پڑھی ہو یا ان کو رسولِ اکرمﷺ نے دوگانہ کا حکم دیا ہو۔

۱:  بیہقیؒ نے کہا کہ وہ جو ہم نے وحیہ کلبی سے روایت کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ مطلق سفر میںد وگانہ پڑھنے اور افطار کرنے میںظاہر آیۃ کی طرف گیا ہے۔ اور اس نے اپنے قول سے کہ ایک قوم رسول اللہﷺاور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے طریقہ سے روگردانی کی (رو گردانی) قبول رخصت میں مراد لی ہے۔ نہ اس سفر کے اندازہ میں جس میں اُس نے افطار کیا۔

۲:  رسول اللہﷺ جب ایک فرسخ یعنی تین میل کی مسافت تک سفر کرتے تو نماز دوگانہ پڑھتے۔

۳:  رسول اللہﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے۔ تو نماز دوگانہ پڑھتے تھے۔ ۱۲

صحیح بخاری میں ہے: (۱) وبعض العوالی من المدینۃ علی اربعۃ امیال پس معلوم ہوا کہ تین چار میل سفر نہیں نو میل از روئے حدیث مسلم سفر ہے۔ اگر محتمل باحتمال ثانی اگرچہ ضعیف ہے نہوتا لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ اپنے جامع میں لکھتے ہیں: (۲) باب فی کم یقصر الصلوٰۃ وسمٰی النبی ﷺ السفر یوماً ولیلۃً مطلب اس کا یہی معلوم ہے کہ جو شخص اس قدر مسافت پر جاوے جو گھر کو اُسی روز واپس نہ آسکے بلکہ رات کو اس کو باہر رہنا پڑے وہ سفر ہے۔ پیادہ پا آدمی درمیانہ رفتار والا ایک برید (بارہ میل) سے واپس نہیں آسکتا ہے۔ ابوداؤد میں بجائے یوم دلیل ایک روایت میں برید ہے۔ مطلب دونوں روایتوں کا ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور یہی مذہب امام باقر و جعفر صادق وغیرہ اہلِ بیت کا ہے۔ نیل الاوطار میں ہے: (۳) وذھب الباقر والصادق واحمد بن عیسی والقاسم والھادی الی ان مسافۃ برید فصاعدًا وقال انس وھو مروی عن الاوزاعی ان مسافتہ یوم ولیلۃ اور فتح الباری میں ہے (۴) وقد اورد البخاری ما یدل علی ان اختیارہ ان اقل مسافۃ القصر یوم ولیلۃ یعنی قولہ فی صحیحہ وسمی النبی ﷺ السفر یومًا ولیلۃ بعد قولہ باب فی کم یقصر الصلوٰۃ اور اسی کی مؤید ہے حدیث الجمعۃ علی من اٰواہ الیل الی اھلہ رواہ الترمذی۔یعنی جو جمعہ پڑھ کر گھر کو پہنچ سکے اس پر جمعہ فرض ہے کیوں کہ وہ مسافر نہیں، یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ مگر میں نے توابع و شواہد کے طریق پر نقل کیا۔ فقط

۱:  مدینہ منورہ کی بعض عوالی ۴ میل ہے۔ یعنی چار میل تک مدینہ کی حد میں داخل ہے۔ ۱۲ ع

۲:  باب ہے اس بیان میں کہ کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیے اور اس بیان میں کہ نبیﷺنے ایک دن رات کی مسافت کا نام سفر رکھا ہے۔ ۱۲ ع

۳:  امام باقر اور جعفر صادق اور احمد بن عیسیٰ اور قاسم اورہادی اس طرف گئے ہیں کہ قصر کے سفر کی مسافت ایک برید (یعنی بارہ میل یا زیادہ اُس سے ہے) اور اوزاعی سے مروی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی مسافت ایک دن رات ہے۔ ۱۲ع

۴:  امام بخاریؒ بھی اپنے قول (باب ہے اس بیان میں کہ کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیے) کے بعد ایسی عبارت لائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بہتر ہی ہے کہ قصر کی مسافت ایک دن رات ہے۔ وہ عبارت ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن رات کی مسافت کا نام سفر رکھا۔ ۱۲ علوی

یہی حدیث اثبات مدعاء کے واسطے کفایت نہیں کرتی اس مسئلہ میں بقدر بیس قول مختلف اہل علم سے منقول ہیں میرے فہم میں امام بخاری و ائمہ اہل بیت کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

حررہ عبدالجبار بن عبداللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما

(فتاویٰ غزنویہ ص ۱۰۸)

باب الجمع بی الصلوتین


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 214-218

محدث فتویٰ

تبصرے