سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) خطبہ سے پہلے نماز پڑھنی چاہیے یا خطبہ کے بعد

  • 4551
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 929

سوال

(120) خطبہ سے پہلے نماز پڑھنی چاہیے یا خطبہ کے بعد
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خطبہ سے پہلے نماز پڑھنی چاہیے یا خطبہ کے بعد اور عید گاہ میں منبر لے جانا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابو سعید خدری سے رویت ہے کہ رسول اللہﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں نکلتے۔ پہلے نماز پڑھتے پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور لوگ اپنی اپنی نماز کی جگہ بیٹھے ہوتے۔ اگر کسی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو بھیج دیتے یا کوئی اور حاجت ہوتی تو اس کا حکم دیتے اور کہتے صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو زیادہ صدقہ کرنے والی عورتیں ہوتیں، پھر فارغ ہو جاتے۔ مروان کے زمانہ تک یہی حال رہا۔ جب مروان برسرِ اقتدار آیا تو میں مروان کے ساتھ نکلا۔ یہاں تک کہ ہم عید گاہ تک پہنچے۔ کثیر بن الصلت نے مٹی اور اینٹ سے منبر بنایا تھا۔ مروان نے مجھ سے ہاتھ چھڑا کر منبر کی طرف جانا چاہا۔ میں نے اس کو نماز کی طرف کھینچا اور میں نے کہا نماز شروع کرنے کا حکم کہا گیا ہے۔ مروان نے کہا اے ابو سعید! جو باتیں تو جانتا ہے۔ وہ چھوڑی گئیں۔ میں نے کہا جو میں جانتا ہوں۔ اس سے بہتر تم نہیں لاسکتے، پھر ابو سعید چلے گئے۔  (مشکوٰۃ)

اس حدیث سے کئی مسائل معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ دوسرا یہ کہ عید گاہ میں منبر خلاف سنت ہے۔ تیسرا یہ کہ مجمعوں میں چندہ وغیرہ کی تحریک جائز ہے۔ چوتھا یہ کہ خطبہ میں وقتی ضروریاتِ لشکر وغیرہ کے بھیجنے کا پروگرام بھی مرتب ہوسکتا ہے۔ پانچواں یہ کہ خواہ کتنا بڑا شخص ہو۔ اگر وہ خلافتِ سنت کرے تو اس پر انکار کرنا ضروری ہے۔ چھٹا یہ کہ نماز عید باہر کسی میدان میں پڑھنی چاہیے۔ ہاں اگر بارش وغیرہ کا عذر ہو تو مسجد میں بھی پڑھنی جائز ہے۔  (عبداللہ امرتسری روپڑی)

تعاقب

حضرت محدثِ روپڑی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عید گاہ میں منبر سنت کے خلاف ہے۔ اس استدلال پر مولوی سفیر الدین نے حسب ذیل تعاقب کیا ہے۔

آپ نے مذکورہ بالا ابو سعید خدری کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عید گاہ میں منبر خلافِ سنت ہے۔ اس کے متعلق خیال یہ ہے کہ عید گاہ میں منبرے جانا مسنون طریقہ ہے۔ چنانچہ بروایت ابی داؤد شرح عون المعبود جلد ثالث ص ۵۶ میں ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ شَھِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ اَلْاَضْحٰی فی المضلی فَلَمَّا قَضٰی خَطْبَتَہٗ نَزَلَ مِنْ مِنْبَرِہٖ۔

اس حدیث کی شرح میں مولانا شمس الحق صاحب تحریر فرماتے ہیں:

فِیْہِ ثُبُوْتُ وُجُوْدِ الْمِنْبَرِ فِی الْمُصَلیّٰ وَاَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یَخْطُبُ عَلَیْہِ۔

یعنی اس حدیث سے عید گاہ میں منبر کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اللہﷺاس پر خطبہ دیتے تھے۔

جواب:… یہ حدیث جس میں منبر کا ذکر ہے۔ ضعیف ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی مطلب ہے۔ جو جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ اُس نے جابر سے سنا نہیں۔ (عون المعبود جلد ۳ص ۵۷) پس یہ روایت منقطع ہوئی جو ضعیف کی قسم ہے اور ممکن ہے منبر سے مراد اونچی جگہ یہاں ہو۔ چنانچہ ابوداؤد وغیرہ کی ایک حدیث میں حرف نزل ہے۔ یعنی رسول اللہﷺ اُترے، اس پر عون المعبود میں لکھا ہے:

وَیَدُلُّ عَلٰی اَنَّ خُطْبَتَہٗ کَانَتَ عَلٰی شَیئٍ عَالٍ۔ (عون المعبود جلد اول ص۴۴۴)

یعنی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کا خطبہ کسی بلند شے پر تھا، اس طرح سے سب احادیث میں تطبیق ہو جائے گی۔ اگر منبر نکالنا مسنون ہوتا ہے۔ تو مروان پر صحابہ کے عام مجمع میں انکار نہ ہوتا۔

عبداللہ امرتسری

(فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم ص ۳۹۳)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 199

محدث فتویٰ

تبصرے