سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) عید کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہیے یا میدان میں؟

  • 4544
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3451

سوال

(113) عید کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہیے یا میدان میں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ عید کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہیے یا میدان میں، فریقین نے اپنے اپنے دلائل بیان کیے جو حسب ذیل ہیں۔

زید کے دلائل:… کھلے میدان میں نمازِ عید ادا کرنی مسنون ہے۔ کسی عذر یا خوفِ بارش وغیرہ کے بغیر مسقف مسجد میں عید پڑھنا درست نہیں، نبی اکرمﷺ ہمیشہ کھلے میدان میں عید پڑھتے رہے۔ لہٰذا میدان میں نمازِ پڑھنی مسنون و افضل ہے۔

بکر کے دلائل:… میدان میں بعض وقت نجاست بھی ہوتی ہے۔ جب مسجد (جو مسقف ہو یا غیر مسقف) کافی سے زیادہ جگہ کی گنجائش ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ میدان میں نمازیں پڑھی جائیں۔ حضورﷺ کا میدان میں نماز عید گزارنا صرف اس وجہ سے تھا کہ مسجد نبوی میں جگہ کی تنگی تھی۔ اور قرب و جوار کے لوگوں کا اجتماع صلوٰۃ عیدین کے لیے کثیر ہوتا تھا اس لیے حضور علیہ السلام نے میدان میں نمازِ عید ادا کی۔ ورنہ جس مسجد میں ایک رکعت پر پچاس ہزار رکعتوں اور دو رکعتوں پر ایک لاکھ رکعتوں کا ثواب ملتا ہو۔ حضور علیہ السلام اپنے صحابہ کو اتنے کثیر ثواب سے ہرگز محروم نہ فرماتے۔ اگر صلوٰۃ عیدین میدان ہی میں پڑھنا افضل ہوتا تو وہ اہل مکہ کو حکم فرماتے کہ مسجد حرام میں نمازِ عید نہ پڑھا کرو۔ بلکہ بیرونِ شہر میدان میں جایا کرو۔ نہ خلافتِ راشدہ میں ممانعت ہوئی، نہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے نو سالہ عہدِ خلافت میں ایسا حکم ہوا۔ آج تک مسجد حرام میں صلوٰۃ عیدین برابر ادا کی جاتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک اس میں اختلاف ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں مسجد فراخ ہو تو مسجد بہتر ہے۔ دلیل یہی دیتے ہیں جو بکر نے دی ہے یعنی مکہ شریف کے لوگ باہر نہیں نکلتے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں، میدان افضل ہے۔ اور اس پر دو دلیلیں دیتے ہیں۔

(۱) ایک یہ کہ رسول اللہﷺ نے ہمیشہ عید کی نماز میدان میں پڑھی ہے۔ اور جس کام پر رسول اللہﷺ ہمیشگی کریں۔ وہ مقام افضیلت سے نہیں اتر سکتا۔

(۲)دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان کی طرف نکلے اور فرمایا:

لَو لَا اَنَّہُ السُّنَّۃُ لَصَلَّیْتُ فِی الْمَسْجِدِ۔ (سبل السلام)

 یعنی اگر میدان کی طرف نکلنا مسنون نہ ہوتا تو میں نماز مسجد میں پڑھتا۔

رسول اللہﷺ کے ہمیشہ باہر پڑھنے کی وجہ بیان کرنا کہ مسجد تنگ تھی یہ کیس روایت میں نہیں آیا۔ صرف مکہ کی حالت دیکھ کر یہ خیال کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ مکہ کے باہر نزدیک کوئی فراخ میدان نہیں، یہ اہل مکہ کے لیے معقول عذر ہے۔ اس لیے اہل مکہ کی حالت کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کے باہر نماز پڑھنے کی وجہ مسجد کی تنگی بیان کرنا درست نہیں۔

اس کے علاوہ جمعہ میں ہجوم کم نہیں ہوتا تھا۔ مگر باوجود اس کے جمعہ آپ مسجد ہی میں پڑھتے رہے۔ رہا بکر کا یہ کہنا کہ مسجد نبوی میں پچاس ہزار نماز کا ثواب ہے۔ اگر مسجد کی تنگی کی وجہ نہ ہوتی تو اتنے بڑے ثواب سے کیوں محروم رہتے؟

اس کی بابت عرض ہے کہ بعض دفعہ اور وجوہات پیدا ہو جاتی ہیں جن سے غیر بہتر عمل بہتر ہو جاتا ہے۔ مثلاً مسجد سب جگہوں سے بہتر ہے۔ مگر نفل نماز گھر میں افضل ہے جس میں اہل مدینہ بلکہ اہل مکہ بھی داخل ہیں۔ پھر حضرت علی کا ارشاد مذکور اس بارہ میں صاف ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں کوئی تسلی بخش دلیل نہیں جس کی بنا پر ہم صحابی سے آگے بڑھیں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ نماز عید باہر پڑھی جائے ہاں اگر کوئی عارضہ ہو جیسے سوال میں ذکر ہے کہ میدان میں نجاست ہے تو پھر کوئی حرج نہیں مسجد میں پڑھ لی جائے۔ مگر نجاست ایسی ہو کہ صاف نہ ہوسکے۔ اگر صاف ہوسکے تو میدان بہتر ہے۔ ہاں زید کا کہنا کہ مسجد میں درست نہیں یہ بے دلیل ہے۔ کیوں کہ رسول اللہﷺ کے فعل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے افضلیت ہی سمجھی ہے۔ چنانچہ ’’ لولا انہ السنۃ لصلیت فی المسجد‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے۔ نیز سبل السلام میں مذکورہ بالا عبارت کے بعد ہے۔ واستخلف من یصلی بضعفہ الناس فی المسجد یعنی حضرت علی کمزور یعنی عورتوں اور بوڑھوں وغیرہ کے لیے ایک خلیفہ مقرر کیا۔ جو ان کو مسجد میں نماز پڑھائے۔ حالاں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں یہ سب باہر جاتے تھے ۔ نیز یہ کسی کا مذہب نہیں جو زید نے اختیار کیا ہے۔ صرف افضلیت اور غیر افضلیت میں اختلاف ہے۔ جواز عدم جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ پس زید کا مذہب سلف کے بالکل خلاف ہے۔ البتہ باوجود عذر نہ ہونے کے نماز عید ہمیشہ مسجد میں پڑھنا، اس میں مکروہ کی صورت ضرور پائی جاتی ہے کیوں کہ اس میں بلا وجہ افضلیت کا ہمیشہ ترک کرنا ہے۔

چنانچہ شاہِ جیلانی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:

والاولی ان تقام فی الصحرائِ وتکرہ فی الجامع الا لعذر۔ (غنیہ)

یعنی عید کی نماز جنگل میں پڑھنی چاہیے اور جامع مسجد میں بلا عذر عید پڑھنی مکروہ ہے۔

عبداللہ امرتسری           

(فتاویٰ اہل حدیث ص ۴۰۳)       

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 190-192

محدث فتویٰ

تبصرے