سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) عورتوں کو اس زمانہ میں نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں جانا درست ہے یا نہیں؟

  • 4518
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1811

سوال

(87) عورتوں کو اس زمانہ میں نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں جانا درست ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اندر اس مسئلہ کے کہ عورتوں کو اس زمانہ میں نماز عیدین کے لیے عید گاہ میں جانا درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے، تو اس اثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کیا جواب ہے عن عائشۃ قالت لو ادرک رسول اللّٰہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن المساجد رواہ البخاری یعنی فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ اگر پاتے رسول اللہﷺ جو احداث کیا ہے عورتوں نے، تو بے شک منع فرماتے ان کو مسجدوں سے الخ روایت کیا اس کو بخاری نے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کا بروز عیدین عید گاہ میں جانا حدیث صریح صحیح مرفوع سے بلا نکیر ثابت ہے۔ آنحضرتﷺ کو اس میں اہتمام بلیغ تھا، یہاں تک کہ حائضہ اور بن کپڑے والی کو بھی عید گاہ میں حاضر ہونے کا حکم فرماتے، بخاری و مسلم میں ہے: عن ام عطیۃ قالت امرنا ان نخرج الحیض یوم العیدین وذوات الخدور فیشھدن جماعۃ المسلمین ودعوتھم وتعتزل الحیض عن مصلاھن قالت امرأۃ یا رسول اللّٰہ احدثنا لیس لھا جلباب قال لتلبسھا صاحبتھا من جلبا بھا۔ یعنی ام عطیہ سے روایت ہے کہ کہا انہوں نے کہ حکم کئے گئے ہم لوگ کہ نکالیں حیض والیوں کو عیدین میں اور پردہ دار کو، پس حاضر ہوں مسلمانوں کی جماعت میں اور ان کی دعا میں اور علیحدہ بیٹھیں حیض والیاں اپنی نمازیوں کی صف سے کہا ایک عورت نے کہ یا رسول اللہ اگر نہ ہو کسی عورت کے پاس چادر، فرمایا تب چاہیے کہ اوڑھائے اس کو ساتھ والی اس کی اپنی چادر سے۔ اور ایک روایت میں ہے صحیحین کے کہ جائیں حیض والیاں عید گاہ میں، پھر رہیں پیچھے لوگوں کے، اللہ اکبر کہیں ساتھ ان کے، نودی شارح مسلم نے قاضی عیاض سے نکل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ وابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نزدیک ضرور تھا نکلنا عورتوں کا عیدین اور تحت میں قولہ ﷺ لتلسبھا کے نووی لکھتے ہیں کہ وفیہ حث علی حضور العید لکل احد وعلی المواساۃ والتعاون علی البر والتقوی۔ یعنی حضرت کے اس فرمانے میں کہ بے کپڑے والی کو اس کے ساتھ والی کپڑا اڑھا کے لے جائے شوق دلانا ہے عیدین میں حاضر ہونے کے لیے ہر ہر شخص کو اور اوپر احسان اور مدد کرنے کے نکوئی و پرہیزگاری پر اور یہاں شیخ عبدالحق دہلوی شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں۔ واگر عاجزہ از قادرہ استعارہ نماید و سوال کندنیز جائز است، کہ وسیلہ امر خیر است، اور شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں: ولذلک استحب خروج الجمیع حتی الصبیان والنساء وذوات الخدور الحیضیعنی اسی اظہار شوکت اسلام کے لیے مستحب ہے جانا ہر ہر شخصوں کا عید گاہ میں حتی کہ لڑکے اور عورتیں اور پردہ دار اور حیض والیاں اور بخاری میں ہے: قلت لعطاء اتری حقا علی الامام الاٰن ان یاتی النساء فیذکرھن حین یفرغ قال ان ذلک لحق علیھم ومالھم ان لا یفعلوا،یعنی کہا جریج نے عطاء تابعی سے کہ کیا گمان کرتے ہیں آپ ضرورت امام پر اس زمانہ میں اس بات کی کہ آوے امام پاس عورتوں کے، پھر وعظ کہے نماز سے فارغ ہو کر کہا عطاء نے یہ البتہ بے شک ضرور ہے اماموں پر اور کیا ہے واسطے ان کے یہ کہ نہ کریں۔

۱:  اگر کوئی غریب عورت امیر عورت سے چادر مانگ لے تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ نیک کام کا وسیلہ ہے۔

اور جواب اثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اولاً یہ ہے کہ غرض ان کی امتناع احداث عورتوں کا ہے، جو کچھ بعد آنحضرتﷺ کے پیدا کر رکھا تھا۔ من الزینۃ والطیب وحسن الثیاب ونحوھا کذافی العینی نہ نفس حضوری مسجد، چنانچہ لفظ ما احدث النساء کا دلیل روشن ہے اس معنی پر اور وہ بے شک ممنوع و موجب فساد ہے۔ قال رسول اللہﷺ اذا شھدت احدا کن المسجد فلا تمس طیبا رواہ مسلم،یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے جب آوے کوئی عورت مسجد میں پس خوشبو نہ لگاوے۔ روایت کیا اس کو مسلم نے اور ابوداؤد میں ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ نہیں قبول ہوتی نماز اس عورت کی جو خوشبو لگائے مسجد کے لیے یہاں تک کہ غسل کرے غسل کرنا ناپاکی کا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ اذا استاذنکم نساؤکم باللیل الی المسجد فاذنوا لھن یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے جب کہ اجازت مانگیں تم سے عورتیں تمہاری مسجد کی رات کو پس اجازت دوان کو، اس حدیث میں اجازت کو رات سے ساتھ مقید فرمایا: غرض جو امر باعثِ فساد ہے اس کی اصلاح شارع سے خود ثابت ہے، اس کی اصلاح بقدر نقصان کرنا چاہیے نہ کہ معدوم کردینا اصل امر شرعی کا یہ اصلاح نہیں ہے۔ بلکہ افساد ہے حج کے لیے عورتیں جب سے گھر چھوڑ کر نکلتی ہیں۔ تو ابتدائے روانگی سے کیا کیا حالتیں ریل و جہاز و اونٹ پر ان کی بے پردگی کی پیش آتی ہیں پھر مکہ معظمہ میں وقت طواف و سعی وغیرہ کے کس مرتبہ کا اختلاط مردوں سے رہتا ہے کہ مارے دھکوں کے گر گر جاتی ہیں نعوذ باللہ من ذلک، اور یہ صریح حرام ہے تو اس جہت سے عورتیں حج سے باز نہ رکھی جاویں گی، بلکہ اختلاط رجال اور دوسرے منہیات سے تاکید لازم ہوگی، ہاں جمعیت عورت و مرد خلاف شرع البتہ باعثِ فساد ضرور ہوتی ہے اس کا انسداد لازم ہے، جیسے مردوں کا سامنے اپنے غیر محرمات مثل بھاوج و سالیاں و سرہجین وغیرہ کے آیا کرنا، ان سے دل لگیاں ہونا، کشف عورت رہنا، جیسا کہ اکثر بلکہ تمام ہند میں دائر و سائر ہے اس کو ضرور مسلمانوں کے گھر سے موقوف ہوجانا چاہیے کہ اس میں بڑے بڑے واقعات ہوگئے اور شرعاً و عقلاً کسی طرح جائز نہیں ہے غرض جس مجمع خلاف شرع میں کہ فساد واقع ہو رہا ہے اس سے چشم پوشی کرنا اور مجمع موافق شرع کو موقوف کردینا فقط تقاضائے شرافت و امارت و اغوائے شیطانی ہے اس سے پرہیز ناگزیر ہے۔

ثانیا اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مطلقا منع حضوری ہے مسجد پس اس میں صریح تخصیص مسجد کی موجود ہے، قیاس امتناع حضوری عید گاہ اس پر درست نہیں ہے اس لیے کہ حضوری مسجد عورتوں کو جائز ہے اور مستحب یہ ہے کہ گھر میں نماز ادا کریں چنانچہ قال رسول ﷺ لاتمنعوا نساء کم المساجد وبیوتھن خیر لھن رواہ ابوداؤد یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے نہ روکو اپنی عورتوں کو مسجدوں سے اور گھر ان کے بہتر ہیں ان کے لیے بخلاف نماز عیدین کے کہ اس میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ حائضہ اور بے کپڑے والی محتاج اوروں کے کپڑوں میں عید گاہ آئیں، عذر سے بھی اس دن خانہ نشینی کی اجازت نہ دی۔

ثالثاً آپ منع کہاں فرماتی ہیں وہ تو اپنا فہم ظاہر کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ اگر اس احداث کو دیکھتے، تو میرے نزدیک یہ ہے کہ عورتوں کو مسجد سے روکتے، اور یوں فرمایا: اس سبب سے تھا کہ مطابقت فہم رسول اللہﷺ ساتھ فہم اپنے کے ضروری نہ جانا، یا ترک ادب سے ڈریں کہ اپنی رائے سے حکم صریح رسول اللہﷺ کا کیوں کر اٹھایا جاسکتا ہے یا آپ مختار رحلت و حرمت ہی کی نہ تھیں، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بمقتضائے حیاد بیان صریح آنحضرتﷺ کے کہ بیوتھن خیرلھن عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ جانتے تھے، پر منع کرنے میں دم نہیں مارتے تھے کہ جب رسول اللہﷺ نے صاف اجازت دینے کا حکم فرمایا کہ تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ تو اب کو ان اس اجازت کو اٹھا سکتا ہے، بخاری شریف کے صفحہ ۱۲۳ میں ہے: عن ابن عمر کانت امرأۃ لعمر تشھد صلوٰۃ الصبح والعشاء فی الجماعۃ فی المسجد فقیل لھا لم تخرجین فقد تعلمین ان عمرؓ یکرہ ذلک ویغار قالت فما یمنعہ ان ینھا فی قال یمنعہ قول رسول اللّٰہ ﷺ لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللّٰہ رواہ البخاری یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تھیں بی بی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کہ نماز صبح اور عشاء کو جماعت سے ادا کرنے کو مسجد میں جایا کرتے تھے، کسی نے ان سے کہا کہ تم کیوں نکلتی ہو جب کہ جانتی ہو، کہ عمر رضی اللہ عنہ مکروہ جانتے ہیں نکلنا عورتوں کا اور غیرت کرتے ہیں کہا ان کی بی بی صاحبہ نے پس کس چیز نے منع کیا عمر رضی اللہ عنہ کو کہ مجھے منع کردیتے کہا اس شخص نے کہ باز رکھا عمر رضی اللہ عنہ کو تمہارے روکنے سے قول رسول اللہﷺ نے یہ کہ نہ روکو اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے۔ روایت کیا اس کو بخاری نے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کرنے پر اپنے بیٹے کو اس قدر سخت و درشت کہا کہ کبھی کسی کو نہ کہا تھا اور مرنے کو مر گئے پر بیٹے سے پھر مارے غصہ کے بات نہ کی۔ (۱) عن بلال بن عبداللّٰہ عن ابیہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا تمنعوا النساء خطو ظھن من المساجد اذا استاذنتکم فقال بلال واللّٰہ لنمنعھن وفی روایۃ سالم عن ابیہ قال فاقبل علیہ عبداللّٰہ فسبہ سباما سمعتہ سبہ مثلہ قط وقال اخبرک عن رسول اللّٰہ ﷺ وتقول واللّٰہ لنمنعھن رواہ مسلم۔ اور احمد کی روایت میں ہے فما کلمہ عبداللّٰہ حتی مات کذافی المشکوٰۃ ہر گاہ نماز وقتیہ میں یہ معاملے گزرے جس کا گھر میں ادا کرنا خود حدیث صریح صحیح رسول اللہﷺ سے ثابت ہوا، بلکہ اس کو بہتر فرمایا ہے، پس نماز عیدین سے کہ جس کے لیے عید گاہ میں جانے کی تاکید شدید و اہتمام بلیغ موجود ہے اور کوئی حدیث ضعیف بھی اس کے خلاف نہیں آئی، اور یہ نماز گھر گھر ادا بھی نہیں کی جاتی ہے۔ اور اس مجمع کو آنحضرتﷺ نے خیر فرمایا ہے کس حجت سے بھلا کوئی عورتوں کو منع کرے۔

۱:  آنحضرتﷺنے فرمایا اگر عورتیں تم سے اجازت مانگیں تو ان کو مساجد کے حصہ سے منع نہ کرو۔ بلال نے کہا خدا کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے تو حضرت عبداللہ نے کہا میں کہہ رہا ہوں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے اور تو کہتا ہے ہم ان کو روکیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ اس پر متوجہ ہوئے اور اس کو ایسی گالیاں دیں کہ پہلے کبھی نہ دی تھی اور کہا میں آنحضرتﷺ

رابعاً یہ کہ ولو فرضنا تو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے فہم سے فرماتی ہیں اور فہم صحابہ حجت شرعی نہیں ہے: کما ثبت فی اصول الحدیث

خامساً یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ مقصود حضرت عائشہ کا امتناع عام ہے، تو یہ اثر کب معارض ہوسکتا ہے حدیث صریح صحیح مرفوع کا اور ناسخ بھی کلام معصوم کا نہیں ہوسکتا پس حکم رسول اللہﷺ دربابِ حضوری عورتوں کے عید گاہ میں اسی اہتمام کے ساتھ بحال خود رہا، اور جانا ان کا عید گاہ میں ثابت ہوا، پھر اَب جو شخص بعد ثبوت قول رسول و فعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے { وَمَن یشاقِقِ الرَّسُوْل مِنْ بَعْدِمَا تَبَیَّنَ لَہُ الھُدیٰ وَیَتبعْ غَیْرَ سَبِیْلِ المؤمِنِیْنَ تُوَلِّہٖ مَا تَوَلیَّ الایۃ } جو حکم صراحۃ شرع شریف میں ثابت ہو جائے اس میں ہرگز ہرگز رائے وقیاس کو دخل نہ دینا چاہیے کہ شیطان اسی قیاس سے کہ اَنا خیر ہنہ حکم صریح الٰہی سے انکار کرکے ملعون بن گیا ہے اور یہ بالکل شریعت کو بدل ڈالنا ہے۔ عورت و مرد کے اختلاط کا فتنہ کچھ اسی زمانہ میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ازل سے ابد تک رہا ہے اور رہے گا جس کی حکایتیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں، اس لیے شارع نے سارے فساد کو خود دفع کردیا ہے۔ پھر بھی اس کو اصلاح طلب ہی سمجھنا قولہ (۱)تعالی فَبَدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھمکے وعید میں داخل ہونا ہے، ہاں یہ زمانہ بھی فساد کا ہے، ہر شخص اپنی عورتوں کا نگران رہے، بے پردہ بن ٹھن کر خوشبو لگا، بجتے گہنے زیور پہن کر ہرگز نہ جانے دے، ان کو مردوں سے الگ بٹھائیے غرض اصلاح فساد ساتھ بقائے حکم شرع جس طرح ممکن ہے کرلے اور حکم شرع کو ہرگز ہاتھ سے نہ دے۔

۱:  تو ظالموں نے اس بات کو بدل دیا جو ان کو کہی گئی تھی۔

واللّٰہ اعلم بالصواب اللھم ارزقنا اتباع سنن سید الموجودات وجنبنا عن البدعات آمین، المجیب وصیت علی الجواب صحیح والرای نجیح

زشرف سید کونین شد شریف حسین ، سید محمد نذیر حسین

اور روضۃ ندیہ میں لکھا ہے:

باب (۱) صلوٰۃ العیدین قد اختلف اھل العلم ھل صلوٰۃ العید واجبۃ ام لا والحق الوجوب لانہ ﷺ مع ملازمۃ لھا قد امرنا بالخروج الیھا کما فی حدیث امرہ ﷺ للناس ان یغدوا الی مصلاھم بعد ان اخبرہ الراکب برؤیۃ الھلال وھو حدیث صحیح وثبت فی الصحیح من حدیث ام عطیۃ قالت امرنا رسول اللہ ﷺ ان نخرج فی الفطر والاضحی العراتق والحیض وذوات الخدور فاما الحیض فیعتزلن الصلوٰۃ ویشھدن الخیرو دعوۃ المسلمین فالامر بالخروج یقتضی الامر بالصلوٰۃ لمن لا عذر لھا بفجری الخطاب والرجال اولی من النساء بذلک انتھی۔

پس میلان خلفائے ثلاثہ یعنی ابوبکر و عمرو علی رضی اللہ عنہم کا بھی واجب کی جانب تھا اور اسی بات کی تائید کرتی ہے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ جو ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ اپنے ازواج و نبات کو عیدین میں لے جاتے تھے پس یہ عموم شامل ہے جوان و بڑھیا دونوں کو، ہکذا بدر التمام شرع بلوغ المرام اور نہج المقبول من شرائع الرسول میں مرقوم ہے۔ اس طور سے، وزنان رابر آمدن سوئے عید گاہ از برائے نماز و شرکت در دعا مسلمین مشروع است و سنت صحیحہ بداں دارد گشتہ ونماز فراویٰ ہم صحیح است۔

۱:   علماء کا اختلاف ہے کہ عید کی نماز واجب ہے یا نہیں؟ صحیح یہ ہے کہ واجب ہے کیوں کہ حضور علیہ السلامنے خود بھی اس پر ہمیشگی کی ہے اور ہم کو بھی حکماً عید کی نماز کے لیے باہر نکلنے کو کہا ہے۔ جب کہ ایک قافلہ نے آکر اطلاع دی کہ ہم نے کل رات چاند دیکھا تھا تو حکم دیا کہ کل لوگ عید کی نماز کے لیے باہر نکلیں اور ام عطیہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں باہر نکلیں، حائضہ عورتیں بھی، پردہ نشین بھی، حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں اور دعا وغیرہ میں شامل ہو جائیں اور باہر نکلنے کا حکم نماز کے حکم کا تقاضا کرتا ہے۔ جس کو شرعی عذر نہ ہو اور یہ حکم عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ شامل ہوگا۔

خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین ۱۲۹۲

جہاں شد منورز نور الحسن ۱۲۹۲

نعم المولی ونعم النصیر ۱۲۹۲

امیر حسن ساکن سہار، محمد عبدالعزیز، محمد جمیل ، سید محمد حسن، علی حسن خاں

(فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل ص ۶۱۸)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 172-177

محدث فتویٰ

تبصرے