سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) درمیان خطبہ جمعہ کے واسطے پند و نصائح سامعین کے جو عربی زبان نہیں جانتے..الخ

  • 4504
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1104

سوال

(73) درمیان خطبہ جمعہ کے واسطے پند و نصائح سامعین کے جو عربی زبان نہیں جانتے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ابقاہم اللہ الیٰ یوم الدین اس مسئلہ میں کہ درمیان خطبہ جمعہ کے واسطے پند و نصائح سامعین کے جو عربی زبان نہیں جانتے کچھ اشعار یا نثر بزبان سامعین کہ جن کا مضمون ماجاء بہ النبیﷺ سے ہے پڑھنا درست ہے یا نہیں اور شعروں کے بارہ میں کیا حکم ہے شرع کا۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درست ہے کیوں کہ پندو نصیحت خطبہ میں رسول اللہﷺ سے ثابت ہے صحیح مسلم کی روایت سے مشکوٰۃ کے باب الخطبہ میں جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قال کانت للنبی ﷺ خطبتان یجلس بینھما یقرأ القراٰن ویذکر الناس یعنی انہوں نے بیان کیا ہے کہ پڑھا کرتے تھے۔ نبی ﷺ دو خطبہ اور بیٹھتے درمیان دونوں خطبوں کے اور خطبہ میں قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ فرمایا کرتے تھے وعظ کا فائدہ جبھی ہوتا ہے کہ سننے والے کی بولی میں ہو اسی واسطے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورۂ ابراہیم میں { وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم} یعنی نہیں بھیجا ہم نے کسی نبی کو مگر اس کی قوم کی بولی میں تو کہ وہ اچھی طرح سمجھا سکے ان کو، پس اس آیت سے بخوبی ثابت ہوا کہ نصیحت سامعین کی بولی میں ہو کہ وہ سمجھیں اور یہ اعتراض کہ خطبہ میں نصیحت بزبان اُردو آنحضرتﷺ و صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں بیجا ہے کیوں کہ اس بارہ میں کسی زبان کی خصوصیت نہیں صرف یہ ثبوت چاہیے کہ خطبہ میں آپ نصیحت کرتے تھے یا نہیں سو اس کا ثبوت حدیث صحیح میں موجود ہے اور یہ خطبہ ہی پر حصر کیوں رکھا قرآن و حدیث کا ترجمہ اور وعظ کرنا بھی تو بزبان اُردو وغیرہ آنحضرتﷺ و صحابہ سے ثابت نہیں ہے پھر وہ کیوں منع نہیں، غرض یہ کہ وعظ بزبان سامعین دین میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث دنیا میں اسی واسطے آئے ہیں کہ سب جہان کے لوگ سمجھیں اور شعر کے بارے میں یہ ہے : ذکر (۱) عند رسول اللّٰہ ﷺ الشعر فقال رسول اللّٰہ ﷺ ھو کلام فحسنہ حسن وقبیحہ قبیح رواہ الدارقطنی وحسنہ ۔

۱:  رسول اللہﷺکے پاس شعر کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا وہ بھی ایک کلام ہے جس کا مضمون اچھا ہے وہ اچھا شعر ہے اور جس کا برا ہے وہ برا ہے۔

اور مالا بدمنہ میں ہے شعر (۲) کلام است موزوں حسن او حسن است و قبیح او قبیح لیکن بیشتر اضاعت وقت دراں مکروہ است اور اس کے حاشیہ میں ہے یعنی اگر (۳) مضمونش مشتمل باشد برحمد خدایا نعت رسول یا تحریض بر ذکر خدا و عبادت یا مسئلہ دینیہ پس گفتنش و خواندش ہر دو موجب ثواب و اجر است واگر مشتمل باشد برا مر مباح پس مباح است واگر متضمن باشد برامور ممنوعہ مثل بیان سرایا خدوخال مردے یاز نے صاحب حسن کہ دراں شہر زندہ موجود باشد یا ہجو مسلمانے غیر ظالم پس انشادش ہر دو حرام کذافی العینی شرح الکنز واللہ اعلم بالصواب حررہ خادم العلماء محمد حسن عفا اللہ عنہ وعن جمیع المؤمنین واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

سید محمد نذیر حسین

۲:  شعر ایک موزوں کلام ہے جو اچھا ہے سو اچھا ہے اور جو بُرا ہے لیکن اس میں زیادہ وقت صرف کرنا مکروہ ہے۔

۳:  اگر شعر کا مضمون حمد خدا اور نعت رسول یا ذکر خدا و عبادت کی ترغیب پر مشتمل ہو یا اس میں کوئی دینی مسئلہ بیان کیا گیا ہو تو اس کا کہنا اور پڑھنا موجب ثواب ہے۔ اور اگر مباح امر پر مشتمل ہو تو مباح ہے۔ اور اگر امورِ ممنوعہ پر مشتمل ہو، مثلاً کسی مرد یا عورت کے خدوخال کی تعریف یا کسی عادل مسلمان کی ہجو ہو تو اس کا لکھنا اور پڑھنا دونوں حرام ہیں۔

ھو الموفق

اس مضمون میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شعر ایک کلام ہے کہ جس کا مضمون اچھا ہے وہ اچھا ہے اور جس کا بُرا ہے وہ بُرا ہے مگر ساتھ اس کے خطبہ میں کبھی شعر پڑھنا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت نہیں، خطبہ نبویہ و خطبات خلافت راشدہ اشعار سے خالی ہوتے تھے۔

فاتباع سنتہ ﷺ وسنۃ خلفائہ الراشدین المھدیین اولٰی ھذا ما عندی واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ ۔ فتاویٰ نذیریہ ج ۱، ص۶۱۴

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 156-157

محدث فتویٰ

تبصرے