سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) ہدایہ کی عبارت لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع کی وضاحت

  • 4502
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2291

سوال

(71) ہدایہ کی عبارت لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع کی وضاحت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

از فقیر حقیر ابو تراب محمد عبدالرحمن گیلانی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بخدمت شریف شیخ العرب والعجم، محی السنۃ وقامع البدعۃ، الشمس العلماء جناب حضرت مولانا مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دام فیضہم واضح رائے عالی باد، میں نے ایک رسالہ مسمی باز الۃ الشبہہ عن فرضیۃ الجمعہ مع ترجمہ، مطبوعہ احمدی لاہور کو اول سے آخر تک دیکھا اس رسالہ کے صفحہ ۲۴ میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:

(۴) وقال ابن ابی شیبۃ حدثنا جریر عن منصور عن طلحۃ عن سعد بن عبیدۃ عن ابی عبدالرحمن انہ قال قال علی رضی اللّٰہ عنہ لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع ذکر العینی فی عمدۃ القاری وسندہ صحیح۔

۴:  حضرت علیؓ نے کہا کہ جمعہ اور تشریق بڑے شہر ہی میں ہے۔ ۱۲

اب التماس ہے کہ اس ناچیز کے پاس اسماء الرجال میں تین ہی کتابیں ہیں، میزان الاعتدال ، تقریب التہذیب، خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال راقم خاکسار کے مسکن کی جگہ بہت چھوٹی سی بستی ہے، بھائی احناف اس رسالہ کو دیکھ کر مجھ پر بڑا اعتراض کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسی بستی میں کیوں جمعہ پڑھتے ہو، کتب مذکورہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جریر جو اس میں راوی ہے، منصور سے اگرچہ رواۃ صحاح سے ہے لیکن متکلم فیہ ہے اور منصور ان کا استاذ ہے، لیکن ان کے ہم نام بہت سے راوی ہیں کوئی ثقہ ہے اور کوئی ضعیف اور یہ معلوم نہیں کہ طلحہ سے کون منصور روایت کرتا ہے اور طلحہ کے بھی ہم نام بہت سے ہیں، کوئی ثقہ ضعیف اور معلوم نہیں کہ کون طلحہ سعد بن عبیدہ سے روایت کرتا ہے اور سعد بن عبیدہ ثقہ ہیں، لیکن ابی عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں اور ابی عبدالرحمن کے ہم نام بھی بہت ہیں کوئی مجہول اور کوئی غیر مجہول، لیکن جو ابی عبدالرحمن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ان کا پتہ ان کتابوں سے نہیں لگتا ہے، الحاصل جریر کو منصور سے تلمذ ضرور ہے لیکن منصور کو طلحہ سے اور طلحہ کو سعد بن عبیدہ سے اور سعد بن عبیدہ کو ابی عبدالرحمن سے اور ابی عبدالرحمن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہرگز تلمذ نہیں معلوم ہوتا ہے اب التماس یہ ہے کہ عینی نے سند مذکور کو جو صحیح کہا ہے، آیا یہ کہنا ان کا صحیح ہے یا نہ، کتب مذکورہ و دیگر کتب رجال سے سند مذکور کی تنقید فرمائی جاوے۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جاننا چاہیے کہ جمعہ ادا کرنے کے لیے احناف کے نزدیک چھ شرطیں ہیں، شہر یا اس کا میدان وجود سلطان ، وقت ظہر، خطبہ بقدر ایک تسبیح جماعت اور کم از کم امام کے علاوہ تین آدمی ہوں۔ ہندوستان کے تمام علاقہ میں جمعہ کی فرضیت یا عدم فرضیت کا اختلاف کرخی کی روایت پر ہوگا۔ پس جس جگہ کرخی کے مسلک کے مطابق مصر (شہر) کی تعریف صادق آئے گی، وہاں جمعہ درست ہوگا اور جہاں وہ تعریف صادق نہ آئے گی، وہاں جمعہ درست نہ ہوگا۔ حالاں کہ جمعہ مطلقاً فرض ہے۔ اس میں مصر اور سلطان کی کوئی شرط نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان ہو تو ایمان والو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ آؤ اور جمعہ کی فرضیت پر اجماع واقع ہے اور مصر اور وجود سلطان کی شرائط ظنی اور مختلف فیہ ہے اور امر ظنی امر قطعی کا معارض نہیں ہوسکتا، اور پھر اگر ظنی بھی مختلف فیہ ہو تو اس کی کیا حیثیت ہے۔ کہ اکثر ائمہ کے نزدیک ان شرائط کا اعتبار نہیں ہے اور اسی بنا پر انہوں نے دیہات میں جمعہ کا فتویٰ دیا ہے اور ان کی دلیل اسعد بن زرارہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حضور کے حکم سے مدینہ میں جمعہ پڑھایا۔ تفسیر نیشاپوری، بحرالرائق اور شمنی وغیرہ سے یہی مستفاد ہوتا ہے۔ مولانا سلام اللہ محل بھی لکھتے ہیں: کہ رسول اللہﷺ سوموار کو مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے، چار روز بنی عمرو بن عوف کے پاس گزارے اور جمعہ کے دن بنی عمرو سے بنی سالم کی طرف آئے اور مسجد بنی سالم میں جو کہ دادی کے متصل تھی، جمعہ کی نماز ادا فرمائی ابھی مسجد نبوی کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ اہل اسلام کا مدینہ پر پورا تسلط نہیں تھا۔ تنقیذ احکام و اجرائے حدود تو درکنار ابھی حدود کا وجود بھی نہ تھا۔ پس اس صورت میں بلخی کا مسلک اختیار کرنا ضروری ہے جو کہ واقعہ کے مناسب ہے اور اکثر شہروں اور قصبوں میں اس سے جمعہ پڑھا جاسکتا ہے۔ جمعہ اسلام کے عمدہ شعائر سے ہے۔ اور کرخی کے مسلک سے یہ درہم اور برہم ہو جاتا ہے لہٰذا اکثر متاخرین فقہاء نے بلخی کا مسلک اختیار کیا ہے۔ مولانا عبدالعلی نے کرخی کے مسلک پر ایک عمدہ تبصرہ فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرما دیں۔ جمعہ کی فرضیت کے لیے ایک تو مصر کی شرط ہے اور شہر وہ ہے جس کی سب سے بڑی مسجد میں اس کے رہنے والے نہ سما سکیں اسی پر اکثر فقہاء نے فتویٰ دیا ہے۔ کیوں کہ آج کل احکام میں سستی پائی جاتی ہے۔ اس کے متعلق ہمارے مذہب کی روایات میں اختلاف ہے ظاہر روایت یہ ہے کہ شہر وہ ہے جس میں کوئی امام یا قاضی ہو جو حدود قائم کرسکے۔ فتح القدیر میں ہے شہر وہ ہے جس میں کوچے اور بازار ہو جس میں حاکم ہو جو ظالم سے مظلوم کو انصاف دلاسکے۔ جس میں کوئی بڑا عالم ہو جو مسائل پیش آمد میں فتویٰ دے سکے اور یہ اس سے خاص ہے حضرت علی کے قول لا جمعۃ ولا تشریق الخ کے جس کو عبدالرزاق نے بیان کیا۔ یہی دو مطلب بیان کئے گئے ہیں تو مصر جامع وہ ہے جس میں یہ صفات پائی جائیں۔ پہلی تفسیر کے مطابق جس شہر کا والی کافر ہو جمعہ فرض نہ رہے گا۔ اور یہ دونوں شرطیں مردود ہیں صحابہ نے یزید کے زمانہ میں جمعہ نہ چھوڑا حالاں کہ اس کے ظالم ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔ اس نے اہل بیت کی حرمت ختم کی مدینہ پر چڑھائی کی۔ خانہ کعبہ پر گولے برسائے کیا اس کے ظالم ہونے میں شک ہے؟ اور پھر صحابہ نے ان دنوں میں جمعہ کیوں نہ چھوڑ دیا، اب اگر صرف اس بنا پر بلخی کی روایت قبول ہے کہ لوگوں میں سستی پیدا ہوچکی ہے۔ اور مظلوم کا ظالم سے انصاف نہیں دلایا جاتا، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ سستی اور بے انصافی تو امیر معاویہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں شروع ہوچکی تھی سوائے عمر بن عبدالعزیز کے اور پھر عباسی خاندان میں بھی رہی تو کیا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی نے کبھی جمعہ چھوڑا؟ معلوم ہوا کہ یہ دونوں شرطیں غلط ہیں اور ایک شرط بادشاہ کی لگائی گئی ہے یا اس کے امیر کی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اگر یہ نہ ہوئے تو ممکن ہے جمعہ پڑھانے کے متعلق اختلاف اور جھگڑا پیدا ہوجائے ایک عالم کہے کہ میں جمعہ پڑھاؤں گا اور دوسرا کہے میں جمعہ پڑھاؤں گا۔ لیکن یہ اختلاف تو عام جماعتوں میں بھی ہوسکتا ہے وہاں بادشاہ یا امیر کی شرط کیوں نہیں لگائی گئی اس کا حل یہ سوچ لیا گیا ہے کہ جس امام کو لوگ متفق ہو کر امام بنالیں وہ جماعت کرائے تو یہی فیصلہ جمعہ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جب محاصرہ ہوگیا تھا اس وقت جمعہ چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن صحابہ نے نہیں چھوڑا بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اجازت بھی نہیں لی گئی اور جمعہ ہوتا رہا، یہی وجہ ہے کہ شوافع نے بادشاہ یا اس کے امیر کی شرط نہیں رکھی۔ یہ شرط صرف حنفیہ کے نزدیک ہے عالمگیری اور تہذیب میں اسی طرح ہے۔ مولانا کی مندرجہ بالا تقریر سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کرخی کے مسلک کے مطابق مصر یا بادشاہ کی جو شرطیں لگائی گئی ہیں یہ صحیح نہیں ہے کہ ان کے فقدان سے جمعہ نہ پڑھا جائے۔ اور پھر یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ سلاطین سابقہ نے جمعہ کے ادا کرنے کے لیے اماموں اور قاضیوں کونسلاً بعد نسل اجازت دے رکھی ہے۔ ہر وقت نئی اجازت کی ضرورت نہیں۔

عبدالرزاق نے ابن سیرین سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ مدینہ والوں نے نبیﷺ کے مدینہ آنے سے پہلے اور سورۃ جمعہ نازل ہونے سے پہلے مدینہ میں جمع پڑھا اس طرح کہ انصار اسعد بن زرارہ کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہودیوں نے بھی ایک دن عبادت کے لیے مقرر کر رکھا ہے کہ اس میں تورات پڑھتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور نصاریٰ نے بھی ایسا ہی کر رکھا ہے ہم کو بھی کوئی دن مقرر کرنا چاہیے کہ جس میں ہم خدا کی عبادت کریں حمد کریں اور شکر ادا کریں چنانچہ انہوں نے یوم العروبہ کو عبادت کا دن مقرر کرلیا اور بعد ازاں اسی دن کا نام یوم الجمعہ ہوگیا اسعد بن زرارہ نے ان کو دو رکعت نماز پڑھائی اور بعد ازاں خدا تعالیٰ نے سورۃ جمعہ نازل فرمائی اگرچہ حدیث مرسل ہے لیکن اس کا ایک شاہد ابوداؤد حدیث میں موجود ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جمعہ کا حکم وحی کے ذریعے مکہ میں معلوم کرلیا ہو لیکن وہاں آپ جمعہ قائم نہ کرسکے ہوں یہی وجہ ہے کہ آپ نے مدینہ آتے ہی پہلا جمعہ پڑھایا اسے ضائع نہ ہونے دیا اور اس پر دارقطنی کی عبداللہ بن عباس سے نقل کردہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے مکہ میں ہی مصعب عمیر کو حکم بھیج دیا تھا کہ جمعہ پڑھیں عورتوں اور بچوں کو جمع کریں جب سورج ڈھل جائے تو دو رکعت نماز پڑھیں یہ سب سے پہلا جمعہ تھا جو مدینہ میں پڑھا گیا۔ محلی شرح موطا کا خلاصہ ختم ہوا۔

تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ سب سے پہلے انصار نے اسعد بن زرارہ کے ماتحت جمعہ پڑھا اور پھر نبی اکرمﷺ نے مدینہ آتے ہی سب سے پہلے جمعہ بنی سالم کے پاس بطن وادی میں پڑھایا، تفسیر بیضاوی میں اسی طرح ہے اس صحیح واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب مدینہ میں جمعہ کی ابتداء ہوئی اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کی حکومت اور غلبہ نہیں تھا حدود و قصاص کا اجرا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود جمعہ پڑھا گیا تو اس صورت میں بلخی کی روایت ہی قابل اعتماد معلوم ہوتی ہے۔ اسی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر ان شرائط کو بفرض محال صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو ایک شرط کے ارتفاع سے ایک حکم قطعی کیسے اٹھ جائے گا۔ فتح القدیر میں اس پر دلائل قائم کئے ہیں۔ اور تفصیل سے کئے ہیں اور اس کے بعد لکھا ہے کہ ہم نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے کیوں کہ سننے میں آتا ہے کہ بعض جاہل لوگ جمعہ کی عدم فرضیت امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کو قدوری کی عبارت سے ٹھوکر لگی کہ اس نے لکھا ہے کہ جو آدمی ظہر پڑھ لے، تو ظہر صحیح ہے، کیوں کہ فرض کو چھوڑنا حرام ہے۔ اور ہمارے اصحاب نے تصریح کی ہے کہ جمعہ فرض ہے اور یہ مؤکد تر ہے ظہر سے اور اس کا منکر کافر ہے میں کہتا ہوں کہ ہمارے زمانہ کے جہلا بھی ایسے ہی ہیں ان کی جہالت دیکھئے کہ جمعہ کے بعد چار رکعت ظہر کی نیت سے پڑھتے ہیں۔ اس کو بعض متاخرین نے جمعہ میں شک کی وجہ سے ایجاد کیا ہے کہ ایک ہی شہر میں متعدد جمعے نہیں ہونے چاہئیں اور یہ قول مختار نہیں ہے اور یہ احتیاطی کی چار رکعت پڑھنا نہ تو امام صاحب سے مروی ہے اور نہ صاحبین سے۔ اور اس کے علاوہ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کفار کا غلبہ ہو یا والی مر گیا ہو یا فتنہ کی وجہ سے وہ ظاہر نہ ہوسکتا ہو، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ مقامی طور پر کسی کو اپنا امیر، یا قاضی مقرر کرلیں۔ اور اس کی سرکردگی میں جمعہ اور عیدین ادا کریں۔ مفتاح السعادت طحطاوی اور ردالمحتار میں بھی ایسا ہی ہے۔ پس ان روایات سے ثابت ہوا کہ جمعہ بہرحال ادا کرنا چاہیے کیوں کہ عمدہ شعائر اسلامی ہے۔ اس صورت میں علماء کا فرض ہے کہ فرضیت جمعہ کے دلائل پر غور فرمائیں اور بلخی کے مسلک کے مطابق جمعہ ادا کرنے کا حکم دیں۔ کہ یہ روایت شرعی دلائل سے مؤید ہے۔

نماز جمعہ کو دشمنان دین کے شبہات کی وجہ سے بالکل ترک نہیں کرنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی بغیر عذر کے تین جمعہ چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کردیتے ہیں۔ پس اس وعید شدید کی بنا پر کرخی کی روایت کو چھوڑ کر بلخی کی روایت پر عمل کرنا چاہیے کہ اکثر فقہاء کا فتویٰ اسی پر ہے کہ شہر وہ ہے جس کے رہنے والے سب سے بڑی مسجد میں نہ سما سکیں درمختارمیں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ بعض نے شہر کی یہ تعریف کی ہے کہ وہاں ہر طرح کے پیشہ ور آدمی موجود ہوں اور سال بھر تک اپنے پیشے ہی سے روزی کما سکیں، کسی اور پیشہ کے محتاج نہ ہوں، بدائع شرح و قایہ، مستخلص ، فتاویٰ قاضی ، سراجیہ، حمادیہ۔ قنیہ وغیرہ شروح اور حواشی کتب فقہ میں بلخی کی روایت ہی کو مختار سمجھا گیا ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم

سوال:… احقر العباد سلیم الدین و عباد الحق ساکنان ضلع ڈھاکہ بحکم آیت کریمہ فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن، بخدمت علمائے محققین دیندار دہلی سوال می کنند کہ دریں ولا بعضے عالم ایں اطراف فتویٰ بعدم فرضیت جمعہ وعدم صحت آن مید ہند ازیں باعث بسیارے عوام ترک جمعہ کردند و تمسک بعض علمائے این جا بہدایہ است کہ لاتصح الجمعۃ الا فی مصر جامع او فی مصلی المصر ولا تجوز فی القری لقولہ علیہ السلام لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع والمصر الجامع کل موضع لہ امیر و قاض ینفذ الاحکام ویقیم الحدود وھذا عن ابی یوسف رحمہ اللّٰہ علیہ وعنہ انھم اذا اجتموا فی اکبر مساجدھم لم تسعھم والاول اختیار الکرخی وھو الظاھر والثانی اختیار البلخی انتھی ما فی الھدایۃ۔ پس بموجب اختیار کرخی فتویٰ در عدم جواز جمعہ دریں دیار می فرمایند، ولہذا اکثر مردم جمعہ را گذاشتند و اختیار بلخی را اعتبار نمی کنند باوجودیکہ صاحب شرح وقایہ دور مختار اختیار بلخی را اختیار نمودند، وہمیں را مذہب اکثر متاخرین گفتہ و قطع نظر ازیں فرضیت جمعہ بدلیل قطعی است و شرطِ مصر جامع بصفات مذکورہ و وجود سلطان از خبر احاد استنباط کردہ اند، واکثر ائمہ دیگر در دیہات جمعہ را روامی دراند، و دراصولِ حنفیہ مثل شاشی و نور الانوار وتوضیح وغیرہ می نویسند ان خبر الواحد یرد فی معارضۃ الکتب لان الکتٰب مقدم لکونہ قطعیا متواتر النظم لا شبھۃ فی متنہ کذافی التوضیح وغیرہ۔ لہٰذا نیت دل رادر جواز وضو شرط می گویند و ہم چنین دیگر جزئیات فقہیہ براین شاہد است، پس مصر جامع کہ دران قاضی و حاکم تنفیذ احکامات کند قرار دادہ اند، چناں کہ مسلک کرخی است چگونہ شرط ادائے جمعہ بجز واحد گرد و بفوت ایں شرط جمعہ فوت شود، چہ برین تقدیر زیادت خبر واحد برکتاب اللہ لازم می آید و این مخالف قاعدہ کلیہ حنفیہ می شود، پس قبول در وجوب ادائے جمعہ بروایت کرخی می یا بروایت بلخی دریں دیار فتویٰ دادن لازم است۔ بینوا توجروا

الجواب:… در صورت مرقومہ باید دانست کہ شرائط صحت ادائے جمعہ در مذہب حنفی شش چیز است اوّل مصر دفناء آن، دوم وجود سلطان، سوم وقت ظہر، چہارم خطبہ بقدریک تسبیح، پنجم جماعت واقل این یک امام وسہ۔ نفرمقتدی و محل اختلاف فرض بودن جمعہ و عدم فرضیت آن درین دیار تمام ہندوستان براختیار کردن مسلک کرخی است در تعریف مصر، پس درمقامیکہ تفسیر مصر بر مسلک کرخی یافتہ شود جمعہ فرض گردو، دران مقام وجائے کہ نیافتہ شود، فرض دراں جانخواہدبود، وحالاں کہ جمعہ مطلقا فرض است، قطع از شرط مصر و وجود سلطان بدلیل قطعی لقولہ تعالیٰ:

{ یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللّٰہ الایۃ }

و بر فرضیت آن اجماع واقع گشتہ، وشرط مصر و وجود سلطان دراں حسب اختیار مسلک کرخی ظنی و مختلف فیہ است، وامر ظنی امر قطعی رافی الواقع معارضِ نمی تواندشد، وظنی مختلف فیہ چگونہ معارض گرد و امر قطعی راچہ اکثر ائمہ این ہر دو شرط را اعتبار وجو بانمی کنند، لہذا ادائے جمعہ دردیہات و قریٰ نیز تجویز می نمایند، بدلیل این کہ اسعد بن زرارہ قبل تشریف آوری آنحضرتﷺ در مدینہ منورہ جمعہ خواندہ بود درمدینہ مطہر بحکم ارشاد آنحضرتﷺ از مکہ معظمہ چناں کہ از تفسیر نیشاپوری وغیرہ ہو یدامی گردد، واز بحر الرائق دشمنی شرح نقایہ ومحلی شرح موطا مولوی سلام اللہ صاحب وغیرہ نیز مستفادمی شود کہ آنحضرتﷺ روز دو شنبہ در مدینہ منورہ رونق افروز شدند و چار روز بخانہ بنی عمرو بن عوف اقامت فرمودند، و روز جمعہ از خانہ بنی عمرو تشریف فرما بو وبسوئے بنی سالم بن عوف آمدند، ددرمسجد بنی سالم کہ متصل وادی بودنماز جمعہ نمودند، وہنوز مسجد نبوی تعمیر نہ شدہ بود و تسلط تام اہل اسلام براجر او تنفیذ احکام حدود و قصاص در مدینہ ابتداء واقع نہ گردیدہ بود اصلاً بلکہ نفسن احکام حدود و قصاص ہنوز شروع نہ گشتہ بود، چناں کہ تفصیل این اجمال عنقریب می آید پس دریں صورت مسلک بلخی را اختیار کردن واجب است دریں دیارچہ روایت بلخی موافق قضیہ صحیحہ مذکورہ بالا است و نیز شامل اکثر بلاد وقصبات راست بخلاف مسلک کرخی، وظاہر است کہ جمعہ از عمدہ شعائر اسلام است وبر مسلک کرخی درہم و برہم می شود، لہٰذا اکثر متاخرین حنفیہ مسلک بلخی راو اجب العمل رالستہ مختار نوشتہ اند، چنانکہ از تنویر الابصار، و درمختار وملتقی و شرح وقایہ وغیرہ واضح می شود، وازارکان اربعہ مولانا عبدالعلی الکنوی قوت و ضعف مسلک کرخی بڑائے مستفتی منکشف خواہد بود، ویشترط لصحتھا المصر وھو مالایسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھاوعلیہ فتوی اکثر الفقھاء لظھور التوانی فی الاحکام کذافی تنویر الابصار والدر المختار ومنھج الغفار و شرح الوقایۃ ومختصر الوقایۃ ومولانا عبدالعلی درارکان اربعہ می فرمایند اختلف الروایات فی مذھبنا ففی ظاھر الروایات ھو بلدۃ لھا امام وقاض یصلح لاقامۃ الحدود وفی فتح القدیر بلدۃ فیھا سکک واسواق ووال ینتصف المظلوم من الظالم وعالم یرجع الیہ فی الحوادثات وھذا اخص وحملوا قول امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ علی ما رواہ عبدالرزاق لاتشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع علی احدی ھاتین الروایتین فان المصر الجامع لایکون الاما ھذا شانہ وعلی التفسیر الاول المصر الذی والیہ کافر لا تجب فیہ الجمعۃ وعلی التفسیر الثانی لاتجب فی المصر الذی والیہ ظالم لا ینتصف المظلوم من الظالم ویرد ھذین الروایتین ان الصحابۃ والتابعین لم یترکو الجمعۃ فی زمان یزید الشقی مع انہ لا شبھۃ فی انہ کان من اشد الناس ظلما بالاجماع لانہ ھتک حرمۃ اھل البیت وبقی مصراً علیہ ولم یمر علیہ وقت الارکان الا ھو بصدد الظلم من اباحۃ دماء الصحابۃ الاخیار واما انتصاف المظلوم من الظالم فبعید منہ کل البعد فافھم وفی روایۃ الامام ابی یوسف المصر موضوع یبلغ القیمون فیہ عدد الایسع اکبر مساحدہ ایاھم فی الھدایۃ ھو اختیار البلخی وبہ افتی کثیر من المشائخ لما رأو فساد اھل الزمان والولاۃ فان شرط اقامۃ الحدودا وانتصاف المظلوم من الظالم ینف وجوب الجمعۃ مع انھا من شعائر الاسلام ونحن نقول قد وقع التھاون فی اقامۃ الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم فی امارۃ بنی امیۃ بعد وفات معاویۃ الا فی زمان عمر بن عبدالعزیز قدس سرہ وفی امارۃ بعض العباسیۃ ولم یترک الجمعۃ احد من الصحابۃ والتابعین وتبعھم فلم انھما لیسا بشرطین فاذن قابل الفتوی فی مذھبنا الروایۃ المختارۃ للبسلخی ومنھا السلطان او امرہ باقامۃ الجمعۃ عند الحنفیۃ خاصۃ لا عند الشافعیۃ فانھم یقولون اذا اجتمع مسلموا بلدۃ وقدموا اماما وصلوا الجمعۃ خلفہ جازت الجمعۃ والمامور من قبل السلطان افضل ولم اطلع علی دلیل یفید اشتراط امر السلطان وما فی الھدایۃ لانھا تقام بجماعۃ فعسی ان تقع منازعۃ فی التقدم والتقدیم لان کل انسان یطلب لنفسہ رتبۃ فلا بدمن امر السلطان لیدفع ھذہ المنازعۃ فھذا رای لایثبت الاشتراط لاطلاق نصوص وجوب الجمعۃ ثم ھذہ المنازعۃ تندفع باجماع المسلمین علی تقدیم واحد کما ان رتبۃ السلطان یطلبھا کل احد من الناس فعسی ان تقع المنازعۃ فلا یصح نصب السلطان لکن تندفع ھذہ المنازعۃ باجماع المسلمین علی تقدیم واحد فکذا ھذا وکما فی جماعۃ الصلوٰۃ عسی ان تقع المنازعۃ فی تقدیم رجل لکن تندفع باجماع المصلین فکذا فی الجمعۃ ثم الصحابۃ اقاموا الجمعۃ فی زمان فتنۃ بلوی امیر المومنین عثمان وکان ھوا ماما حقا محصور اولم یعلم انھم طلبو الاذن فی اقامۃ الجمعۃ بل الظاھر عدم الاذن لان ھٰؤلا الاشقیاء من اصحاب الشریم یرخصوا ذلک فعلم ان اقامۃ الجمعۃ غیر مشروطۃ عندھم بالاذن ولعل لھذہ الواقعۃ رجع المشائخ عن ھذا الشرط فیما تعذر الاستیذان وافتوا بانہ ان تعذر الاستیذان من الامام فاجتمع الناس علی رجل یصلی بھم کذافی العالمگیریۃ ناقلا عن التھذیب انتھٰی۔ کلام مولانا المرحوم فی الارکان الاربع۔

پس برمستبصران شریعت غرا مخفی مبادکہ از تقریر مولانا مرحوم صاف واضح میشود کہ شرط مصر موافق مسلک کرخی و شرط وجود سلطان از دلائل شرعیہ مضبوط نیست کہ بفوت آنہا جمعہ فوت گردد و صحیح نشود چناں کہ برمتأملان نصوص پوشیدہ نباشد قطع نظر ازیں اذن سلاطین سابقہ در ادائے جمعہ برائے امامان وقاضیان ایں دیار نسلاً بعد نسل واقع است پس اذن جدید ضرور نیست چناں کہ از در مختار وغیرہ ایں حکم مستفاد میشود۔

کمالا یخفی علی المتأمل المنصف ولما قدم رسول اللّٰہ ﷺ المدینۃ اقام یوم الاثنین والثلاثاء والاربعاء والخمیس فی بنی عمرو بن عوف واسس مسجدھم ثم خرج من عندھم فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی فکانت اوّل جمعۃ صلاھا بالمدینۃ انتھی ما فی البحر الرائق وقال الشمنی لما قدم النبی ﷺ المدینۃ اقام یوم الاثنین والثلاثاء والاربعاء والخمیس فی بنی عمرو بن عوف ثم خرج من عندھم فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی فکانت اول جمعۃ صلاھا النبی ﷺ انتھی ، وروی عبدالرزاق باسناد صحیح عن ابن سیرین قال جمع اھل المدینۃ قبل ان یقدمھا النبی ﷺ وقبل ان ینزل سورۃ الجمعۃ فقالت الانصار ان الیھود لھم یجتمعون فیہ بکل سبعۃ وللنصاریٰ کذلک فلنجعل یومًا لنا نذکر اللہ تعالیٰ ونشکر و نصلی فیہ فجعلوہ یوم العروبۃ واجتمعوا الی اسعد بن زرارۃ فصلی بھم یومئذٍ رکعتین وذکرھم فسموہ یوم الجمعۃ وانزل اللہ تعالٰی بعد ذلک واذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ والحدیث وان کان مرسلا فللہ شاھد حسنٌ اخرجہ ابوداؤد عن کعب بن مالک و صححہ ابن خزیمۃ و اوّل من صلی الجمعۃ بالمدینۃ قبل الھجرۃ اسعد بن زرارۃ قال الحافظ ولا یمنع ذلک انہ ﷺ علمہ بالوحی وھو بمکۃ فلم یتمکن من اقامتھا ثمہ ولذلک جمع لھم اوّل ما قدم المدینۃ ویدل علی ذلک ما اخرجہ الدار قطنی عن ابن عباسؓ قال اذن النبی ﷺ للجمعۃ قبل ان یھاجر ولم یستطیع ان یجمع بمکۃ فتکب الی مصعب بن عمیر اما بعد فانظر الیوم الذی یجھر فیہ الیھود بالتوراۃ فاجمعوا نساء کم وابناء کم فاذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ تعالیٰ برکعتین قال فھو اوّل من جمع حتی قدم النبی ﷺ المدینۃ فجمع عند الزوال من الظھر انتھی ما فی المحلی شرح المؤطا للعلامۃ سلام اللہ من اولاد الشیخ عبدالحق المحدث الدھلوی وقال فی التفسیر النیشاپوری روی ان الانصار اجتموا الی اسعد بن زرارۃ وکنیتہ ابو امامۃ وقالوا ھلموا نجعل لنا یوما نجمع فیہ فنذکر اللہ تعالی ونصلی فان للیھود السبت وللنصاری الاحد فاجعلوہ یوم العروبۃ فصلی بھم یومئذ رکعتین وذکرھم فسموہ یوم الجمعۃ لا جتماعھم فیہ وانزل اللّٰہ اٰیۃ الجمعۃ فھی اول جمعۃ کانت فی الاسلام قبل مقدم النبی ﷺ واما اوّل جمعۃ جمعھا رسول اللّٰہ ﷺ فھی انہ لما قدم المدینۃ مھاجرا نزل قباء علی بنی عمرو بن عوف واقام بھا یوم الاثنین والثلثاء والاربعاء والخمیس واسس مسجدھم ثم خرج یوم الجمعۃ عامد للمدینۃ فادرکتہ صلوٰۃ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فی بطن وادیھم فخطب وصلی الجمعۃ انتھی مافی النیشاپوری واوّل جمعۃ جمعھا رسول اللہ ﷺ انہ لما قدم المدینۃ نزل قباء واقام بھا الجمعۃ ثم دخل المدینۃ وصلی الجمعۃ فی دارلبنی سالم بن عوف انتھی ما فی البیضاوی۔

پس ازیں قصۃ صحیحہ مذکورۃ ہویدا گر دید کہ مدینہ منورہ درابتدائے نزول آنحضرتﷺ دار شوکت و غلبہ اسلام و ظہور و نفاذ حدود و قصاص ہرگز نبود باوجود ایں جمعہ گذار وہ شددریں جادریں صورت مسلک کرخی مخالف این قصہ مذکورہ است پس ناگزیر مسلک بلخی کہ موافق و مطابق این قصہ است واجب العمل باید دانست کہ بنا بر آن اختیار کردن مسلک بلخی را واجب افتا وکما لا  یخفی علی المتامل المتفطن الماھر بالنصوص وبالفرض والتقدیر۔ اگر دریک شرط فتور وشک واقع شود امر قطعی ازاں چہ گونہ مرتفع شود لہذا اطال فی فتح القدیر فی بیان دلائلھا ثم قال انما اکثرنا فیہ نوعًا من الاکثار لما تسمع عن بعض الجھلۃ انھم ینسبون الی مذھب الحنفیۃ عدم افتراضھا ومنشاء غلطھم ماسیاتی من قول القدوری ومن صلی الظھر فالحرمۃ لترک الفرض وصحت الظھر لما سنذکر وقد صرح اصحابنا بانھا فرض اکد من الظھر وباکفار جاھدھا انتہی اقول قد کثر ذلک من جھلۃ زماننا ایضا ومنشاء جھلھم صلٰوۃ الاربع بعد الجمعۃ بنیۃ الظھر وانما وضعھا بعض المتاخرین عند الشک فی صحۃ الجمعۃ بسبب روایۃ عدم تعددھا فی مصر واحد ولیست ھذہ الروایۃ بالمختارۃ ولیس ھذا القول اعنی اختیار صلاۃ الاربع ھامرو یاعن ابی حنیفۃ وصاحبیہ انتھی ما فی البحر الرائق۔ ونیز فقہاء می نویسند کہ در مقامیکہ ولاۃ کفار وغلبہ ایشان باشد واجب است کہ یکے را والی وقاضی گرد انند بحکم او جمعہ و اعیاد گزارند قال فی مجمع الفتاویٰ غلب علی المسلمین ولاۃ الکفار یجوز للمسلمین اقامۃ الجمعۃ والاعیاد ویصیر القاضی قاضیھا بتراض ویجب علیھم ان یلتمسوا الیا مسلما انتھی ما فی مفتاح السعادۃ ھکذا فی الطحطاوی ولومات الوالی اولم یحضر لفتنۃ ولم یوجد احد ممن لہ حق اقامۃ الجمعۃ ینصب العامۃ لھم خطیبًا للضرورۃ کما سیاتی مع انہ لا امیر ولا قاضی ثمہ اصلا وبھذا ظھر جھل من یقول لاتصح الجمعۃ فی ایام الفتنۃ مع انھا تصح فی البلاد التی استولی علیھا الکفار کذافی رد المحتار حاشیۃ درالمختار۔

پس ازیں روایات ہم واضح گروید کہ ادائے جمعہ بہر طور باید ترک آن نشاید، وچگونہ ترک کردہ شود کہ یکے از عمدہ شعائر اسلام است، دریں صورت بر علمائے دیندار واجب و لازم کہ برو لائل قطعیہ جمعہ نظر فرمایند، وحکم گذاردن آن بوجہ وجوب بروایت بلخی نمایند کہ این روایت مؤید بدلائل شرعیہ است چناں کہ بیانش گذشت نسازند کہ موجب دبال اخروی گردد، وما علینا الا البلاغ فقط الراقم العاجز سید محمد نذیر حسین

ھذا الجواب صحیح لما فی المجتبی عن ابی یوسف رحمۃ اللّٰہ علیہ انہ ما اجتموا فی اکبر مساجدھم للصلوۃ الخمس لم یسعھم وعلیہ فتوی اکثر الفقھاء قال ابو شجاع ھذا احسن ما قیل فیہ وفی الو لواجیۃ وھو صحیح کذافی البحر الرائق وغیرہ من کتب الفقہ فقط۔ حررہ حفیظ اللّٰہ خان

ھذا الجواب صحیح عند اھل العلم وعند اولی الالباب ارتیاب فعلی المرء ان لایترک الجمعۃ لانھا من اعظم شعائر الاسلام وکان لمن ترکھا عذاب یوم الحسرۃ والندامۃ من الدیان کما تدین تدان۔ حررہ کریم اللّٰہ

نماز جمعہ راہر گز ترک نباید کرد:

قال رسول اللّٰہ ﷺ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الحدیث رواہ ابوداؤد فقط کتبہ محمد قطب الدین الدھلوی

بعد حمد و نعت باید دانست کہ نماز جمعہ راہرگز ہرگز بدین شبہات کہ دشمنانِ دین می اندازند ترک نباید کرد لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من ترک الجمعۃ ثلث مرأت من غیر ضرورۃ طبع اللّٰہ علی قلبہ رواہ احمد والحاکم وصححہ۔ وروایت کرخی رابنا برخوف این وعید شدید باید گذاشت و زوائت بلخی کہ فتویٰ اکثر فقہا بران است عمل باید فرمود المصرھو ما لا یسع اکبر مساجدھم اھلہ المکلفین بھا وعلیہ فتوی اکثر الفقھا مجتبی ھکذا فی الدر المختار ثم اختلفوا فی تفسیر المصر الجامع یجوز فیہ اقامۃ الجمعۃ فقال بعضھم ما یعیش فیہ کل محترف بحرفۃ فی سنتہ الی سنتہ من غیران یحتاج الی حرفۃ اخری واختار البعض ماذکرہ المصنف فی المتن وقیل احسن ماقیل فیہ اذا کانوا بحال ای اھلہ لو اجتمعوا فی اکبر مساجدھم لم یسعھم ذلک حتی احتاجوا الی بناء مسجد الجمعۃ کذافی البدائع وشرح الوقایۃ انتھی ما فی المستغلص شرح کنز الدقائق۔ پس بدیں عبارت ہم واضح و لائح است کہ روایت بلخی احسن است از روایت خرکی بلکہ آن را مختار بعض قراردادہ اگرچہ روایت دیگر فتاویٰ مثل قاضی خاں و سراجیہ و حمادیہ و قنیہ و شروح حواشی کتب فقہ وال برین ہستند و خواستہ بود کہ تحریرش نمایم مگر چوں کہ حضرت عجیب اول دریں چیزے نگذاشتہ اند و تحقیق بلیغ نمودہ اند بناء برآن بریں کلمات اکتفاء رفتہ۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ محمد عبدالرب

سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱ھ … حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ ۱۲۸۱ھ محمد قطب الدین خان … محمد عبدالرب ۱۲۶۷ … محمد اسد علی ۱۲۸۱… محمد کریم اللہ

(فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵۹۸)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 155-145

محدث فتویٰ

تبصرے