سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) جمعہ دیہات میں پڑھا جاوے یا نہ اگر پڑھا جاوے..الخ

  • 4500
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1550

سوال

(69) جمعہ دیہات میں پڑھا جاوے یا نہ اگر پڑھا جاوے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ( ۱) جمعہ دیہات میں پڑھا جاوے یا نہ اگر پڑھا جاوے تو احتیاطاً ہو یا غیر۔

(۲) جواثیٰ قریہ ہے یا شہر اس میں جمعہ رسول اللہﷺ نے پڑھایا، یا اصحابوں نے ] ۔

(۳) وادی بنی سالم بن عوف مدینہ سے کتنے فاصلے پر ہے؟

(۴) رسول اللہﷺ جب ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو اس وقت بادشاہ تھے یا نہیں؟

(۵) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول لا جمعۃ ولا تشریق الخ کیا صحیح ہے یا ضعیف ہے؟

(۶) حدیث ابن ماجہ جس سے جمعہ ہونے کے لیے بادشاہ کا ہونا نکلتا ہے۔ وہ کیا ہے اور کیسی ہے، صحیح ہے یا ضعیف اور قرآن سے بادشاہ کا ہونا نکلتا ہے یا نہ؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ دیہات میں وجوباً و فرضاً پڑھنا چاہیے، اس واسطے کہ اولہ مثبت وجوب جمعہ عام ہیں، جیسے آیت (۱){ اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ الایۃ} اور حدیث الجمعۃ واجب علی کل محتلم رواہ ابوداؤد النسائی اولہ مثبت وجوب جمعہ سے جیسے شہر میں جمعہ واجب و فرض ہونا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح دیہات میں بھی، اور عام جب تک اس کے مقابل کوئی خاص موازن اس کی صحت میں نہ پایا جاوے۔ اپنے عموم پر محمول ہوتا ہے اور اولہ مثبت وجوب کی اپنے عموم پر باقی رہنے کی تائید روایات ذیل سے ہوتی ہے جن کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ (۲) عن عمرانہ کتب الی اھل البحرین ان جمعوا حیثما کنتم قال الحافظ وھذا یشمل المدن والقری قال اخرجہ ابن ابی شیبۃ ایضا من طریق ابی رافع عن ابی ھریرۃ عن عمرو صححہ ابن خزیمۃ وروی البیھقی من طریق الولید بن مسلم سألت اللیث ابن سعد فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصرو سواحلھا کان یجمعون الجمعۃ علی عھد عمرؓ و عثمانؓ بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ وعند عبدالرزاق باسناد صحیح عن ابن عمرؓ انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم کذافی فتح الباری ج۲، ص۳۶ مطبوعہ مصر۔ ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں، جو اولہ مثبت وجوب جمعہ کے عموم پر دلالت کرتی ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

۱:  جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور حدیث جمعہ ہر جوان آدمی پر واجب ہے۔

۲:  حضرت عمرؓ نے اہل بحرین کو لکھا کہ جہاں بھی تم ہو جمعہ پڑھا کرو، حافظ نے کہا یہ شہروں اور بستیوں دونوں کو شامل ہے، ولید بن مسلم نے کہا، میں نے لیث بن سعد سے پوچھا کہ انہوں نے کہا، ہر شہر یا بستی جس میں کوئی جماعت ہو، ان کو حکم دیا گیا ہے، اہل مصر اور اس کے کنارے پر رہنے والے حضرت عمر و عثمان کے زمانہ میں ان کے حکم سے جمعہ پڑھا کرتے تھے، حالاں کہ ان میں بعض صحابہ بھی موجود تھے، حضرت عبداللہ بن عمر مکہ اور مدینہ کے درمیان چشمے والوں کو دیکھتے کہ وہ اپنے خیموں میں جمعہ پڑھتے تھے اور عبداللہ بن عمر ان کو منع نہ کرتے تھے۔

(۲) جواثی قریہ ہے، شہر نہیں ہے، صحیح بخاری میں ہے عن ابن عباس قال اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللّٰہ ﷺ فی مسجد عبدالقیس بجراثی من البحرین وفی روایۃ لابی داؤد قریۃ من قری البحرین۔ یعنی مسجد نبویﷺ میں جمعہ ہونے کے بعد اول جمعہ مقام جواثی میں ہوا اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ جواثی بحرین کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے، دیکھو ابوداؤد کی نفس روایت ہے جواثی کا قریہ ہونا نصا و صراحتاً ثابت ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: قولہ بجواثی من البحرین وفی روایۃ وکیع قریۃ من قری البحرین وفی اخری عنہ من قری عبدالقیس۔ یعنی وکیع کی روایت میں ہے کہ جواثی بحرین کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے اور ان کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جواثی عبدالقیس کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے، خلاصہ یہ کہ بحرین ایک شہر ہے اور اس شہر کے متعلق متعدد قریے ہیں، انہی قریوں میں سے جواثی بھی ایک قریہ ہے۔ اور علامہ جوہری اور زمحشری اور ابن الاثیر نے جویہ لکھا ہے کہ جواثی بحرین کا ایک قلعہ کا نام ہے سو یہ جواثی کے قریہ ہونے کے منافی نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ شہر بحرین کا جواثی ایک قریہ ہے اور اسی قریہ میں قلعہ ہے۔ پس جواثی کو قریہ کہنا بھی صحیح ہے اور جواثی کو قلعہ کہنا بھی صحیح ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: (۱) وحی الجوھری والزمحشری وابن الاثیران جواثی اسم حصن بالبحرین وھذا لاینا فی کونھا قریۃ اور علامہ ابن المتین نے ابو الحسن لحنی سے جو نقل کیا ہے کہ جواثی ایک شہر ہے، سو ابو الحسن کا یہ قول قابل اعتبار اور لائق اعتماد کے نہیں ہے۔ کیوں کہ جب خود حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جواثی بحرین کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے، تو بھلا بمقابلہ اس کے ابو الحسن کا یہ قول کہ جواثی ایک شہر ہے کب قابل التفات ہوسکتا ہے، علاوہ اس کے ممکن ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ کے بعد جواثی قریہ سے شہر ہوگیا ہو، اسی بنا پر ابو الحسن نے جواثی کو شہر کہا ہو، جیسے مرور زمانہ کے بعد بہت سے قریہ آباد ہوتے ہوتے شہر بن جاتے ہیں اور بہت سے شہر ویران ہوتے ہوتے قریہ ہو جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

وحکی ابن المتین عن ابی الحسن اللخمی انھا مدینۃ وما ثبت فی نفس الحدیث من کونھا قریۃ اصح مع احتمال ان تکون فی الاوّل قریۃ ثم صارت مدینۃ انتھیٰ۔

۱:  جوہری و زمخشری اور ابن اثیر نے بیان کیا کہ جواثی بحرین میں ایک قلعہ کا نام ہے اور یہ بستی ہونے کے منافی نہیں۔

اور قریہ جواثی میں رسول اللہﷺ نے جمعہ نہیں پڑھا ہے بلکہ آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے پڑھا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواثی میں آپ کے حکم سے جمعہ پڑھا، اس واسطے کہ صحابہ کی یہ عادت تھی کہ بلا حکم اور بلا اجازت رسول اللہﷺ کے کوئی کام شرعی اور دینی محض اپنی طرف سے قائم و جاری نہیں کرتے تھے، امام بیہقی معرفۃ السنن میں فرماتے ہیں:

(۱) وکانوا لا یستبتدون بامور الشرع بجمیل نیاتھم فی الاسلام فالاشبہ انھم لم یقیموا فی ھذا القریۃ الا بامر النبی ﷺ انتھی۔

۱:  اپنی نیتوں کے اچھا ہونے کے باوجود وہ شرعی کاموں کو از خود شروع نہیں کیا کرتے تھے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے جمعہ نبی ؐ کے حکم سے شروع کیا ہوگا۔

حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

(۲) والظاھر ان عبدالقیس لم یجمعوا الا بامر النبی ﷺ لما یعرف من عادۃ الصحابۃ من عدم الاستبداد بالامور الشرعیۃ فی زمن الوحی ولانہ لوکان ذلک لایجوز لنزل فیہ القراٰن کما استدل جابرو ابوسعید علی جواز العزل فانھم فعلوہ والقراٰن ینزل قلم ینھوا عنہ انتھی واللہ اعلم

۲:  ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے نبیؐ کے حکم سے جمعہ شروع کیا تھا کیوں کہ صحابہ کی عادت معلوم ہے کہ وہ امور شرعیہ کو از خود شروع نہیں کیا کرتے تھے، اور اگر بستی میں جمعہ ناجائز ہوتا، تو قرآن نازل ہو رہا ہے اس میں اس کی مخالفت نازل ہوجاتی، جیسا کہ عزل کے جواز میں جابر اور ابو سعید نے قرآن نازل ہونے پر استدلال کیا تھا۔

(۳) وادی بنی سالم بن عوف مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر یا ایک میل سے کچھ کم یا زیادہ پر واقع ہے اس واسطے کہ وادی بنی سالم مدینہ اور قباء کے درمیان واقع ہے۔ اور قباء مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ تلخیص الجیر میں ہے:

(۳) روی البیھقی فی المعرفۃ عن المغازی ابن اسحق وموسی بن عقبۃٖ ان النبی ﷺ حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ مرعلی بنی سالم وھی قریۃ بین قباء والمدینۃ فادرکتہ الجمعۃ فصلی فیھم الجمعۃ وکانت اوّل جمعۃ صلاھا حین قدم ۔

۳:  نبیؐ جب بنی عمرو بن عوف کے محلہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانے لگے تو بنی سالم کی بستی میںجمعہ کا وقت ہوگیا، اور یہ بستی قبا اور مدینہ کے درمیان تھی وہاں آپ نے جمعہ پڑھایا اور یہ ہجرت کے بعد سب سے پہلا جمعہ تھا۔

اور مجمع البحار میں ہے۔

(۴) قباء بضم قاف وفتح موحدۃ مع مدو قصر موضع بمیلین او ثلاثۃ من المدینۃ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

۴:  قبا مدینہ منورہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے۔ ۱۲

(۴) رسول اللہﷺ جب سے مبعوث ہوئے اسی وقت سے آپ کو نبوت اور حکومت و سلطنت عطا ہوئی، مگر زمانہ ہجرت تک آپ کو غلبہ نہیں تھا اور اسلام میں اس وقت اور اس کے بعد کچھ اور دنوں تک ہر طرح کی غربت تھی۔

(۵) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول صحیح ہے، ابن حزم نے اس قول کی تصحیح کی ہے، جیسا کہ نیل الاوطار صفحہ ۱۱۰ جلد ۳ میں علامہ شوکانی نے لکھا ہے اور حافظ ابن حجر درایہ میں لکھتے ہیں:

(۱) حدیث لاجمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع لم اجدہ وروی عبدالرزاق عن علی موقوفا لا تشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع واسنادہ صحیح انتھٰی۔

۱:  یہ حدیث کہ جمعہ، تشریق اور عیدالفطر اور عیدالاضحی بڑے شہر میں ہوتی ہے یہ حدیث کہیں نہیں دیکھی گئی ہاں حضرت علیؓ کا قول ہے یعنی حدیث موقوف ہے اور سند صحیح ہے۔

اور فتح الباری صفحہ ۳۸۰ جلد ۲ میں لکھتے ہیں:

(۲) ومن ذلک حدیث علی لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع اخرجہ ابو عبید باسناد صحیح الیہ موقوفا۔

۲:  حدیث لاجمعۃ ولا تشریق حضرت علیؓ کا موقوف قول ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ ۱۲

مگر یہ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے (جس میں قیاس و اجتہاد کو دخل ہے، اور ساتھ اس کے آیت قرآن و احادیث صحیحہ کے اطلاق و عموم کے خلاف ہے، و نیز اقوال و افعال دیگر صحابہ کے معارض ہے و نیز معلوم نہیں کہ اس قول میں مصر سے ان کی کیا مراد ہے اور اس قول سے ان کا اصلی مقصود کیا ہے۔) صحت جمعہ کے لیے مصر کا شرط ہونا ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا اور اس قول سے آیت قرآنیہ و احادیث مرفوعہ کی ہرگز ہرگز تخصیص نہیں ہوسکتی۔

(۶) ابن ماجہ کی وہ حدیث یہ ہے:

(۳) حدثنا محمد بن عبداللّٰہ بن نمیرثنا الولید بن بکیر حدثنی عبداللہ بن محمد العدوی عن علی بن زید عن سعید بن المسیب عن جابر بن عبداللّٰہ قال خطبنا رسول اللّٰہ ﷺ فقال اتعلمون ان اللّٰہ قد افترض علیکم الجمعۃ فی مقامی ھذا فی یومی ھذا فی شھری ھذا من عامی ھذا الٰی یوم القیمۃ فمن ترکھا فی حیاتی او بعدی ولہ امام عادل او جائر الحدیث۔

۳:  جابر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺنے ہم کو خطبہ کردیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ کو فرض کیا ہے۔ میرے اس مقام اس دن، اس شہر، اس سال میں اور قیامت تک فرض ہے۔ جس نے اس کو میری زندگی یا وفات کے بعد چھوڑ دیا، اور اس کا کوئی امام عادل یا ظالم ہو۔ الحدیث ۱۲

یہ حدیث بالکل ہی ضعیف ہے، اس حدیث کا راوی عبداللہ بن محمد العدوی متروک الحدیث ہے۔ امام وکیع نے فرمایا ہے کہ یہ عبداللہ بن محمد العدوی جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے یعنی اس شخص سے حدیث روایت کرنا حلال نہیں ہے، ابن حبان نے فرمایا کہ اس شخص کی حدیث سے احتجاج جائز نہیں ہے۔ تقریب التہذیب میں ہے:

(۱) عبداللّٰہ بن محمد العدوی متروک الحدیث رماہ وکیع بالوضع انتھی۔

۱:  عبداللہ بن محمد عدوی متروک ہے وکیع نے کہا یہ حدیثیں بناتا تھا۔

میزان الاعتدال میں ہے:

(۲) قال البخاری منکر الحدیث وقال وکیع یضع الحدیث وقال ابن حبان لا یجوز الاحتجاج بخبرہٖ انتھی۔

۲:  بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے وکیع نے کہا یہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔ ابن حبان نے کہا اس کی حدیث سے استدلال جائز نہیں۔

اور میزان میں ابان بن جبلہ کے ترجمہ میں مرقوم ہے:

(۳) نقل ابن القطان ابن البخاری قال کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلاتحل الروایۃ عنہ انتھٰی۔

۳:  امام بخاری نے کہا ہر وہ آدمی جس کے متعلق میں منکر الحدیث کہوں اس سے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ۱۲

اور عبداللہ بن محمد العدوی کے علاوہ اس حدیث کے بعض اور راوی بھی ضعیف ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ابن ماجہ کی یہ حدیث بالکل ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے اور قرآن سے صحت جمعہ کے لیے بادشاہ کا ہونا نہیں نکلتا، بلکہ قرآن سے یہ نکلتا ہے کہ اقامت جمعہ ہر مقام میں جائز و درست ہے، دیہات ہو یا شہر بادشاہ ہو یا نہ ہو، اور اقامت جمعہ کے لیے بادشاہ کا ہونا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، کتبہ محمد عبدالحق ملتانی عفی عنہ

سید محمد نذیر حسین                  

(فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵۰۹)  

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 138-142

محدث فتویٰ

تبصرے