سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) جمعہ کی فرضیت سورۃ جمعہ سے بیان ہوتی ہے..الخ

  • 4490
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 939

سوال

(59) جمعہ کی فرضیت سورۃ جمعہ سے بیان ہوتی ہے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ کی فرضیت سورۃ جمعہ سے بیان ہوتی ہے۔ لیکن مطابق تعریف لاشبہ فیہ کے چند شبہات اس میں ظاہر ہیں۔

شبہ ۱: یا ایھا الذین اٰمنوا میں حکم عام ہے تو اس حکم سے مذکورہ اشخاص عورت وغیرہ کیوں مستثنیٰ ہے۔

شبہ ۲: اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ میں من ظھر الجمعۃ نہیں آیا۔ ظہر کی خصوصیت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔ یوم سے مراد سالم دن ہوتا ہے۔

شبہ ۳: فاسعوا الی ذکر اللہ سے مراد خدا کو یاد کرنا ہے یعنی ذکر بمعنی یاد کرنے کے ہے، چاہیے تھا کہ فاسعوا الی صلوٰۃ الجمعۃ درج ہوتا۔

شبہ ۴: وذروا البیع کا لفظ صاف ثابت کرتا ہے کہ یہ حکم صرف ان ہی نمازیوں کے واسطے تھا، جو اس وقت بیع شراء کے خیال سے خدا کے ذکر کو چھوڑ کر مسجد سے نکل گئے تھے جو کہ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے۔ تو اَب ان شبہات سے معلوم ہوا کہ مطابق تعریف فرض کے یہ فرض مطلق نہ ہوا۔ کیوں کہ ہر ایک شے اپنی علامات سے پہچانی جاتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک حدیث سے کتاب اللہ کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ اس لیے عورت وغیرہ کی حدیث نے تخصیص کردی۔ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ اہل برادری بالاجماع مخصوص ہیں تو یہ آیۃ عام مخصوص منہ البعض ہوگئی جو ظنی ہے، پس حدیث سے تخصیص ہوگئی۔

دوسرے شبہ کا جواب بھی یہی ہے کہ حدیثوں میں ظہر کا وقت آگیا ہے۔

تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ فاسعوا الی ذکر اللہ میں صلوٰۃ کے لفظ کی ضرورت نہیں، کیوں کہ نودی للصلوٰۃ میں صلوٰۃ کا لفظ آچکا ہے۔

چوتھے شبہ کا جواب یہ ہے کہ خصوص مورد کا اعتبار نہیں، عموم لفظ کا اعتبار ہے۔ یہ اُصولی مسئلہ ہے جس کو سائل سمجھا نہیں۔

رہی یہ بات کہ بیع سے کیا مراد ہے۔ سو اس کا سائل نے سوال نہیں کیا، لیکن ہم جواب دے دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ ابن ماجہ وغیرہ میں روایت ہے کہ شاید کہ ایک تمہارا بکریاں لے کر مدینہ سے ایک دو میل کے فاصلہ پر جا رہے، پس گھاس مشکل سے ملے، پھر ذرا اور دور چلا جائے۔ پس جمعہ کو حاضر نہ ہو پھر جمعہ آئے تو حاضر نہ ہو۔ یہاں تک کہ اللہ اُس کے دل پر مہر کردے۔

اس حدیث سے اور اس جیسی اور احادیث سے معلوم ہوا کہ بیع سے عام کا روبار مراد ہے۔ صرف شانِ نزول کے لحاظ سے بیع کا لفظ بولا گیا۔ جیسے وَلَا تَکْرَھُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِر …تَحَصُّنًا میں شانِ نزول کے لحاظ سے تحصن کی شرف ذکر کردی ہے۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 133

محدث فتویٰ

تبصرے