مفتی خیر المدارس ملتان کی طرف سے ایک فتویٰ موصول ہوا ہے جو حسب ذیل ہے:
صورت مسئولہ میں چوں کہ یہ گاؤں قریہ کبیرہ یا شہر نہیں، نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے، لہٰذا اس میں ادائیگی جمعہ جائز نہیں، تبلیغ کی یہ صورت کرلی جائے لیکن نماز دو رکعت جمعہ کی بجائے چار رکعت ظہر ادا کی جائے یا روزانہ صبح کو درس قرآن شریف کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بندہ عبدالستار نائب مفتی خیر المدارس ملتان
الجواب صحیح … عبداللہ عفی عنہ مفتی خیر المدارس ملتان … مہر مدرسہ عربی خیر المدارس ملتان
یہ فتویٰ آپ کی خدمت میں ارسال ہے مکمل حوالجات سے جواب تحریر فرمائیں۔
گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے متعلق اس قسم کا ایک سوال موضع کتلوئی تحصیل قصور ضلع لاہور کی طرف سے بھی آیا ہے۔ افسوس ہے کہ دیوبندی حضرات نے دیہات میں جمعہ بند کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ہمارے مقلد بھائیوں پر تقلید کا اثر غالب ہے۔ اس لیے مفتی خیر المدارس نے بلا دلیل ہی جواب لکھ دیا ہے۔ تاکہ لوگ تقلید پر ہی جمے رہیں لیکن ان کو معصوم ہونا چاہیے کہ یہ روشنی کا زمانہ ہے۔ اور ہر زمانہ کم و بیش روشنی کا ہوتا ہے۔ اس لیے بغیر دلیل کے جواب لکھنا علماء کی شان کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی ایک اور بدعت کا اضافہ کردیا کہ ظہر بھی پڑھی جائے اور خطبہ بھی ہو، جیسے آج کل شہروں میں یہ بدعت جاری ہے کہ دو خطبے پڑھتے ہیں۔ ایک پہلی اذان کے بعد اور دوسرا دوسری اذان کے بعد عربی میں۔
اللہ تعالیٰ بدعات سے بچائے اور سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اب گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے جواز کے دلائل ذیل میں پڑھیے:
دلیل اوّل
سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف دوڑو، اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ (سورہ جمعہ پارہ ۲۸)
یہ آیت ہر ایمان والے کو شامل ہے، خواہ وہ شہر میں ہو یا گاؤں میں اور خرید و فروخت سے مراد ہر قسم کا کاروبار ہے۔ کیوں کہ اگر خاص خرید و فروخت ہی مراد ہو تو لازم آئے گا کہ جمعہ صرف خرید و فروخت کرنے والوں پر ہو، اور باقی کاروبار کرنے والے خواہ شہر میں ہوں یا گاؤں میں، جیسے لوہار، بڑھئی، راج، مزدور کپڑا وغیرہ بننے والے، کھیتی باڑی کرنے والے، باغات کے مالی وغیرہ یہ سب جمعہ سے سبکدوش ہوں۔
علاوہ ازیں قرآن مجید پارہ ۱۸ رکوع گیارہ میں پانچ نمازوں اور زکوٰۃ وغیرہ کے ساتھ تجارت اور فروخت کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
{ رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃ }
’’ یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو تجارت اور خرید و فروخت ذکر الٰہی نماز اور زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی۔‘‘
اب غور فرمائیے! کیا باقی نمازیں اور زکوٰۃ وغیرہ صرف شہر والوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ہرگز نہیں، بس اسی طرح نماز جمعہ کو سمجھ لیں۔
دلیل دوم
ابوداؤد میں ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الاعلی اربعۃ عبد مملوک او امرأۃ اوصبی او مریض۔
یعنی ہر مسلمان پر (خواہ وہ شہر میں ہو یا قریہ میں) جمعہ واجب ہے، جماعت میں، مگر چار پر واجب نہیں) 1 غلام 2 عورت 3 لڑکا 4 بیمار
دوسری حدیث میں مسافر کا بھی ذکر ہے کہ اس پر بھی جمعہ نہیں۔
دلیل سوم
نسائی شریف میں ہے:
روح الجمعۃ واجب علی کل محتلم۔
یعنی ہر بالغ پر جمعہ کے لیے جانا واجب ہے۔
دلیل چہارم
بخاری اور ابوداؤد میں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلا جمعہ مسجد نبوی کے بعد جواثیٰ میں پڑھا گیا ہے جو بہرین کے دیہات سے ایک گاؤں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ابن تین نے ابو الحسن اللخمی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ جواثیٰ شہر ہے مگر جو نفس حدیث میں آگیا ہے وہ مقدم ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی احتمال ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں جواثیٰ گاؤں ہو۔ اور ابو الحسن اللخمی رحمہ اللہ کے زمانہ میں اس کی آبادی بڑھ جانے سے یہ شہر ہوگیا ہو۔
نیز حافظ ابن حجر رحمہم اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: جوہری رحمہ اللہ، زمحشری رحمہ اللہ اور ابن اثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ کہ جواثیٰ قلعہ کا نام ہے۔ لیکن یہ گاؤں ہونے کے منافی نہیں کیوں کہ عرب میں اس وقت کوئی مستقل حکومت تو تھی ہی نہیں جو لوگ زیادہ محفوظ تھے اُن کے گاؤں بھی قلعوں کی شکل کے تھے۔
دلیل پنجم
بخاری شریف میں ہے کہ زریق رحمہ اللہ اپنی زمین میں رہتے تھے اور وہاں حبشیوں وغیرہ کی ایک جماعت بھی رہتی تھی۔ زریق رحمہ اللہ نے جو شہرایلہ کے حاکم تھے ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کو جو اس وقت وادی القریٰ میں تھے۔ لکھ کر مسئلہ دریافت کیا کہ میں اپنی زمین میں جمعہ پڑھوں۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے اُن کو جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔ اور ساتھ ہی یہ حدیث لکھی۔
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہٖ
’’یعنی تم سب راعی ہو اور اپنی اپنی رعیت سے پوچھے جاؤ گے۔‘‘
مطلب ابن شہاب رحمہ اللہ کا یہ تھا کہ تو اس وقت امیر ہے۔ رعیت کی ہر قسم کی دینی و دنیوی ذمہ داری تجھ پر ہے جس سے جمعہ بھی ہے۔ پس جمعہ پڑھنا چاہیے۔
دلیل ششم
فتح الباری شرح بخاری میں ہے عبدالرزاق نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکہ مدینہ کے درمیان پانی پر اُترے ہوئے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے اور ان پر اعتراض نہ کرتے۔
دلیل ہفتم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الجیر میں لکھتے ہیں کہ ابو رافع سے روایت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا اور وہ بحرین میں تھے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جَمِعُوْا حَیْثُ کُنْتُمْ ۔یعنی جہاں ہو، جمعہ پڑھو، یعنی جمعہ کی کسی جگہ کے ساتھ خصوصیت نہیں، شہر ہو یا گاؤں سب جگہ جمعہ پڑھو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
{ حیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہٗ }
’’ یعنی تم جہاں ہو (نماز کے وقت) قبلہ رُخ منہ کرو۔ ‘‘
ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کو روایت کیا ہے اور ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے بھی اس کو روایت کیا ہے کہ یہ روایت اچھی سند والی ہے۔
دلیل ہشتم
بیہقی میں ہے۔ ولید بن مسلم کہتے ہیں۔ میں نے لیث بن سعد رحمہ اللہ سے (گاؤں میں جمعہ کی بابت) سوال کیا تو فرمایا ہر شہر یا گاؤں میں جس جگہ جماعت ہو، جمعہ پڑھنے کا حکم دیے گئے ہیں۔ کیوں کہ اہل مصر اور گرد و نواح کے لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمعہ پڑھتے تھے اور ان میں کئی صحابہ بھی تھے۔ لیث بن سعد رحمہ اللہ نے اگرچہ صحابہ کا زمانہ نہیں پایا۔ کیوں تبع تابعی ہیں، مگر جن لوگوں میں جمعہ ہوتا تھا۔ ان کو ملے ہیں۔ مصر کے رہنے والے ہیں نیز حنفیہ کے نزدیک مرسل تبع تابعی (جس میں تابعی اور صحابی کا ذکر نہ ہو) معتبر ہے۔ (نور الانوار وغیرہ) اور اس میں صرف تابعی رحمہ اللہ کا ذکر نہیں۔ پس یہ بطریق اولیٰ معتبر ہوگی۔ اس کے علاوہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے کہ مجتہد جب کسی حدیث سے استدلال کرے تو یہ حدیث کی تصحیح ہے۔ پس لیث بن سعد رحمہ اللہ کے استدلال کرنے سے اس حدیث کی صحت ثابت ہوگئی۔ نیز یہ روایت باقی دلائل کی تائید ہے اور تائید میں تو تبع تابعی کا اپنا قول بھی معتبر ہے چہ جائیکہ اس کو صحابہ کی طرف نسبت کرے۔
دلیل نہم
گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے دلائل کتب حنفیہ میں بھی بہت ہیں۔ بطور نمونہ ایک حوالہ پڑھئے۔ کبیری شرح منیہ میں ہے کہ یہ بات صحت کو پہنچ گئی ہے کہ ربذہ میں (جو مدینہ کے قریب ایک جگہ ہے) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام امیر تھے ان کے پیچھے دس صحابہ رضی اللہ عنہم نے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ ابن حزم نے محلی میں اس کا ذکر کیا ہے۔
اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے انہی دلائل پر اکتفا کی ہے۔ ورنہ دلائل اور بھی بہت ہیں۔ جیسے بنی سالم میں رسول اللہﷺ کا جمعہ پڑھنا۔ اور حرہ بنی بیاضہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا جمعہ پڑھنا اور یہ دونوں گاؤں مدینہ سے ایک ایک کوس (سوا میل) کے فاصلہ پر ہیں۔ پہلی روایت مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے احسن القریٰ ۸۸ میں بحوالہ اہلِ سیر ذکر کی ہے۔ اور دوسری روایت مولوی عبدالرشید صاحب گنگوہی نے اوثق القریٰ کے ص۶ میں بحوالہ ابوداؤد اور مولوی ظہیر الحسن نیموی نے جامع الآثار کے ص۱۳ میں بحوالہ ابن ماجہ ذکر ہے۔
اسی طرح عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جنگل میں جمعہ پڑھا ہے۔ اور انس رضی اللہ عنہ نے زاویہ میں نماز عید پڑھی اور زاویہ بصرہ سے چھ میل دور ہے۔ اور عید و جمعہ کا حنفیہ کے نزدیک ایک ہی حکم ہے۔
غرض اس قسم کے دلائل بہت سے ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب اطفاء الشمہ میں ہے۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمین
مولانا عبداللہ روپڑی
(فتاویٰ اہل حدیث ص۳۶۷)