سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) لاؤڈ سپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرأت نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز

  • 4461
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1619

سوال

(30) لاؤڈ سپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرأت نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاؤڈ سپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرأت نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز نیز اگر ایسا کرے تو اس کی اور جماعت کی نماز ہوسکتی ہے یا نہ؟ (عبدالخالق سری نگری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیک نیتی سے جائز ہے۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۔

شرفیہ

رسول اللہﷺ کے زمانے میں سب سے بڑا اجتماع حجۃ الوداع کا تھا اس میں آپ نے عید کے دن خطبہ فرمایا۔ تو آپ تقریر فرماتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ترجمان اور مبلغ تھے۔ عن رافع بن عمرو المذنی قال رایت رسول اللّٰہ ﷺ یخطب الناس بمنی حین ارتفع الضحٰی علی بغلۃ شھباء وعلی رضی اللّٰہ عنہ یعبر والناس بینہ قائم وقاعد انتھی سنن ابی داؤد ص ۲۷۷ وقال فی التنقیع رجالہ موثقون واخرجہ ایضًا النسائی ص۱۳۸،ج۱سنت تو یہ تھی مگر چوں کہ آج کل جدید لذیذ کی بلا عموم البلویٰ ہے اور بعض اصحاب نے جدل سے اباحت فرمائی ہے۔ خیر سنت نہ سہی اباحت ہی سہی مگر یہ امر امام کو نماز میں جائز نہیں اس لیے کہ خطبہ میں تو مقصود اسماع سامعین ہے یعنی سب کو سنانا مقصود ہے اور نماز میں قرأت یا تکبیر میں بعض کا اسماع کافی ہے۔ اس لیے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور کی علالت کے وقت آپ امام تھے اور صدیق اکبر مکبر تھے کیوں کہ آپ کی آواز پست تھی، تکبیر بھی سب کو نہ سنی جاتی تھی اور حجۃ الوداع میں تکبیر کا ثبوت نہیں، ثابت ہوا کہ امام کی قرأت و تکبیر کا سب کو سنانا ضروری نہیں لہٰذا بلا ضرورت ایک چیز کو مقصود بنانا نماز میں لاؤڈ سپیکر لگانا تشریع جدید ہے۔ نیز آگے چل کر خطرہ جدید ہے کہ لوگ مقتدی اور امام اپنے اپنے گھروں میں اس کی اقتداء کرکے مساجد کو معطل کردیں اور نماز کھیل بن جائے۔

(ابوسعید شرف الدین دہلوی)

لاؤڈ سپیکر کے جواز پر علمائے کرام کا عام طور پر اتفاق ہوچکا ہے، عدم جواز کے قائلین اس کا ثبوت نہیں دے سکے اور نہ ہی اس کے عدم جواز پر ممانعت پر کوئی دلیل ملتی ہے۔

(مفتی اہل حدیث سوہدرہ پنجاب پاکستان ۲۴۸۔ ۱۹۵۱)  

(فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۵۹۰)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 80

محدث فتویٰ

تبصرے