سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) عید و جمعہ دونوں ایک ہی دن جمع ہو جاویں تو..الخ

  • 4450
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1600

سوال

(17) عید و جمعہ دونوں ایک ہی دن جمع ہو جاویں تو..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر اتفاق سے عید و جمعہ دونوں ایک ہی دن جمع ہو جاویں تو اس میں جمعہ کا پڑھنا رخصت ہے یا نہیں زید ایسے دنوں میں جمع نہیں ادا کرتا، اور کہتا ہے کہ میں ایک سنت مردہ کو زندہ کرتا ہوں، یہ کہنا اس کا کیسا ہے؟ خطبہ جمعہ کے لیے عصا یا قوس کا لینا ضروری ہے یا غیر ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاویں، تو اس دن اختیار ہے جس کا جی چاہیے جمعہ پڑھے اور جس کا جی چاہے نہ پڑھے، اور ایسے دنوں میں زید جو نماز جمعہ ادا نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میں ایک مردہ سنت کو زندہ کرتا ہوں، سو اس کا (۱) یہ کہنا اچھا ہے۔ منتقی میں ہے :

عن زید بن ارقمؓ سألہ معاویۃ ھل شھدت مع رسول اللہ ﷺ عیدین اجتمعا قال نعم صلی العید اوّل النھار ثم رخص فی الجمعۃ فقال من شاء ان یجمع فینجمع رواہ احمد و ابوداؤد ابن ماجۃ وعن ابی ھریرۃؓ عن رسول اللّٰہ ﷺ انہ قال قد اجتمع فی یومکم ھذا عید ان فمن شاء اجزاء وانا مجمعون رواہ ابوداؤد ابن ماجۃ۔ وعن وھب بن کیسانؓ قال اجتمع عیدان علی عھد ابن الزبیرؓ فاخر الخروج حتی تعالیٰ النھار ثم خرج فخطب ثم نزل فصلی ولم یصل للناس یوم الجمعۃ فذکرت ذلک لابن عباس فقال اصاب (۱) السنۃ رواہ النسائی و ابوداؤد بنحوہ لکن من روایۃ عطاء انتھی۔

۱:  زید بن ارقمؓ سے امیر معاویہؓ نے پوچھا کہ رسول اللہﷺکے ساتھ کسی ایسے موقع کی حاضری تم کو ملی ہے جب کہ جمعہ اور عید اکٹھے ہوگئے ہوں۔ زید نے کہا ہاں! آپ نے دن کے پہلے حصہ میں عید کی نماز پڑھی۔ پھر جمعہ کے متعلق رخصت دے دی کہ جو جمعہ پڑھنا چاہے، پڑھ لے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج تمہاری دو عیدیں جمع ہوگئیں ہیں۔ جو چاہے اس کے لیے عید کافی ہے، اور ہم جمعہ پڑھیں گے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عید اور جمعہ اکٹھے ہوگئے اور آپ عید کے لیے دیر سے نکلے، خطبہ دیا اور نیچے اتر آئے عید کی نماز پڑھی اور لوگوں کو جمعہ نہ پڑھایا ابن عباس سے اس کا تذکرہ ہوا۔ تو انہوں نے فرمایا اس نے سنت کے مطابق کیا۔

خطبہ جمعہ کے لیے عصایا قوس کا لینا ضروری نہیں ہے بلکہ مندوب و مستحب ہے عن لحکم بن الحزن شھدنا الجمعۃ مع رسول اللہ ﷺ فقال متوکئا علی العصا او قوس رواہ ابوداؤد یعنی حکم بن حزن سے روایت ہے کہ ہم لوگ جمعہ میں حاضر ہوئے رسول اللہﷺ کے ساتھ آپ عصایا قوس پر ٹیک دے کر کھڑے ہوئے، روایت کیا اس کو ابوداؤد نے قال (۱) فی سبل السلام تحت ھذا الحدیث وفی الحدیث دلیل انہ یندب للخطیب الاعتماد علی عصا او نحوہ وقت خطبۃ والحکمۃ ان فی ذلک ربط القلب ولتعتمد یدیہ علی العبث ومن لم یجد ما یعتمد علیہ ارسل یدیہ او وضع الیمنی علی الیسری او علی جانب المنبر ویکرہ دق المنبر بالسیف اذا لم یؤثر وھو بدعۃ۔ واللہ اعلم

(فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل، ص ۵۷۳)

۱:  اس حدیث میں دلیل ہے کہ خطیب کو عصا پر ٹیک لگانا مستحب ہے، اور اس میں یہ حکمت ہے کہ اس سے دل جمعی رہتی ہے جو عصاپر ٹیک نہ لگائے، وہ کبھی ہاتھوں کو چھوڑ دے گا، کبھی باندھ لے گا، اور تلوار سے منبر کو کھٹکھٹانا مکروہ ہے۔ ۱۲

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 59

محدث فتویٰ

تبصرے