سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(04) عید اور جمعہ دونوں جمع ہوں تو رخصت کس میں ہے؟

  • 4437
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1462

سوال

(04) عید اور جمعہ دونوں جمع ہوں تو رخصت کس میں ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عید اور جمعہ دونوں جمع ہوں تو رخصت کس میں ہے اگر جمعہ میں رخصت ہے تو ظہر ادا نہ کرنے سے مواخذہ ہوگا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عید و جمعہ کے مجتمع ہونے کے وقت ترک جمعہ کے لیے رخصت اور اجازت ہے اور ظہر کے لیے بھی یہی رخصت ہے۔ ابوداؤد ابن ماجہ میں زید بن ارقم سے مروی ہے۔ سالہ معاویۃ ھل شھدت مع رسول اللّٰہ ﷺ عیدین اجتمعا قال نعم صلی العبد اوّل النھار ثم رخص فی یوم الجمعۃ فقال من شاء ان یجمع فلیجمع یعنی زید سے معاویہ نے سوال کیا کہ تم کبھی رسول اللہﷺ کے ساتھ ایسی حالت میں حاضر ہوئے جب کہ عید اور جمعہ دونوں حاضر ہوئے ہوں انہوں نے اقرار کیا کہ رسول اللہﷺ نے عید شروع میں ادا فرمائی پھر جمعہ کے لیے رخصت فرمائی۔ اور ابوداؤد میں عطا سے مروی ہے قال اجتمع یوم الجمعۃ ویوم الفطر علی عھد ابن الزبیر فقال عید ان اجتمعا فی واحد فصلی ھی رکعتین بکرۃ لم یزد علیھا حتی صلی العصریعنی ابن زبیر کے زمانہ خلافت میں جمعہ و عید الفطر ایک روز جمع ہوئے انہوں نے کہا دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوگئیں پس شروع دن میں دو رکعتیں پڑھیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں پڑھا یہاں تک کہ نماز عصر ادا فرمائی۔ ابن زبیر کے اس فعل پر کسی صحابی سے انکار نہیں پایا گیا،امام شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں قولہ لم یزد علیھا حتی صلّٰی العصر ظاھرہ انہ لم یصل الظھرو فیہ ان الجمعۃ اذا سقطت بوجہ من الوجوہ لم یجب علی من سقطت عنہ ان یصلی الظھر یعنی ظاہر ظاہر عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن زبیر نے ظہر بھی ادا نہیں فرمائی اس سے معلوم ہوا جب کسی وجہ شرعی سے جمعہ ساقط ہو جائے تو ظہر بھی واجب نہیں ہوتی کیوں کہ کسی دلیل سے ثابت نہیں۔  واللہ اعلم

مولانا عبدالجبار عمر پوری             

(ارشاد السائلین الی المسائل الثلاثین)          

توضیح الکلام:

جمعہ اور عید دونوں ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کی رخصت پر نص موجود ہے لیکن نماز ظہر کی رخصت پر کوئی نص نہیں۔ صرف عبداللہ بن زبیر کے واقعہ میں عدم ظہر کا احتمال ہے اور احتمالات میں بلا تعیین حجت نہیں ہوتی۔ عون المعبود شرح ابوداؤد میں ہے۔

فالجزم بان مذھب ابن الزبیر سقوط صلوٰۃ الظھر فی یوم الجمعۃ یکون عیداً علی من صلے صلوٰۃ العید لھذہ الروایۃ غیر صحیح لاحتمال انہ صلی الظھر فی منزلہ بل فی قول عطاء انھم صلو اوحد انا ای الظھر ما یشعر بانہ لاقائل بسقوطہ ولا یقال ان مرادہ صلوٰۃ الجمعہ وحدانًا فانھا لاتصح الابجماعۃ اجماعًا ثم القول بان الاصل فی یوم الجمعۃ صلوٰۃ الجمعۃ والظھر بدل عنھا قول مرجوح بل الظھر ھو الفرض الاصلی المفروض لیلۃ الاسراء والجمعۃ متاخرۃ فرضھا ثم اذا فاتت وجب الظھر اجماعًا فھی البدل عنہ وقد حققناہ فی رسالۃ مستقلۃ انتھٰی کلام محمد بن اسماعیل الامیر۔ عون المعبود ۴۱۷،ج۱

اس عبادت سے معلوم ہوا کہ ظہر اصل ہے اور جمعہ بدل ہے۔ جمعہ کی رخصت سے ظہر کی رخصت نہیں مطابق قول عطا کے، تمام صحابہ اور تابعین جو جمعہ کے لیے حاضر ہوئے تھے سب نے نماز ظہر الگ الگ پڑھی۔ 

ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 52-53

محدث فتویٰ

تبصرے