سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین ان مسئلوں کے بارے میں

  • 4424
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2263

سوال

(235) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین ان مسئلوں کے بارے میں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین ان مسئلوں کے بارے میں:

نمبر۱:             بعض علمائے دیوبندی فرماتے ہیں کہ میرے درس میں حضور ﷺ تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں: ((صَدَقْتَ صَدَقْتَ)) اور مجھے کسی کے درس میں لفظ نہیں آتا، صرف تمہارے درس میں مزہ آتا ہے۔ کیا حضور ﷺ واقعی دنیا میں آتے ہیں اور درس سنتے ہیں؟

نمبر۲:             بعض علمائے اہل حدیث فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ دن کو (میں جاگتا تھا کتاب لکھ رہا تھا) میری بیٹھک میں تشریف فرما ہوئے۔ کیا صحیح ہے کہ حضور ﷺ مولویوں کے گھر تشریف لاتے ہیں۔

نمبر۳:             علمائے دیو بندی راوی ہیں کہ بعض بزرگ مر گئے مگر مرنے کے بعد کھڑکھڑا کے آئے اور ایک بزرگ بعد مرگ بولے احمد علی! کیا یہ ممکن ہے؟ مردہ بول سکتا ہے یا ہنس سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((وبا اللّٰہ التوفیق)) آپ کے سوالات کے متعلق کچھ عرض کرنا مشکل ہے اس لحاظ سے نہیں کہ سوالات میں کوئی خاص اشکال ہے۔ صرف اس لیے کہ عوام میں اہل توحید و سنت کے متعلق مغالطہ پیدا کیا گیا ہے کہ یہ لوگ نہ تصوف سے آشنا ہیں نہ کرامات کے قائل ہیں نہ اہل توحید میں کوئی ولی ہوا ہے اور بعنیہٖ یہ خیال حضرات دیوبند کے متعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب تعصب کی کارفرمائی ہے حقیقت ہو یا نہ ہو۔ ایک دوسرے پر طعن علماء کی بھی عادت سی ہو گئی ہے اس عادت سے شاید ہی علمائے کرام کا کچھ قبطہ محفوظ ہو۔ اس کا لازمی سا اثر ہے کہ ایسے حضرت اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مبالغہ آمیزی شروع ہو جاتی ہے قرآن عزیز نے ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو دوسروں سے اپنی تعریف سننا پسند کریں۔{یُحِبُّوْنَ اَنْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا} لیکن یہاں یہ حال ہے کہ خود اپنے منہ سے اپنی تعریف شروع کر دیتے ہیں حالاں کہ قرآن عزیز نے صراحۃً اس سے منع فرمایا ہے۔{فَلَا تَزَکُّوْ اَنْفُسَکُمْ ھَوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی} اپنے منہ سے اپنی تعریف نہ کرو۔ اللہ تعایٰ اہل تقویٰ کو خوب جانتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے دیو بند اکابر میں یہ عادت نہ تھی لیکن اب نئے حضرات اس میدان میں اُتر رہے ہیں، وہ درس و تدریس کے ساتھ بیعت و ارادت کا کام بھی کرتے ہیں اور یہ سارا کام کاروباری انداز میں ہوتا ہے۔ {فَاِلٰی اللّٰہِ الْمُشْتکیٰ} گویا خدا تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ فساہ ابی وامی بھی ان حضرات کے کاروبار کا سرمایہ ہیں۔ {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے آنحضرت ﷺ بجسدہ الاطہر اس دنیا میں تشریف نہیں لاتے۔ نہ وہ ہر مقام پر حاضر و ناظر ہیں، نہ ہی ان کو دنیوی زندگی حاصل ہے۔ برزخی زندگی کی شرعاً یہ نوعیت نہیں ہے کہ اس دنیا سے قطع تعلق کے بعد پھر وہ اس دنیا میں آئیں ان حضرات کے مواعظ اور درس سنین جن کے علم کی حیثیت آں حضرت ﷺ کے علم کے سامنے پر کاہ کے برابر بھی نہیں۔ آنحضرت علم نبوۃ کی وجہ ے تظری بلکہ وہمی علوم سے قطعی بے نیاز ہیں۔ پھر آن حضرت ان کے درس سے کیوں استفادہ فرما ویں۔ پھر ان کی تصدیق فرما دیں اور تصدیق کی آواز بھی یہی حضرات حاضرین تک پہنچائیں۔ عجیب ماجرا ہے۔ اگر آنحضرت ﷺ کی اس دنیا میں واپسی کا ذرہ بھر بھی امکان ہوتا یا آپ فداہٗ روحی اس معاملہ میں کسی خدائی قانون کے پابند نہ ہوتے، تو واقعہ حرہ میں ضرور تشریف لاتے اور اس سانحہ کو روک دیتے۔ سفقیہ بنو ساعدہ میں تشریف لاتے اور اس سانحہ کو روک دیتے۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں تشریف لا کر خلافت کا فیصلہ بذات خود فرماتے، واقعہ کربلا کو ناممکن بنا دیتے۔ مختار ثقفی کا فتنہ قطعاً نمودار نہ ہو سکتا۔ حجا ج بن یوسف کے مظالم کا امکان نہ رہتا۔ اگر وعظ ونصیحت سننا ہی حضرت کا مقصود ہوتا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبات ضرور سنتے اور صدقت اور مرحبا کی سند عطا فرماتے۔ حضرت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی فقہوں کے اختلافی مسائل میں بذات خود فیصلہ فرما کر اختلافات ختم فرما دیتے امام بخاری اور باقی ائمہ حدیث کو حدیث کے صحت و سقم کے متعلق براہ راست ہدایات فرماتے نہ علم جرح و تعدیل کی ضرورت ہوتی۔ علماء اصول حدیث اور اصول فقہ کے ان اسفار و دفاتر کی ضرورت نہ ہوتی۔ حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ شیخ عبد القادر حنبلی، جنید، شبلی رحمہ اللہ و دیگر اکابر ائمہ تصوف سے ملتے یا یہ حضرات آنحضرت ﷺ سے ملتے اور یہ حضرات اپنی تصانیف اور مفلوظات میں ان ملاقاتوں کا ضرور تذکرہ فرماتے ۔ افسوس ہے ان مقدس بزرگوں سے ایسی کوئی شیخی منقول نہیں ہے۔

وائے برو دعوئے ٰ اسلام ودیں

بود بے شبلی و نہ جنید این چنیس

ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس طرح تشریف آوری کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الروح اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی شرح صدور، شیخ عبد الحق کی مدارج النبوت مواہبب، لدنیہ وغیرہ میں بعض بزرگون کے متعلق اس سے ملتی جلتی کہانیاں مرقوم ہیں۔ لیکن یہ قصے شرعی حجت نہیں۔ گذشتہ ایام میں جب آنحضرت ﷺ کی حیات یا موت کی بحث احباب دیوبند میں چھڑی تھی۔ تو مدعیان حیات کا انحصار حضرات دیو بند کی ایسی ہی بعض تحریرات پر تھا۔ معلوم کہ اس قدر اہم اعتقادی مسئلہ کے لیے یہ کہانیاں مفید نہیں ہو سکتیں۔ تصوف قدیم اور ائمہ سنت کے ارشادات میں آنحضرت کی اس طرح کی زندگی کا قطعی پتہ نہیں نہ ہی کسی وعظ میں حضرت تشریف لائے نہ درس سن کر ((صَدَقْتَ صَدَقْتَ)) کی سند عطا فرمائی۔ تصوف جید (جس کا رواج اب دنیا علمی دیو بندی میں عام ہو رہا ہے اور جا بجا بیعت کی دکانیں چھائی جا رہی ہیں) بھی ایسی باتیں سننے میں راضی ہیں اگر کوئی مثالی یا کشفی صوعرت نظر بھی آ جائے تو ان میں اچھے لوگ عوام میں ذکر نہیں کرتے نہ ہی ریا و سمعہ سے اپنی دکان کو رونق دینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اسے چھپاتے پھرتے ہیں اس لیے کہ یہ چیزیں ظنی ہیں اس میں شیطانی وسوسوں کا کافی حد تک امکان ہے۔

نمبر۲:   اگر کسی نام کے اہل حدیث کو بھی اس قسم کا جنون سمایا ہے اسے بھی دماغی ہسپتال بھجوانے کی کوشش کیجئے۔ تاکہ نہ خود برباد ہو نہ دوسروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے اسی قسم کے قصے بعض خوابوں کی صورت میں بعض حضرات سے منقول ہیں لیکن خواب شرعی حجت نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بزرگ خواب میں نظر آئے اور کوئی نصیحت یا ہدایت فرمائے مگر وہ خواب ہی ہو گا، شرعی دلیل نہ ہو گا۔

نمبر۳:   قرآن اور سنت میں میری ناقص رائے میں کوئی ایسا واقعہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ اور صحابہ ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ مولانا احمد علی صاحب مرحوم کے متعلق ان کے ورثاء سے دریافت فرمائیں وہ ہنسے تھے یا نہیں، موت کے بعد کچھ فرمایا تھا یا نہیں۔ مرحوم کی قبر سے کوخوشبو کے متعلق بڑی شہرت بھی تھی وہ بھی غپ ہی ثابت ہوئی جب تک عرق گلاب اور عطر کا اثر قائم رہا، جو ان کے عقیدت مندوں نے قبر پر گرایا تھا خوشبو آتی رہی وہ عشاق اپنے اپنے مشاغل میں لگ گئے خوشبو ختم ہو گئی، اب مرحوم کے کچھ بے وقوف مرید مرحوم کی قبر پر پھول ڈالتے قبر کے پاس تسبیحات پڑھتے ہیں یہ جہالت ہے، مولانا کے ورثاء کو چاہیے کہ اس بدعت کو بزور بند کر یں مولانا مرحوم کی ابتدائی زندگی بڑی مجاہدانہ تھی ان کے مجاہدانہ میں سادگی اور توحید نمایاں تھی جوں جوں مرحوم جدید تصوف میں پھنستے گئے وہ رنگ جاتا رہا۔ بریلوی پیروں کی طرح عام دست بوسی اور رسمی آداب مرحوم پر غالب ہو گئے نہ پہلا زہد رہا نہ ہر واعظ میں توحید کا رنگ غالب رہا ہے تاہم مرحوم کا وجود غنیمت تھا۔ آج کے حضرات دیوبندی تو روز بروز بریلوی حضرات کے قریب تر ہو رہے ہیں۔ البتہ مولانا حسین علی کے تلامذہ اس سے کافی حد تک محفوظ ہیں مگر تصوف مستحدث ان میں بھی راسخ ہو رہا ہے۔ ہمارے سادہ لوح اہل حدیث کو دیوبند کے موحد اور متساہل حضرات میں امتیاز کرنا چاہیے۔ اب ان میں اکثر حضرات رسمی پیری مریدی بطور کاروبار کر کے بریلوی حضرات کی طرح خانقاہی نظام کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کوشش کرتے ہیں اہل حدیث سے لوگوں کو متنفر کریں جب بریلوی اور اہل حدیث اختلاف کا تذکرہ آئے تو یہ عموماً شرک پسند حضرات کو اہل توحید پر ترجیح دیتے ہیں اہل کتاب کی طرح {ھٰولَائِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا} کہہ کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتے ہیں اور شرک پسند حضرات کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں ہمارے سادہ لوح اہل حدیث حضرات چونکہ اس نئی پالیسی سے بے خبر ہیں اور وہ پرانے تصورات کے مطابق ان حضرات کی ان کہانیوں تزکیہ او رتوحید کے دعووں سے غلطی کھا کر ان دعادی کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں چند افراد اب بھی احبا ب دیوبند میں موجود ہیں جن کے دل میں توحید کے لیے ایک سوز اور تڑپ پائی جاتی ے۔ ان کا انداز بھی کاروباری نہیں مجھے احباب دیوبند سے حسن ظن ہے ان میں دین کی خدمت اور توحید جذبہ کہیں کہیں پایا جاتا ہے مگر یہ نئی پالیسی جو جدید دنیائے دیوبند میں پائی جا رہی ہے اس سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ بزرگوں کے متعلق یہ قصے اور کہانیاں جن کس سائل نے ذکر کیا ہے۔ اسی جدید پالیسی کا نتیجہ ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تصوف جدید کے بہت بڑے ماہر تھے ترجمان تھے ان کے انباء کرام اور تلامذہ پر بھی یہ ذوق غالب ہے اس کے باوجود وہ تصوف جدید کے رسوم سے متنفر اور خائف ہیں۔ اپنے وصیت نامہ میں … وصیت نمبر۳ کے آخر میں فرماتے ہیں : نسبتہاء صوفیہ غنیمت کبریٰ است ورسوم ایشان ہیچ نمے ارز واین سخن گراں خواہد بود امام مرد کارے فرمودہ اند برحسب آں مے باید کرو۔ ص ۱۱۶ ملحقہ عقد الجید اسی وصیت نمبر۳ کے شروع میں فرماتے ہیں: وصیت دیگر آن است کہ درست و درست مشائخ این زمان کہ بانواع بدعت مبتلا ہستند ہر گز نباید دادوبیعت ایشاں نباید کرود۔ و بغلو عام مفرد نباید بودونہ بکرامات زیا کہ اکثر غلو عام سبب رسم است و امور رسمیہ بحقیقت اعتبارے نیست و کرامات فروشاں ایں زماں ہمہ الّا ما شاء اللہ طلسمات ونیز نجات را کرامات دانستد اند۔ ص ۱۱۴

اس زمانہ کے مشائخ کی بیعت نہیں کرنا چاہیے لوگ مختلف قسم کی بدعات سے ملوث ہیں اور ان کے عام غلو سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے نہ ہی ان کی کرامات پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ غلو رسوم کا نتیجہ ہے اور رسمی چیزوں کی حقیقت کے بالمقابل کوئی قیمت نہیں۔ اس زمانے کے کرامت فروش طلسمات اور شعبدہ بازون کو کرامت سمجھے ہیں آپ نے تینوں سوالات میں جن بعض دیوبندی اہل حدیث حضرات کا ذکر فرمایا ہے وہی حضرات ہیں جن کو شاہ صاحب نے کرامت فروشی کا خطاب دیا ہے۔ اعاذنا اللہ عنہم۔ (الاعتصام جلد ۱۹ ش ۲۴)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 424-420

محدث فتویٰ

تبصرے