مردے پر کیا کیا گزرتا ہے اور کہاں رہتا ہے؟
نزع کے وقت ملائکہ حاضر ہوتے ہیں کہ وہ تابع حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ہیں اور روح کو بدن کے اجزاء سے کھینچتے ہیں اور جب روح کے لینے کا وقت ہوتا ہے تو حضرت عزرائیل علیہ السلام خود اپنے ہاتھ میں روح کو لیتے ہیں۔ اور حق تعالیٰ نے زمین کا طبقہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کے سامنے اس طرح رکھا ہے کہ جس طرح کھانے کا طبق کھانے والے کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اور حضرت عزرائیل علیہ السلام کا ہاتھ کہ روح قبض کرنے کے لیے ہے اُس میں اس قدر انگلیاں حق تعالیٰ نے بنائی ہیں کہ ہر اُنگلی اپنے کام میں مشغول رہتی ہے۔ ایک اُنگلی دوسری اُنگلی کے کام میں مزاہم نہیں ہوتی تو جب حضرت عزرائیل علیہ السلام وہ روح اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو فوراً من جملہ اُن کے خدام کے ایک جماعت فرشتوں کی وہ روح لے لیتی ہے تو اگر وہ ناجت کے قابل ہوتا ہے تو جو ملائکہ اُس روح کو لیتے ہیں وہ نہایت خوبصورت ہوتے ہیں اور ان سے خوشبو آتی ہے اور نہایت نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ اور ریشمی کپڑا بہت کی خوشبو سے معطر کر کے لیے رہتے ہیں۔ انہیں کپڑوں میں اس روح کو لیتے ہیں اور اگر وہ شخص دوزخی اور شقی ہوتا ہے تو اُن ملائکہ کے خلاف دوسری طرح کے ملائکہ ٹاٹ میں کہ اُ سے بدبو آتی ہے اُس روح کو لیتے ہیں اور آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور کافر کی روح کے لیے آسمان کا دروازہ ملائکہ نہیں کھولتے اور لعنت بھیجتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ لے جائو اس کو اس کی ماں کی طرف کہ ہاویہ ہے تو ملائکہ اس کو سجین میں گرا دیتے ہیں اور وہاں اس کا عمل نامہ پہنچاتے ہیں۔ اور سجین ایک پتھر کا نام ہے کہ دوزخ کے اوپر رکھا ہوا ہے وہاں کفار کے اعمال لکھنے والے ملائکہ جمع ہوتے ہیں او رجو ملائکہ اس کام کے دروغہ ہیں ان کے حوالے وہ عمل نامہ کر دیتے ہیں اور وہاں روح کی حاضری دلوا کر پھر اُس مردے کے بدن کے پاس اُس روح پہنچاتے ہیں اور صالحین مومنین کی روح کے لیے آسمان کا دروازہ ملائکہ کھول دیتے اور خوش وہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہتر روح ہے کہ زمین کی طرف سے آئی ہے۔ خدا کی رحمت تجھ پر ہو اور اُس بدن پر جس میں تو دنیا میں تھی اور س کو تو نے آباد کیا تھا اور اس روح کو ملائکہ علیین تک پہنچاتے ہیں۔ اور علیین وہ مقام ہے کہ وہاں ملائکہ مقربین حاضر ہوتے ہیں۔ اور انسانوں میں جو کاملین ہوتے ہیں وہاں پہنچائے جاتے ہیں تو ملائکہ اس روح کی حاضری وہاں دلواتے ہیں اور اس کا عمل نامہ حوالے کرتے ہیں پھر اس کو اس کے بدن کے پاس لے آتے ہیں اور ہنوز اس میت کو غسل دینے اور اس کی تجہیز و تکفین کے سامان میں لوگ مصروف رہتے ہیں۔ کہ ملائکہ وہ روح ہاتھ میں لیے ہوئے وہاں حاضر ہو جاتے ہیں اور جب جنازہ لے جاتے ہیں اور قبر میں رکھتے ہیں یا اگر وہ کافر ہے تو جب اس کو آگ میں رکھتے ہیں تو ملائکہ اس کی روح اس کے بدن کے پاس چھوڑ دیتے ہیں اور خود چلے جاتے ہیں اور جب لوگ اس کے دفن سے فارغ ہوتے ہیں یا اگر وہ کافر ہے تو جب لوگ ا س کے جلانے سے فارغ ہوتے ہیں تو دو فرشتے کہ ایک کانام منکر ہے اور دوسرے فرشتے کا نام نکیر ہے آتے ہیں۔ اور اس کو بٹھاتے ہیں۔ تو اگر وہ ایمان دار ہوتا ہے تو بلا تشویش اطمینان کے ساتھ بیٹھتا ہے اور بعض لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ آفتاب کے غروب کا وقت ہے تو کہتا ہے کہ مجھ کو جلد چھوڑ دو کہ عصر کی نماز سے فارغ ہو جاؤں، آفتاب غروب کے قریب ہے، اور وقت چلا جاتا ہے۔ بہرحال ہر میت سے پوچھتے ہیں تیرا پروردگار کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تو اپنے دین میں کس کا تابع اور آپ کے حق میں یعنی محمد مصطفی ﷺ کے حق میں کیا اعتقاد رکھتا ہے۔ تو بندۂ مومن کہتا ہے کہ میرا معبود خداا ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے پیغمبر حضرت محمدمصطفی ﷺ ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ واصحابہ وسلم نے حق تعالیٰ کی کتاب ہمارے پاس پہنچائی اور میں نے آنحضرت ﷺ کی واصحابہٖ وسلم کی حقیقت دریافت کی اور میں آپ پر ایمان لایا اور میں نے آپ کی متابعت کی تو وہ فرشتے اُس میت کو اس کے عمل سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہ وہ عمل اس کے ان اعمال میں سے ہوتا ہے جو ایمان کے بعد وہ بجا لایا اور اس عمل کے ذرعیہ سے وہ بخشا گیا۔ اور وہ فرشتے کہتے ہیں کہ اب تو آرام سے سو رہ جس طرح اطمینان سے بلاتشویش عروس سوتی ہے۔ اور اُس کی قبر جہاں تک اُس کی نظر جاتی ہے کشادہ کر دیتے ہیں اور روشن کر دیتے ہیں اور پہلے دوزخ کی طرف سے دریچہ کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھ حق تعالیٰ نے بڑی بلا تیرے سر سے دفع کی اور پھر وہ دریچہ بند کر دیتے ہیں اور اُس کے بعد بہشت کی طرف سے دریچہ کھول دیتے ہیں اور یہ شخص اُس کی تازگی خوشبو سے بہرہ مند اور خوش ہوتا ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ایک شخص آتا ہے۔ وہ شخص نہایت شکیل و جمیل اور خوبصورت ہوتا ہے اور نہایت مہربانی کے ساتھ پیش آتا ہے، اور کہتا ہے کہ میں قرآن ہوں تم ہمیشہ میرے ساتھ رہے یا وہ شخص کہتا ہے کہ میں فلاں علم ہوں کہ میرے ساتھ تم کو دنیا میں نسبت تھی یا کہتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں کہ دنیا میںتم نے میرا لحاظ رکھا، یہ سب رزق و فرش اور لباس تمہارے آرام کے لیے اسباب ہے، تو وہ شخص خراماں خراماں آہستہ آہستہ بطور سیر کے اس طرف پھرتا ہے ۔ اور اپنے عزیز و اقارب اور اپنے دوستوں کے ساتھ کہ اس جہاں سے فوت ہوئے ہیں ملاقات کرتا ہے اور وہ لوگ بطور ضیافت کے اور کبھی بطور تفریح کے اپنے مقام میں اس کو لے جاتے ہیں اور کبھی بطور تہنیت کے خود اس کے پاس آتے ہیں۔ اور رو بروز اس کے دل کا اطمینان زیادہ ہوتا ہے اور جن لوگوں کی نجات ہو جاتی ہے۔ ان کے لیے چار طرح کا مکان وہاں رہتا ہے ۔ ایک مکان خلوت کا رہتا ہے اور گویا وہ ایسا مکان ہوتا ہے، جیسے رات کے وقت رہنے کے لیے مکان ہوتا ہے اور دوسر امکان دربار کا رہتا ہے ۔ کہ جو لوگ اس کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے ان کے ساتھ اس مکان میں دربار کرتا ہے۔ اور تیسرا مکان سیر و تماشا کے لیے رہتا ہے اور اس کے متعلق ایسی چیزیں رہتی ہیں، جیسے دنیا میں چاہ زمزم اور مساجد متبرکہ اور ایسے دوسرے مقامات ہیں کہ برزخ میں ظاہر کیے جاتے ہیں۔ اور چوتھا مکان دوستوں اور ہمسایہ لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے رہتا ہے جیسے دیوان خانہ ہوتا ہے۔ اور وہاں یہ مکانات بندہ کی آخیر عمر میں تیار کیے جاتے ہیں اور جب تیار ہو جاتے ہیں تو اس بندے کو یہاں سے لے جاتے ہیں۔ اور یہ گمان نہ کیا جاوے کہ یہ مکانات تنگ قبر کے اندر کس طرح ہوتے ہیں۔ تو ایسا نہیں بلکہ یہ تنگ قبر صرف بمنزلہ دروازے کے ہوتی ہے۔ کہ اس دروازے سے ہوکر ان مکانات میں جاتے ہیں اور ان مکانات سے بعضے مکان آسمان اور زمین کے درمیان ہیں۔ اور بعضے مکانات دوسرے اور تیسرے آسمان پر ہیں اور شہداء کے لیے بطور مکانات پرنور قندیلیں ہیں کہ عرش کے نیچے آویزاں کی ہوئی ہیں او ر لوگ وہاں صرف سرور حاصل ہونے کی غرض سے ذکر اور تلاوت اور نماز اور متبرک مقامات کی زیارت میں مشغول ہوتے ہیں اور قوم کے جو لوگ بزرگی میں وہاں بچوں کی نسبت کہ یہاں سے فوت ہو کر گئے ہیں باہم مقرر کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان باہم تزویج کا عقد منعقد کریں گے۔ اور وہاں یعنی برزخ میں جماع کی لذت کے سوا ہر طرح کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اور عبادتوں میں روزہ کے سوا اور جو عبادت کرنے کی خواہش ہووے کر سکتا ہے۔ اور اوقات متبرکہ میں مثلاً شب قدر اور شب جمعہ میں اپنے اُن عزیزوں کے پاس گزرتے ہیں کہ وہ عزیز اُن اموات کو یاد کرتے ہیں اور ان کے اہل و عیال جو زندہ رہتے ہیں ان کے احوال سے اُن اموات کو اطلاع ہوا کرتی ہے۔ کبھی اُس ذریعہ سے اطلاع ہوتی ہے، کہ وہ اموات (؎۱) خود ان کے پاس آتے ہیں اور کبھی ملائکہ ان کا احوال پہنچاتے ہیں کہ فرشتے اموات سے ملاقات کرتے اور زندہ لوگوں کا پیغام اور احوال پہنچاتے ہیں اور اموات کے پاس جو شخص جاتا ہے اور دعا کرتا ہے اور کلام کرتا ہے تو ان اموات کو یہ سب معلوم ہوتا ہے اس واسطے کہ اُن کا حواس باقی رہتا ہے کہ یہ سب ان کو معلوم کرایا جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بزرگان دین پر غیب کے امور منکشف کر دئیے جاتے ہیں اور جو کچھ شدنی اور ناشدنی ہے بواسطہ اروح طیبہ کے ملاء اعلیٰ اور متکفلان کارخانہ قضاء قد سے بزرگان دین کو معلوم کرایا جاتا ہے اور میت خود خواب میں زندہ لوگوں سے ملاقات کرتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو فرشتہ روح پر موکل ہے وہ اس کی صورت کے ساتھ متشکل ہو کر نیک و بد احوال سے ااطلاع دیتا ہے۔ لیکن کفار اور منکرین اور منافقین کا حال یہ ہے کہ یہ سب سوال میں متحیر ہو جاتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ یہ کون تھے اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارا دین فلاں دین ہے اور ہمارا معبود فلاں بت ہے، یا فلاں روح ہے تو ان پر عذاب کرتے ہیں بعضوں پر یہ عذاب ہوتا ہے کہ قبر دونوں طرف سے ملا دی جاتی ہے اور ان کی ہڈی سرمے کی مانند ہو جاتی ہے۔ اور کبھی آگ کا عذاب کرتے ہیں اور کبھی سانپ اور بچھو مسلط کرتے ہیں۔ اور کبھی آہنی اورآتشیں گرز سے مارتے ہیں کہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور پھر گرز اُٹھانے کے ساتھ ہی اس کا بدن تیار ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح انواع و اقسام کا عذاب اس پر کرتے ہیں اور جو لوگ دنیا میں صبح کی نماز نہیں پڑھتے ان کو داغتے ہیں اور جو شخص خود کشی کرتا ہے ۔ وہ جس طور سے اپنی جان مارتا ہے، اسی طور سے بعد موت کے وہ خود اپنے اوپر عذاب کیا کرتا ہے اور جو شخص اپنی حلال عورت چھوڑ کر زنا کی رغبت کرتا ہے۔ اس پر یہ عذاب ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کھانے کے دو طبق رکھے جاتے ہیں، ایک طبق میں عمدہ پاکیزہ کھانا رہتا ہے ااور دوسرے طبق میں نجس متعفن کھانے کی چیز رہتی ہے ۔ اور اس کو وہ ناپاک چیز کھلاتے ہیں اور جو شخص نہیں کھاتا تو اس کو خبیث خون کی نہر میں دال دیتے ہیں اور جب وہ نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے منہ پر پتھر مارتے ہیں اور اس کو نکلنے نہیں دیتے اور بعضوں پریہ عذاب کرتے ہیں کہ اس کو فقر اور گرسنگی اور برہنگی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور ذلت و رسوائی کے ساتھ دردر پھراتے ہیں اور جو شخص دنیا میںزکوٰۃ نہیں دیتا ہے تو اس کا مال دوزخ کی آگ سے گرم کرتے ہیں اور اس سے اس کی پیشانی اور پیٹھ اور اس کے دونوں پہلو داغتے ہیں اور یہ سب عذاب ہمیشہ سب گناہ گاروں پر نہیں ہوتا ہے بلکہ بعضے گناہ گاروں پر یہ عذاب ہمیشہ ہوتا ہے۔ اور وہ برابر اس تکلیف میں مبتلا رہیں گے اور بعضے گناہ گاروں پر ہر روز کسی وقت عذاب ہوتا ہے، اور کسی وقت ان کو عذاب سے رہا کرتے ہیں، اور بعضے گناہ گاروں پر یہ صرف شب جمعہ تک عذاب ہوتا ہے یعنی جب وہ مرتے ہیں تو اس دن سے شب قدر جمعہ کے آنے تک ان پر عذاب ہوتا ہے۔ اور جب شب جمعہ آتی ہے۔ تو پھر وہ عذاب سے رہا کر دیے جاتے ہیں اور پھر کبھی اُن پر برزخ میں عذاب نہیں ہوتا۔ اور بعضے گناہ گاروں پر رمضان شریف کے مہینے تک عذاب ہوتا ہے یعنی جب وہ مر جاتے ہیں اس وقت رمضان شریف کا مہینہ آنے تک ان پر عذاب ہوتا ہے، پھر جب رمضان شریف آتا ہے تو وہ عذاب سے رہا کر دیے جاتے ہیں اور پھر ان پر کبھی برزخ میں عذاب نہیں ہوتا ہے اور بعضے گناہ گاروں پر اس وقت تک عذاب ہوتا ہے کہ ان کے حق میں شفاعت ہووے اور پھر شفاعت کے بعد عذاب سے لوگ رہا کر دیے جاتے ہیں۔ فقط
(فتاویٰ عزیزی جلد دوم ص۲۵۸)