کیا فرماتے ہیں، علمائے دین کہ سماع موتیٰ ثابت ہے یا نہیں، جواب حنفی مذہب سے ہو۔ اور حنفی مذہب کی کتب معتبرہ سے سند ہو۔
سماع موتیٰ حنفی مذہب میں ثابت نہیں، بلکہ حنفی مذہب کی کتب معتبرہ میں اس کی صراحۃً نفی ثابت ہے، چنانچہ کتب معتبرہ کی عبارتیں نفی سماع موتیٰ کے لیے اس پرچہ میں نقل کی جاتی ہیں:
((واما الکلام فلان المقصود منہ الافہام والموت ینافیہ ولا یرد ما فی الصحیح من قولہ ﷺ لاھل قلیب بدر ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فقال عمرا تکلم المیت یا رسول اللّٰہ فقال علیہ السلام والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع من ھٰؤلاء او منھم فقد اجاب عنہ المشائخ بانہ غیر ثابت یعنی من جھۃ المعنی وذلک لان عائشۃ روت بقولہ تعالیٰ وما انت بمسمع من فی القبور انک لا تسمع الموتی وانہ انما قالہ علی وجہہ الموعظۃ للاحیاء وبانہ مخصوص باولئک تضعیفا للحسرۃ علیھم وبانہ خصوصیۃ لہ علیھم السلام معجزۃ لکن یشکل علیہم ما فی مسلم ان المیت لیسمع قرع نعالھم اذا انصرفوا الا ان یخصوا ذلک باول اولضع فی القبر مقدمۃ للسوال جمعا بینہ وبین الاٰیتین فانہ شبہ فیھما الکفار بالموتی بعدم افادۃ سماعہم وھو فرع عدم سماع الموتی ھذا حاصل ما ذکرہ فی الفتح ھان وفی الجنائز ومعنی الجواب الاولی انہ وان صح سندہ لکنہ معلوم من جھتہ المعنی بعلۃ تقضی عدم ثبوتہ عنہ علیہ السلام وھی مخالفۃ للقراٰن فافہم عبارت رد المختار المشتہر باشامی ج ۳ ص ۱۲۰ مطبع مجتبائی دہلی))
’’یعنی اگر کوئی قسم کھا کر کسی زندہ کو کہے کہ میں تجھ سے کلام نہیں کروں گا پس اگر وہ اس سے اس کے مرنے کے بعد کلام کرے، تو وہ حانث نہ ہو گا، کیونکہ کلام سے مخاطب کو سمجھانا مقصود ہوتا ہے، اور موتیٰ سمجھ نہیں سکتے، اگر اس پر کوئی اعتراض کرے، کہ آنحضرت ﷺ نے موتیٰ کفار بدر کو (جو گہرائی میں پھینکے گئے تھے) کہا آیا تم اپنے رب کے وعدہ کو جو اس نے تمہاری ہلاکت کے بارہ میں کیا تھا، حق اور سچ پایا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسو لاللہ ﷺ آیا آپ میت سے کلام کرتے ہیں، فرمایا آنحضرت نے قسم ہے، اس ذات پاک کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (یعنی خدائے عزوجل) رتم لوگ ان سے یزادہ نہیں نستے (یعنی وہ سنتے ہیں) اس شبہ کا جواب ہمارے فقہاء مشائخ نے کئی وجہ سے دیا ہے، وہوہذا۔‘‘
اول یہ کہ گو یہ حدیث الفاظ کی رو سے صحیح ہے، لیکن معنی کے رو ثابت نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو آیات شریفہ {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمََوْتٰی} ’’اور نہیں سناتا تو اے محمد ! اہل قبور کو، اور نہیں سناتا تو مردوں کو‘‘ سے رد کر دیا ہے۔‘‘
دوم وجہ یہ ہے کہ یہ کلام آنحضرت ﷺ نے ان مردوں سے زندوں کی نصیحت اور عبرت کے لیے کی ہے۔
سوم وجہ یہ کہ اگر ان کو زندہ مان بھی لیں تو یونہی مردوں کے ساتھ خاص ہے، اس وقت اللہ نے ان کو اس لیے زندہ کیا تھا کہ ان پر حسرت اور ندامت زیادہ ہو۔
چہارم وجہ یہ ہے کہ ان کا اس وقت زندہ ہونا آنحضرت ﷺ کا معجزہ ہے لیکن اس پر بموجب حدیث صحیح مسلم کے شبہ ہوتا ہے، کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے لوٹتے ہیں، تو میت ان کی جوتیوں کا کھٹکا سنتی ہے، سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زندگانی میت کو خاص اسی وقت حاصل ہوتی ہے، تاکہ وہ منکر اور نکیر کے سوالوں کا جواب دے سکے، اس حدیث کے یہ معنی اس لیے ہیں کہ درمیان حدیث مذکور اور دو آیۃ مذکورہ کے تعارض و تخالف واقع نہ ہو، کیونکہ ان دو آیتوں میں اللہ عزوجل شانہ ٗ نے کفار کو موتی کے ساتھ اس امر میں تشبیہ دی ہے کہ کفار سننے سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اور یہ تشبیہ ان میں تب ہی ثابت ہوتی ہے، جب موتیٰ کا نہ سننا ثابت ہو، یہ اُس عبارت کا خلاصہ و ماحصل ہے جو فتح القیر کے باب الیمین اور کتاب الجنائز میں واقع ہے، اور پہلے جواب کا حاصل یہ ہے، کہ اگرچہ حدیث قصہ بدر کی سند صحیح ہے، لیکن وہ معنی کی رو سے معلول ہے، اور اس میں علت یعنی خفی نقص یہ ہے کہ اس حدیث کا آنحضرت ﷺ سے نہ ثابت ہونا پایا جاتا ہے، کیونکہ قرآن شریف کے مخالف ہے۔
((وکذالک الکلام یعنی اذا حلف لا یکمہ اقتصر علی الحیوۃ فلو کلمہ بعد موتہ لَا یحنث لان المقصود منہ الافہام والموت ینا فیہ لانہ لا یسمع وال یفہم وارد انہ قال لاھل القلیب قلبی بدر ھل وجدتم ما وعد ربکم حق فقال عمرا تکلم الموتی یَا رسول اللّٰہ فقال ﷺ والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع من ھولاء او منھم واجیب بانہ غیر ثابت یعنی من جھۃ المعنی والفھو فی الصحیح وذلک بسبب ان عائشۃ ردتہ بقولہٖ تعالیٰ وما انت بمسمع من فی القبور فانک لَا تسمع الموتی وبانہ انما قال لہ علی وجہہ الموعظۃ للاحیاء لا لافہام الموتی کما روی عن علی رضی اللہ عنہ انہ قال السَّلام علیکم دار قوم مومنین اما نسائکم فنکحت واما اموالکم فقسمت واما دورکم فقد سکنت فھذا خبرکم عندنا وما خبرنا عندکم وبانہ مخصوص باولٰٓئک تضعیفا للحسرۃ علیھم لکن بقی انہ روی عنہ عرم ان المیت یسمع خفق نعالھم اذا نصرفوا وفی کتاب الجنائز وتارۃ بان تلک الخصوصیۃ لہ علیہ الصلوٰۃ والسلام معجزۃ وزیادۃ حسرۃ علی الکافرین وتارۃ بانہ من ضرب المثل کما قال علی رضی اللہ عنہ ویشکل علیھم ما فی مسلم ان المیت یسمع قرع نعالھم اذا انصرفوا اللھم الا ان یخصوا ذلک باول الوضع فی القبر مقدمۃ للسوال جمعا بینۃ ویبن الاٰیٰتین فانھما یفید ان تحقیق عدم سماعہم فانہ تعالیٰ شبہ الکفار بالموتی لا فادۃ تعذرسما عہم وھو فرع عدم سماع الموتی))
(یہ عبارت فتح القدیر کی جلد ۱ ص ۲۸۳۱ و ج۲ ص ۵۴ کتاب الجنائز میں مذکور ہے۔)
’’یعنی اگر کسی نے قسم کھائی کہ میں فلاں شخص سے کلام نہیں کروں گا، تو یہ قسم صرف زندگی تک رہ سکتی ہے، اگر اس کے مرنے کے بعد اس سے کلام کی تو حانث نہ ہو گا۔ کیونکہ کلام سے مقصود سمجھانا ہوتا ہے، اور موت اس کی منافی ہے، کیونکہ میت نہ سنتی ہے، اور نہ سمجھتی ہے، اور اس پر جو یہ شبہ ہوتا ہے، کہ آنحضرت ﷺ نے اہل قلیب بدر کو فرمایا کہ تم نے اللہ کے وعدہ کو جو اُس نے تمہاری ہلاکت کی بابت کیا تھا، سچ پایا، اور اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ آپ میت سے سوال کرتے ہیں، فرمایا آنحضرت ﷺ نے قسم ہے، اللہ کی کہ میں جو کچھ ان کو کہتا ہوں، تم ان سے زیادہ نہیں سنتے، سو اس کا جواب یہ ہے، کہ یہ حدیث گو لفظاً صحیح ہے، کہ بخاری شریف کی ہے، مگر معنی کی راہ سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر انکار کیا۔ اور اس کے مقابل میں یہ دو آیت شریف پڑھیں: {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَْ فِی الْقُبُوْرِ اِنَّکَ لَا تُسْمَعُ الْمَوْتٰی}
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے زندوں کی نصیحت کے لیے فرمایا ہے، نہ مردوں کو سمجھانے کے لیے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوںنے مردوں کو کہا کہ السلام علیکم! اے قوم مومنوں کی صاحبان خانہ گور۔ تمہاری عورتوں نے نکاح کر لیے تمہارے مال تقسیم کیے گئے۔ تمہارے گھروں اور اور لوگ آباد ہو گئے۔ یہ تو تمہاری ہم کو خبر ہے، پس بتائو کہ ہماری تم کو کیا خبر ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے، کہ یہ زندگی اُن مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ ان کو اس لیے زندہ کیا کہ ان کو حسرت اور ندامت زیادہ ہو، اور اسی کتاب کے باب الجنائز میں اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معجزہ ہے تو کہ ان پر حسرت زیادہ ہو۔
چوتھا جواب یہ ہے۔ جو یہ ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، لیکن اس پر ایک یہ شبہ ہوتا ہے کہ حدیث صحیح مسلم میں وارد ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس ہوتے ہیں۔ میت ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے۔ اس سے سماع موتیٰ ثابت ہوتا ہے۔‘‘
سو اس کا جواب فقہا نے یہ دیا ہے کہ یہ زندگی ان کو اسی وقت اس لیے حاصل ہوتی ہے تو کہ وہ فرشتوں کے سوال کا جواب دے سکیں۔ اور یہ معنی اس لیے کیے گئے ہیں کہ ان دو آیت مذکورہ اور حدیث کے درماین موافقت ہوجاوے۔ کیونکہ ان دو آیتوں سے سماع موتیٰ کی نفی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو موتیٰ سے تشبیہ دی ہے۔ اس لیے کفار سننے سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اور یہ اس بات پر موقوف ہے۔ کہ مردے نہیں سنتے:
((لان المقصود من الکلام الافھام ولاموت نیافیہ۔ لان المراد من الکلام الاسماع والمیت لیس باھل الاسماع الا تری الی قولہ تعالیٰ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَمَا اَنْتَ بُِسْمَعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ فان قیل قد روی انہ علیہ السلام کلم اصحاب القلیب یوم بدر حیث سماھم باسمائہم فقال ھل وجدتم مَا وعد ربکم حقا فقد وجدت ما وع فی ربی حقا۔ قلت احباب الاکمل بان ذلک کان معجزۃ لہ علیہ السلام وقال الاتری انہم لما قالوا یا رسول اللّٰہ انھم لا یسمعون۔ فقال انہم یسمعون کما تسمعون وانما اراد بھم انہم یعلمن ان الذی قلت لھم حقا قال کا کی فان قیل قد روی ان قتلی بدر لما اُلقوا فی القلیب قام رسول اللّٰہ ﷺ علی راس القلیب وقال ھل وجدتم مَا وعدہ ربکم حق۔ فقال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم المیت یَا رسول اللّٰہ ﷺ فقال علیہ السلام ما انتم باسمع من ھولاء قلنا ھو غیر ثابت فانہ لما بلغ ھذا الحدیث عَائشۃ رضٰ اللہ تعالیٰ عنھا قالت کذبتم علی رسول اللّٰہ ﷺ فانہ تعالٰ قال انک لا تسمع الموتی وَمَا انت بِمُسْبِعٍ من فِی القبور علی انہ علیہ السَّلام کان مخصوصا بہ معجزۃ لہ وقیل المقصود وعظ الاحیاء لا افہام الومتی کام روی عن علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہ اذا اتی المقابر قال علیکم السلام دیار قوم مؤمنین اما نساؤکم فقد نکحت واموالکم فقد قسمت واما دارکم فقد سکنت فھذا خبرکم عندنا وما خبرنا عندک۔ عبارت عین شرح ہدایہ جلد ثانی ص ۶۴۰ مطبوعہ عالی لکھنو))
’’کیونکہ مقصود کلام سے سنانا ہے، اور میت سننے کے لائق نہیں ہے۔ آیا نہیں دیکھتا تو طرف اس کی کہ اللہ فرماتا ہے۔ ((اِنک لَا تُسْمِعْ الْمَوْتٰٰ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُورٍ)) اگر کوئی شبہ کرے، کہ آنحضرت ﷺ نے بدر کے مردوں سے کلام کی اور ان کو ان کے ناموں سے پکارا، اور فرمایا ((ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فقد وجدت ما وعدنی ربی حقا)) میں کہتا ہوں۔ اس کا جواب ملا اکمل نے یہ دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا معجزہ ہے۔ اور فرمایا کیا، تو دیکھتا نہیں۔ کہ جب لوگوں نے کہا یا رسول اللہ یہ تو سنتے نہیں۔ فرمایا آنحضرت ﷺ نے جیسے تم سنتے ہو، یہ بھی سنتے ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ کی غرض اس سے یہ تھی کہ جب کچھ میں ان کو کہتا ہوں، اس کو یہ حق جانتے ہیں۔ کہا کا کی نے اگر کوئی شبہ کرے کہ جب مقتول بدر گڑھے میں ڈالے گئے۔ اور آنحضرت ﷺ نے گڑے پر کھڑے ہو کر فرمایا: ((ہل وجد تم ما وعد ربکم حقا)) حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ نے کہا: آیا میت سے کلام کرتے ہو، آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب میں فرمایا: تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ خبر ثابت نہیں، کیونکہ جب یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا: تم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ} علاوہ اس کے یہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص اور آنحضرت کا معجزہ ہے، اور بعض کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود زندوں کو وعظ کرنا تھا۔ نہ مردوں کو سنانا جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ قبروں پر آئے، سلام کہہ کر فرمایا اے مؤمنین! قبروں والو! تمہاری عورتوں نے نکاح کر لیے تمہارے مال بٹ گئے، تمہارے گھروں میں اور آ بسے یہ تمہاری خبر ہم کو ہے۔ اور ہماری تم کو کیا خبر ہے۔‘‘
((قولہ وکذلک الکلام بان حلف لا یکلم فلانا اولا یدخل دار فلان لان المقصود من الکلام الافھام وذا بالاستماع وذالا یتحقق بعد الموت فان قیل روی ان قتلی بدر من المشرکین لام القوا فی القلیب قام رسول اللّٰہ ﷺ علی اھل القلیب وقال ھل وجدتم مَا وعد ربکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم الموتیٰ یا رسول اللّٰہ ﷺ فال ما انتم باسمع من ھؤلاء قلنا ھو غیر ثابت فانہ لما بلغ ھذا الحدیث لعائشۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت کذبتم علی رسول اللّٰہ ﷺ قال اللّٰہ تعالیٰ انک لا تسمع الموتی وَمَا انت بمسمع من فی القبور ثم لو صح ذلک کان ذلک معجزۃ رسول اللّٰہ وقیل المقصود بذلک وعظ الاحیاء ال افھام الموتی ونظیرہ ما روی ان علیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کان اذا اتی المقبر قال علیکم السلام دیار قوم مؤمنین اما نساؤکم فقد نکحت واما اموالکم فقد قسمت واما دارکم فقد سکنت فہذا خبرکم عندنا فما خبرنا عندکم۔ عبارت کفایہ شرح ہدایہ ج۲ ص ۱۴۲ مطبوعہ احمدی دہلی))
’’مردے سے کلام کرنے سے حلاف حانث نہں ہوتا۔ کیونکہ مقصود کلام سے سمجھانا ہوتا ہے۔ اور یہ موت کے بعد ثابت نہیں۔ اگر شبہ گذرے کہ جب بدری کافر گڑھے میں دالے گئے۔ تو آنحضرت نے ان پر کھڑے ہو کر فرمایا: ((ہل وجدتم ما وعد ربکم حقا)) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! موتیٰ سے کلام کرتے ہو۔ فرمایا: تم ان سے زیادہ نہیں سنتے تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ خبر ثابت نہیں ہے۔ کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب یہ خبر پہنچی تو فرمایا: تم نے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ کہا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {انک لا تسمع الموتیٰ۔ وما انت بمسمع من فی القبور} پھر افگر اس خبر کو صحیح بھی مان لیویں۔ تو یہ آنحضرت ﷺ کا معجزہ ہے۔ اور یہ بھی جواب دیا گیا ہے۔ کہ مقصود اس سے زندوں کو وعظ کرنا تھا۔ نہ مردوں کو سمجھانا۔ مثال اس کی یہ ہے کہ جب حضرت علی ر ضی اللہ عنہ قبروں پر گذرے تو فرمایا: سلام تم پر اے قوم مؤمنین اہل قبور تمہاری عورتوں نے نکاح کر لیے، اور تمہارے مال تقسیم ہو گئے۔ تمہارے گھروں میں کوئی سکونت کے لیے اور آبسے یہ خبر تمہاری تو ہم کو ہے۔ پس ہماری تم کو کیا خبر ہے۔‘‘
اس عبارت کا حاصل بھی یہی ہے، جو مکرر بیان ہو چکا ہے:
((وکذلک لو قال ان کلمتک فعبدی حر فکلمہ بعد موتہ لا یحنث لان المقصود من الکلام الافھام وذا ال یتحقیق فی المیت فان قیل قد روی ان النبی ﷺ قد تکلم اصحاب القلیب من اھل البدر من الکفار حین القاھم فی القلیب قام علی راس القلیب وقال ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم المیت یا رسول اللّٰہ ﷺ فقال ما انتم باسمع من ھولاء قلنا ھٰذا غیر ثابت بقولہ تعالیٰ انک لا تسمع الموتی وقولہ وَمَا انت بمسمع من فی القبور وان ثبت فھو معجزۃ لرسول اللّٰہ ﷺ وقیل المقصود من ذلک وعظ الاحیاء لا افہام الموتی: عبارت کاب مستخلص برکتنز الدقائق ص ۱۶۳ فی المطبع الواقع فی لکھنو
والموصل للثواب الی المیت ھو اللّٰہ تعالیٰ سبحانہ لان المیت لا یسمع بنفسہ۔ عبارت شرح فقہ اکبر ص ۱۵۹ مطبع محمدی واقع لاہور))
’’میت کو اللہ کے سوا ثواب کوئی نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ میت خود نہیں سن سکتی ہے:‘‘
((اذا حلف لا یکلم فلانا ابداً وکمہ بعد مَا مات لا یحنث فی یمینہ کذا فی المحیط فی الفصل الثانی والعشرین فتاویٰ عالمگیری جلد ثانی ص ۳۹))
’’جب قسم کھاوے آدمی کہ فلاں شخص سے کبھی کلام نہیں کروں گا۔ پھر اس نے اس کے مرنے کے بعد کلام کی تو وہ اپنی قسم میں حانث نہ ہو گا۔‘‘
((رای الامام ابو حنیفۃ من یاتی القبور لاھل الصلاح فیسلم ویخاطب ویتکلم ویقول یا اھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من اثرانی اتیتکم ونادیتیم من شھور ولیس سوالی منکم الا الدّعاء فھل دریتم ام غفلتم فسمع ابو حنیفۃ یقول یخاطب بھم فقال ھل اجابو الک قال لا فقال لہ سحقاً وتربت یداک کیف تکلم اجساداً لَ یستطیعون جواباً ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتاً وقرأ وما انت بمسمع من فی القبور فتاویٰ غرائب فی التحقیق المذاہب الامام الاعظم))
’’دیکھا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہ ایک شخص مقابر اولیاء میں آتا ہے، پس سلام کرتا ہے، اور خطاب و کلام کرتا ہے، اور کہتا ہے، اے اہل القبور آیا ہے، تم کو خبر اور ہے، کچھ تمہارے پاس اثر کہ میں آتا ہوں تمہارے پاس او رپکارتا ہوں، تم کو مہینوں سے اور نہیں سوال میرا تم سے مگر دعا پس آیا خبردار ہو یا غافل۔ پس سنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کلام اور خطاب اُس کے کو اہل قبور سے پس کہا۔ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس سے آیا جواب دیا۔ تجھ کو انہوں نے کہا نہیں، پھر کہا۔ امام نے دوری ہو جیو تجھ کو رحمت خدا سے اور خاک میں ملیں تیرے دونوں ہاتھ کیا کلام کرتا ہے، تو مردوں سے کہ طاقت نہیں رکھتے جواب کی۔ اور مالک نہیں کسی چیز کے ۔ اور کسی کی آواز نہیں سنتے۔ اور پڑھی یہ آیت: {وما انت بمسمع من فی القبور} ’’یعنی تو نہیں سنا سکتا۔ اہل قبور کو۔‘‘ پس بیچ زجر و توبیح امام ہمام کے پکارنے والے کے حق میں تامل کران نہ چاہیے۔‘‘
((لا نزاع فی ان المیت لا یسمع انتہی۔ شرح مقاصد۔ وکان حدیث ما انتم باسمع منھم لم یثبت عندھا ومذھبنا ان اھل القبور یعلمون ما سمعوا قبل الموت ولا یسمعون بعد الموت۔ کرمَا فی شرح بخاری))
’’یعنی حدیث ((ما انتم باسمع منہم)) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک ثابت نہیں۔ اور ہمارا مذہب یہ ہے، کہ اہل قبور مرنے کے پہلے سنتے جانتے تھے، اور موت کے بعد نہیں سنتے۔‘‘
((واما قولہ انک لا تسمع الموتیٰ ونحن لا تنکران المیت لا یسمع)) (ابکار الافکار)
یعنی ہم عدم سماع موتیٰ کے منکر نہیں۔
((الصالحیۃ اصحاب الصالحی ومذھبھم انہم جوزوا قیام العلم والقدرۃ والارادۃ والسمع والبصر بالمیت ویلزمھم جواز ان یکون الناس مع اتصافھم بہذہ الصفات امواتا وان لا یکون اللّٰہ تعالیٰ حیا۔ شرح موافق وھٰؤلاء کالموتی الذین لا یسمعون۔ (بیضاوی) ای الکفار شبھھم بہم فی عدم السماع (جلالین) ان الذین تحرص علی ان یصدقوک بمنزلتہ الموتی الذین لا یسمعون۔(کشاف))
’’فرقہ معتزلہ صالحیہ اصحاب صالحی کے ہیں۔ ان کا مذہب ہے کہ علم اور قدرۃ اور ارادہ اور سمع اور بصر میت میں موجود ہے، لیکن ان پر اعتراض لازم آتا ہے، کہ زندہ لوگوں کو بھی بایں صفات مردہ کہیں، اور اللہ تعالیٰ زندہ نہ ہو۔‘‘
یعنی کفار مثل مردوں کی ہیں، جو نہیں سنتے۔
یعنی کفار کواللہ تعالیٰ نے مردوں سے نہ سننے میں تشبیہ کی ہے۔
یعنی اے محمد ﷺ! جن کفار سے تو یہ امید رکھتا ہے، کہ تیری تصدیق کریں۔ وہ بمنزلہ مردوں کے ہیں۔ جو نہیں سنتے، اور نیز عدم سماع موتیٰ مذکور ہے، جامع الصغیر ونہایہ وعنائیہ و نہایۃ العقول مؤلفہ امام رازی و احاشیہ بیضاوی مؤلفہ خفا جی وشرح بخاری امام سیوطی نظم الدلائل وشاشی ومعالم نیشا پوری وجامع القرآن و منشور وغیرہ میں ہے، یہاں تک جو بیان ہوا ہے وہ مذہب حنفی کے مطابق منقول ہے، اور اگر حدیث کی طرح رجوع کیا جائے، تو حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ موتیٰ نہیں سنتے۔ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ نیند اور موت دونوں بہنیں ہیں۔ جب آدمی نیند میں نہیں سنتا ہے۔ جو چھوٹی بہن ہے، اور جس میں کچھ دنیا میں بھی تعلق ہے، تو موت میں کب سن سکتا ہے، جو بڑی بہن ہے، اور جس میں بالکل دنیا سے بے تعلقی ہے۔
امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
((الموت والنوم یشتر کان فی کون کل واحد منہما توفیان النفس ثُم یمتاز کل واحد منہا عن الآخر بخواص معینہ۔۱۲))
’’یعنی موت اور نیند نفس کے فوت کرنے میں یکساں ہیں، فرق ہر ایک میں بعض خصوصیتوں سے ہے۔
((وعن ابی حجیفہ قال کان رسول اللّٰہ ﷺ فی سفرہ الذی ناموا منہ حتی طلعت الشمس ثم قال انکم کنتم امواتا فرد اللّٰہ الیکم ارواحکم رواہ ابن شیبۃ وعن قتادۃ ان النبی ﷺ قال لیلۃ الوادی انّ اللّٰہ قبض ارواحکم ابن شیبۃ وعن قتادۃ ان النبی ﷺ قال لیلۃ الوادی انّ اللّٰہ قبض ارواحکم حین شاء وردھا حین شاء رواہ البخاری والنسائی وابو داؤد واحمد وابن شیبۃ))‘‘
’’اور ابی حجیفہ سے مروی ہے کہ تھے آنحضرت ﷺ جس سفر میں لوگ سو گئے، اور نماز قضاء ہو گئی، یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ فرمایا آنحضرت ﷺ نے تحقیق تم مردے تھے، تمہاری طرف اللہ نے تمہارے روح پھیر دیئے۔‘‘
یعنی آنحضرت ﷺ نے وادی کی رات میں فرمایا: تحقیق اللہ نے جب چاہا تمہارے ارواح کو قبض کر لیا۔ اور جب چاہا چھوڑ دیا۔
اور اگر صرف عقل اور فلسفہ کی طرف دیکھا جائے۔ تو اس سے بھی عدم سماع موتیٰ ہی ثابت ہے۔ چنانچہ علامہ تفتازانی شرح مقاصد میںفرماتے ہیں:
((لما کان ادراک الجزئیات مشروطا عند الفلاسفۃ بحصول الصورۃ فی الاٰلات فعند مفارقۃ النفس وبطلان الالات لا تبقی مدرکۃ للجزئیات ضرورۃ انتفاء المشروط باانتفاء الشرط))
’’یعنی جب جزئیات یعنی خاص چیزوں کا جاننا حکما فلاسفہ کے نزدیک اس شرط پر ہے کہ صورت شے کی آلات یعنی حواس میں آوے۔ تو پس جب نفس نے حواس کو چھوڑ دیا۔ اور حواس فنا ہو گئے، تو نفس کا جزئیات کا جاننا بھی باطل ہو گیا۔ کیونکہ شرط کے جانے سے شرط والی چیز بھی جاتی رہتی ہے۔‘‘
اور شاہ عبد العزیز اپنے فتویٰ میں فرماتے ہیں: ارواحیکہ از ابدان مفارق شدہ اند، تاثیر آنہادر عالم اصلاور شرع نیامدہ وہم باعتبار فلسفہ تاثیر آنہا در عالم اصلا درست نمے آید نزیراکہ فلاسفہ ارواح مفارقہ را یا مشغول بہ لذات روحانی سید انند و گرفتار آلام روحانی آنہارا تصرف در عالم کجا است۔۱۲۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عدم سماعی موتیٰ قرآں شریف و حدیث شریف و کتب فقہ سے مفصل ثابت ہے۔ اور اس کے مقابلے یعنی سماع موتیٰ ہیں۔ اول تو کوئی دلیل نہیں۔ اور اگر کوئی ہے بھی تو دلائل عدم سماع کے مقابل و برابر نہیں ہو سکتیں۔ کیوں کہ عدم سماع موتیٰ ایسا صریح نص قرآنی سے ثابت ہے۔ جو یقین مفید اور قطعی الثبوت ہے۔ (لواء المہدی، ص ۲۲۔۲۳، بَقِیَہ باب الروح)