سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) قبروں میں مردے سنتے ہیں یا نہیں؟

  • 4416
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1106

سوال

(227) قبروں میں مردے سنتے ہیں یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں میں مردے سنتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم یہاں علمائے حنفیہ وغیرہ کے اقوال ذکر کرتے ہیں۔ جن کے ضمن میں اس سوال کا جواب آ جائے گا۔ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

((لا یجوز ما یفعل الجھال بقبور الاولیاء والشھداء من السجود والطواف حولھا واتخاذا البروج والمساجد علیھا ومن الاجتماع بعد الحول کا لا عیاد ویسمونہ وعرسا))

’’یعنی جو کچھ جاہل لوگ ولیوں اور شہیدوں کی قبروں سے کرتے ہیں، جائز نہیں۔ جیسے ان کی قبروں کو سجدہ کرنا، ارد گرد طواف کرنا، اس پر گنبد یا مسجد بنانا اور سال بسال عید کی طرح جمع ہونا، اور اس کا نام عرس رکھنا۔‘‘

شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ مدارج النبوت میں لکھتے ہیں۔ عادت نبود کہ برائے میت جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورو نہ غیر آن وان مجموعہ بدعت است۔ یعنی میت کے لیے جمع ہونا اور قرآن خوانی اور ختم خواہ قبر ہو یا اور جگہ یہ سب بدعت ہے۔

شیخ علی تقی اُستاد الاستاد شیخ عبد الحق صاحب رسالہ رد بدعات میں لکھتے ہیں:

((الاجتماع للقرأۃ بالقراٰن علی المیت بالتخصیص فی القبرۃ او المسجد او البیت بدعۃ مذمومۃ))

’’یعنی میت کی قرآن خوانی کے لیے خاص کر جمع ہونا یا قبر یا مسجد یا گھر میں بدعت مذمومہ ہے۔‘‘

آفندی رسالہ رد البدعات میں کہتے ہیں:

((ومن المنکرات فی المعروفات فی زماننا۔ احضار الحلاویٰ فی المساجد ای فی لیلۃ من شھر رمضان واکل الحبوب السبعۃ لیوم عاشورا والاجتماع علی المقبرۃ فی الیوم الثالث وتقسیم الورد الطیب والثمار وغیرھا ثمہ اوالا طعام فی الایام المخصوصات کا الثالث والخامس والتّاسع والعّاشر والعشرین والاربعین والشھر بالسادس وانتھا ملخصا))

’’یعنی بری باتوں سے جو ہمارے زمانے میں مشہور ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں مسجدوں میں حلوہ لانا۔ یعنی رمضان کی رات میں خصوصیت کے ساتھ اور عاشورہ کے دن کھانا پکانا (جسے حلیم و کھچڑا کوٹا وغیرہ کہتے ہیں) اور قبر پر تیسرے روزہ جمع ہونا۔ اور اس جگہ خوشبو وغیرہ تقسیم کرنا اور خاص خاص دنوں میں کھانا کھلانا جیسے تیجہ، پانچواں، نواں، دسواں، بیسواں، چالیسواں، شش ماہی برسی۔‘‘

 اسی طرح فتاویٰ بزازیہ اور جامع الروایات اور مصلّٰی میں ہے۔ اور شاہ ولی اللہ صاحب وصیت نامہ میں لکھتے ہیں۔ از بدعات شنیعہ ما مردم اسراف است در ماتم۔ سوئم و چہلم و ششماہی و فاتحہ و سالینہ وان ہمہ رادر عرب اول وجود بنود مصلحت آن ست کہ غیر تعزیہ وارثان میت تاسہ روز طعام ایشاںن یک شبان روز رسمے نباشد۔یعنی ہمارے لوگوں کی سخت بدعات میں سے تھے۔ ماتم میں فضول خرچی اور تیجہ اور چالیسواں اور ششماہی اور فاتحہ اور برسی اور ان تمام کا اعرب اول (خیر القرون) میں وجود نہ تھا۔ مصلحت یہ ہے کہ میت کے وارثوں کی تسلی تین روز تک اور ایک دن رات میت کے وارثوں کو کھانا کھلانا ان دونوں کاموں کے سوا کوئی رسم نہیں ہونی چاہیے۔ فتح القدیر کتاب الجنائز میں حنفیہ کے سرتاج ابن اہمام لکھتے ہیں:

((ھذا عند اکثر مشائخنا وھو ان المیت لا یسمع عند ھم))

’’یعنی ہمارے اکثر مشائخ اس پر ہیں کہ میت نہیں سنتی۔‘‘

اور کافی شرح وافی باب بیان احکام الیمین میں ہے۔

((والمقصود من الکلام الافھام واذا بالاستماع وذا ال یتحقق بعد الموت))

’’یعنی مقصود کلام سے اپنا ما فی الضمیر بتلانا ہے۔ اور یہ سنانے کے ساتھ ہوتا ہے اور سنانا میت میں نہیں پایا جاتا۔‘‘

اسی طرح عینی شرح کنز اور مستخلص شرح کنز وغیرہ میں ہے۔ اس قسم کی روایتیں بہت ہیں ہم نے بقدر ضرورت پر اکتفا کیا ہے۔ ((ما قل وکفی خیر ممان کثر و)) لیکن ایک روایت اور ذکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں خاص امام ابو حنیفہ صاحب کا مواقعہ مذکور ہے۔ غالباً وہ نہایت ہی مفید ہو گی۔ غرائب فی التحقیق المذاہب میں ہے:

((رای الامام ابو حنیفۃ من یاتی القبور الصلاح فیسلم ویخاطب ویتکلم ویقول یا اھل القبور ھل لکم من خیر وھل عندکم من اثرانی اٰتیتکم من شھور ولیس سوالی منکم الا الدعاء فھل دریتم ام غفلتم فسمع ابو حنیفہ یقول یخاطبہ بھم فقال ھل اجابوا لک قال لا فقال لہٗ سحقًا لک وتربرت یداک کیف تکلف اجساداً لا یستطیعوا جواباً ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتاً وقرأ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ))

’’یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جو صالحین کی قبروں پر آتا۔ پس سلام ڈالتا۔ اور ان سے خطاب کرتا اور کلام کرتا اور کہتا کہ اے اہل قبور! کیا تمہارے لیے بھلائی ہے کیا تمہارے پاس کوئی نشان ہے میں تمہارے پاس کئی ماہ سے آتا ہوں۔ اور پکارتا ہوں۔ اور میرا سوال تم سے صرف دعا کا ہے کیا تم نے جانا یا غافل ہی رہے۔ پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جب یہ سنا تو اس شخص کو ان بزرگوں کے حق میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا انہوں نے تیری بات کو قبول کیا۔ کہا نہیں فرمایا: تجھ پر پھٹکار ہو۔ اور تو ذلیل ہو جائے تو ایسے جثوں سے کیوں کلام کرتا ہے۔ جو نہ جواب کی طاقت رکھتے ہیں۔ نہ کسی شئی کا اختیار رکھتے ہیں۔ نہ آواز سنتے ہیں۔ اور یہ آیت پڑھی: ((وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ)) یعنی تو اہل قبور کو نہیں سنا سکتا۔‘‘

اب ان لوگوں پر کتنا افسوس ہے کہ باوجود حنفی کہلانے کے اپنے امام کی تعلیم کی پرواہ نہیں کرتے۔ اور صاف کہتے ہیں کہ بزرگ سنتے ہیں۔ بلکہ ان کو عالم الغیب مانتے ہیں۔ جو قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے بالکل خلاف عقیدہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ جو شخص یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ کل کی بات جانتے ہیں۔ اس نے بڑا بہتان باندھا اور بحر الدائق شرح کنز الدقائق وغیرہ میں لکھا ہے کہ جو شخص نکاح کے وقت خدا اور رسول کو گواہ کرے وہ کافر ہے۔ کیونکہ اس کے رسول کو حاضر ناظر جانا خدا ان لوگوں کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ (وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین)

(رسالہ بدعات کی تردید ص ۱۴)(شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی دہلوی رحمہ اللہ)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 381-384

محدث فتویٰ

تبصرے